ایدھی کے انتقال کی خبر نے نا صرف پاکستان
بلکہ دنیا کو سوگوار کر دیا ، عبدالستار ایدھی پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن
کے تاحیات صدر رہے اور ان کی ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی
ہوئی ہیں،اور ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی’’ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن ‘‘کی
سربراہ ہیں۔کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن
عبدالستار ایدھی کے پیچھے ایک نہیں بلکہ دو عورتوں کا ہاتھ تھا، جنھوں نے
انھیں کامیاب ہی نہیں، عظیم ترین بنا دیا۔ان میں سے پہلی عورت ان کی والدہ
تھیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کو گھٹی میں ڈال کر ایدھی کو پلا دیا، اور
دوسری ان کی درد آشنا اہلیہ، جو اپنی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر خدمت کے
مشن میں ایدھی کے شانہ بشانہ رہیں۔جی بالکل یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بلقیس
ایدھی ہم میں موجودہیں ،کیونکہ بلقیس ایدھی وہی خاتون ہیں جو ماں بن کر
انسانیت کو بچا رہی ہیں ،آپ کے شب و رو ز ایدھی سنٹرمیں بیک وقت کئی امور
سر انجام دینے میں گزر تے ہیں ،آپ کا سراپا و ایثار و محبت جھولے میں پڑے
لا وارث بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے آپ محض 16سال کی کم عمری سے
ایدھی کی بے لوث خدمات کا حصہ ہیں۔بلقیس بانو ایدھی عبد الستار ایدھی کی
بیوہ، ایک نرس اور پاکستان میں سب سے زیادہ فعال مخیر حضرات میں سے ایک
ہیں۔آپ کی عرفیت’’ مادر پاکستان‘‘ ہے۔آپ 14 اگست1947ء میں کراچی میں پیدا
ہوئیں۔غریب اور مظلوم عورتوں کے لیے بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت
پاکستان نے آپ کو ہلال امتیازسمیت متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا ہے۔ بھارتی
لڑکی گیتا کی دیکھ بھال کرنے پر بھارت نے انہیں’’ مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء
‘‘سے بھی نوازا ہے۔بلقیس ایدھی نے 16 سال کی عمر میں عبدالستارایدھی کے
قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ
ورانہ تربیت حاصل کی۔جب آپ نے ٹریننگ سکول میں داخلہ لیاتو یہاں پر لڑکیوں
کو مڈ وائف اور صحت سے متعلق چھ ماہ کی بنیادی ٹریننگ دی جاتی تھی۔اس وقت
آپ آٹھویں جماعت کی طالب علم تھیں آپ کو پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہ تھی اس
زمانے میں اس سکول میں ایک دوا خانہ چند ہندو اور چند کرسچن نرسیں کام کیا
کرتی تھیں ۔مسلمان خاندان اپنی عورتوں کے لیے نرس کاکام مناسب نہیں سمجھتے
تھے ۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا نرسیں کم ہوتی گئیں ان کی جگہ پوری کرنے کے
لیے مولانا نے نئی نرسیں تلاش کر کے رکھیں ان میں ایک بلقیس بانو تھیں ۔ٹرینگ
مکمل ہونے کے بعد بلقیس بانو کی محنت،شوق اور جذبہ دیکھ کر مولانا ایدھی نے
بلقیس بانو کو نرسنگ شعبے کا انچارج بنا دیا ۔انہوں نے اس شعبے میں دو برس
تک جانفشانی اورانتہائی لگن کے ساتھ کام کیا ۔آپ کی یہی محنت اور جذبہ
ایدھی کے دل میں گھر کر گیا اور آپ کو نرسنگ کے ادارے کی ذمہ داریاں سونپ
دیں۔بعدا زاں ایدھی نے آپ کو شادی کا پیغام دیا جسے آپ نے قبول کیا۔ یوں
1966ء میں بلقیس بانو، عبدالستار ایدھی کی رفیق حیات بن گئیں۔ بلقیس جب مسز
ایدھی بنیں تو ان کی آنکھوں میں بھی وہی خواب تھے جو ہر لڑکی کے ہوتے ہیں
لیکن کام کی مصروفیت کی بنا پر جب ایدھی اپنی شادی کی رسموں میں بھی بھرپور
طریقہ سے شرکت نہ کر پائے تب بھی بلقیس ایدھی نے کوئی شکوہ نہ کیا اور جب
شادی کے فوراً بعد کام پر دوبارہ آنے لگیں تو لوگوں کی تنقید کے جواب میں
کہا میں ابتدا سے ہی اپنے شوہر کے طرز زندگی پر عمل پیرا ہونا چاہتی
ہوں۔مجھے ایدھی اور اس کے مشن سے یکساں محبت ہے۔شادی کے بعد ان دونوں سماجی
شخصیات نے بہت سے نئے فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ بے گھر ہونے والی خواتین کو
ادارے میں جگہ دینا ہو یا ایدھی میٹرنٹی ہوم میں زچہ وبچہ کی دیکھ بھال
کرنا ہو، اس طرح کے خواتین سے متعلق تمام فلاحی کاموں کی نگرانی بلقیس
ایدھی کرنے لگیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سے متعلق فلاحی کاموں کے لیے
بلقیس ایدھی نے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی بھی بنیاد رکھی۔ یہ فاؤنڈیشن
لاوارث بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر لاوارث اور بے گھر لڑکیوں کی شادیاں
کروانے کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کام بلقیس ایدھی اپنی دو
بیٹیوں اور الگ عملے کے ساتھ دیکھتی ہیں۔ بچوں کو قتل سے بچانے کے لیے
جھولا پراجیکٹ بلقیس ایدھی کے نمایاں ترین فلاحی کاموں میں سے ایک ہے۔
پاکستان بھر میں قائم ایدھی فاؤنڈیشن کے ہر مرکز کے باہر ایک جھولا رکھا ہے
جس پر لکھا ہے ’’بچوں کو قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں‘۔ ان جھولوں میں
لوگ ایسے بچوں کو خاموشی سے ڈال جاتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے خاندان کے لیے
قابل قبول نہیں ہوتے۔ ان بچوں کو ایدھی سینٹر میں پالا پوسا جاتا ہے۔ پھر
ایسے بچوں کو بے اولاد والدین کو دینے کے کام کی نگرانی بھی بلقیس ایدھی کی
ذمہ داری ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ کئی ہزار خواتین کو پناہ دینے، انہیں روزگار
کے
مواقع فراہم کرنے اور کسی وجہ سے اپنے گھر سے ناراض ہو کر آنے والی خواتین
کی ان کے خاندان کے ساتھ صلح کرا کے انہیں ان کے گھروں تک پہنچانے جیسے کام
بھی بلقیس ایدھی انجام دیتی ہیں۔ ایدھی کہتے تھے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ
بلقیس سماجی مشن اور نصب العین کے بارے میں کبھی بھی غیر سنجیدہ نہ تھیں۔
وہ سب جانتی تھیں لیکن اس نے اپنی زندہ دلی کے باعث ساری گرانباریوں کو خوش
گوار بنا دیا تھا تاکہ کام کاج کے دوران مزاح کا پہلو برقرار رہے ایدھی
کواس بات کا افسوس تھا اوراس کاذکر بھی کیا کرتے تھے کہ مجھے ایک اچھی بیوی
ملی لیکن میں اپنے مقصد کی وجہ سے انھیں زیادہ وقت نہیں دے سکا۔اس کااظہار
ان الفاظ میں کرتے تھے کہ ’میں جانتا تھا کہ بلقیس ایک غمگسار عورت ہے جس
نے عذابوں کی زندگی کو اپنے سینے سے لگائے رکھا جو بے حد اور بے حساب تھے
جنھیں اس نے کبھی بیوی، کبھی ماں کبھی ایدھی فاؤنڈیشن کی درد آشنا کے روپ
میں جھیلا۔۔۔ لیکن کام کی مصروفیت کے باعث شاید میں اس کے دکھ بانٹنے کے
لیے مناسب وقت نہ دے سکا۔‘عبدالستار ایدھی نے اپنی روزمرہ کی تمام تر ذمہ
داریاں بلقیس کے سپرد کر دی تھیں۔ایدھی کا کہنا تھا کہ’’ فاؤنڈیشن کی
کامیابی میں 70%حصہ ان کی اہلیہ کا ہے‘‘ ۔ایدھی اپنی اہلیہ بلقیس ایدھی کی
تعریف ان الفاظ میں کرتے تھے کہ ’’بلقیس بہت زیادہ پراگریسو ہیں اور ہمیشہ
انہوں نے ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی کی ہے‘‘۔مولانا کا یہ بھی کہنا تھا
کہ جب میں نے بلقیس سے شادی کی تو ہم ایک جمع ایک سے دو نہیں بلکہ ایک جمع
ایک سے گیارہ بن گئے۔
پاکستان کو بلقیس بانو ایدھی جیسی عظیم اور بلند حوصلہ خواتین کی ضرروت
ہے،لہذا ایدھی کا دنیا فانی سے کوچ کر جانے کا بے حد غم ہے مگر ہمیں بانو
کی وہ عزت دینی ہے جو ہم ایدھی کو نہیں دے سکے اب بھی اس بات کو سمجھنے
کاوقت ہے کہ جو دنیا سے چلے جاتے ہیں وہ کبھی واپس نہیں آتے ہمارے آنسو دکھ
پچھتاؤے بھی انھیں واپس نہیں لا سکتے مگروہ اپنے اعلیٰ کردار کی روشنی اور
عظیم کارناموں کی صورت میں ہمارے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔جس طرح ایدھی
۔۔۔
ایدھی بھی دنیا سے رخصت ہو چکے اور جاتے جاتے ہمارے احساس جگا گئے کہ ایک
عظیم فرشتہ صفت انسان کی جیتے جی قدر نہیں کی گئی جسکے وہ حق دار تھے ۔انکے
مشن میں انکا اسطرح سے ساتھ نہیں دیا گیا جیسا دینا چاہیے تھا۔۔۔حتی کہ
کوئی ا عزاز بھی انکے معیار اہلیت انکے قد برابر نہیں دیا گیا۔۔۔صد شکر
انکے مرنے کے بعد ہی صحیح احساس اجاگر تو ہوا ورنہ زندگی بھر تو ان کو
مشکوک نظر سے دیکھا جاتا رہا کبھی کوئی الزام تو کبھی کوئی۔۔ یہ سلسلہ تو
ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے کئی کم ظرف توکئی طرح کی ہرزہ آرائیاں
کرنے میں مصروف ہیں۔۔۔خیر جنت جہنم کے فیصلے تو شکر ہے کہ کریم اﷲ خود
فرماتا ہے ورنہ لوگ تو کسی کو جنت میں جانے ہی نہ دیتے۔۔۔..تو بات ہورہی
تھی احساس کی ۔۔.ہمیں احساس ہو چکا ہے کہ ایدھی جیسا ڈھونڈنا مشکل ہے ۔۔اور
ایدھی جیسا بننا بھی آسان کام نہیں ہے تو ایدھی کی اور ان کے مشن کی قدر
ہونی چاہیے تھی ۔۔۔۔ مگرخوشی کی بات یہ ہے کہ ابھی ایک ایسی ہستی زندہ ہے
جو نہ صرف ایدھی جیسی ہے۔۔۔. بلکہ ایدھی کے ساتھ شب وروز انکے شانہ بشانہ
مصروف عمل رہی ہے ۔۔ایدھی کی تربیت یافتہ ہے۔۔۔ اور انسانیت کی فلاح کے اس
عظیم مشن میں انکے ساتھ ساتھ درد کی راہوں سے گزرتی رہی ہیں ایدھی اپنی نور
بھری آنکھیں عطیہ کر گئے اور اپنا درد دل اپنی اس درد آشنا کو سونپ گئے۔۔۔۔
تو قدم بڑھائیں اور جو تکریم قدر و منزلت عبدالستارایدھی کو ہم انکی زندگی
میں نہ دے سکے وہ بلقیس ایدھی کو تو دے سکتے ہیں نااب ہمیں زندوں کی بجائے
مردوں کو تکریم دینے والے رواج کو خیر بادکہنا ہے اورعبدالستار ایدھی کے
مشن کو بلقیس ایدھی کے ساتھ مل کر آگے بڑھانا ہے۔ |