تاریخی ورثے کی حفاظت اور پبلسٹی

گذشتہ دنوں امریکہ سے میرے فرسٹ کزن کی بیٹی اور نواسے نواسیاں پاکستان کے دورے پر تقریبا 18سال کے بعد آئے۔ انہوں نے کراچی میں قیام کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کا وزٹ کیا بعد ازاں انہوں نے پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں تین ہفتے قیام کیا کیوں کہ انہیں تاریخی مقامات سے کافی دلچسپی تھی اس لئے میں نے انہیں خصوصی طورپر لاہور کے تاریخی مقامات جن میں بادشاہی قلعہ، مسجد، مینار پاکستان، شالامار باغ، میوزیم، قطب الدین ایبک، نور جہان، جہانگیر کے مقبرے، انارکلی بازار، واہگہ بارڈر وغیرہ دیکھنے کی خصوصی تاکید کی۔ انہوں نے پہلی فرصت میں لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کی۔ ان تاریخی مقامات کو جو بھی پہلی مرتبہ دیکھتا ہے وہ ان کی پرکشش اور تاریخی حیثیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لاہور کو جو تاریخی ورثہ قدرت نے دیا ہے اس کی مثال شاید ہی کسی اور شہرکے ساتھ دی جاسکتی ہو لیکن بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہم نے جسطرح پاکستان بننے کی نظریات کو پس پشت ڈال کر اغیار، یہو د و نصاری کے نظریات اور ایجنڈے پر کام کیا ویسے ہی ہم اپنے تاریخی ورثے کی بھی حفاظت نہ کی اور انہیں ورلڈ ورثہ قرار دئے جانے کے باوجود ہماری حکومتیں اور محکمہ ٹورازم ان کی دیکھ بھال، تزئین و آرائش کرنے میں مکمل ناکام ثابت ہواہے۔ یہ قصہ صرف لاہور شہر کا نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں موجود ہمارے صدیوں پرانے تاریخی ورثہ کا ہے۔ میرے رشتہ داروں نے پاکستان آنے سے پہلے ترکی کا دورہ کیا تھا انہوں نے وہاں کے تاریخی ورثے سے جب لاہور کے ورثہ کا موازنہ کیا تو مجھے بتایا کہ کسی طریقے سے بھی ہمارا ورثہ ان سے کم نہیں ہے لیکن جسطرح سے ترکی، بھارت میں ان کی حفاظت کی جاتی یہ ہر مقام پر انگلش گائیڈ، پارکنگ کی سہولت موجود ہوتی ہے پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ جگہ جگہ سے آپ دیکھ لیں قلعہ لاہور ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہے۔ گندگی بے تحاشہ موجود ہے۔ کارپارکنگ کی جگہ ناپختہ ہے۔ بارش کے دوران گاڑی پارک کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ انکا بلکہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ہر پاکستان کا یہ رونا ہے کہ پاکستان کو اﷲ تعالی نے ٹیکسلا، موہنجوداڑو، قلعہ بالا حصار، چترال کی ہزاروں سال پرانی یونانی تہذیب، تخت پائی کے کھنڈرات، ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود رحمان ڈھیری اور راجہ بل کے قبل مسیح کے کھنڈرات اور دیگر کئی سے قلعوں، مساجد، مقبروں، باغوں سے نوازا ہے لیکن ان کی دیکھ بھال اس انداز سے نہیں ہورہی جس طرح ہونی چاہئیے۔ اگر ہم ان کی دیکھ بھال سائنسی بنیادوں پر کریں اور ہمارے ملک کے حالات بہتر ہوجائیں تو ہمارا ملک تاریخی اعتبار سے اتنا قوی ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح یہاں آئیں اور اربوں کا زر مبادلہ بھی ملے۔ لیکن حکومت کی توجہ اس اہم شعبے کی طرف بالکل نہیں ہے۔ دوسرے ہم نے اپنے اندرونی حالات غیروں کی تھونپی ہوئی جنگ کی بدولت اتنے خراب کرلئے ہیں کہ دیگر ممالک کو تو چھوڑیں ہمارے اپنے ملک کے سیاح بھی ان علاقوں کا دورہ کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ انہیں سہولیات میسر نہیں ہیں۔ اوپر سے ستم ظریقی دیکھیں کہ یہاں بیشتر ایسے مقامات موجود ہیں جیسے بھرت ضلع بنوں او ررحمان ڈھیری ڈیرہ اسماعیل خان جہاں کھدائی کا کام 5فیصد بھی نہیں کیا گیا صرف ایک چوکیدار کی تعیناتی کردی گئی ہے وہ بھی کسی افسر یا ٹیم کے آنے کے وقت آجاتاہے۔ باقی اسکا کام صرف تنخواہ وصول کرناہے۔ اسکے علاوہ اکثر مقامات جن میں ٹیکسلا، سوات، تخت پائی کے کھنڈرات قابل ذکر ہیں۔ غیر قانونی کھدائی کے ذریعے قیمتی نواردات کی سمگلنگ کا دھندہ بھی ملک میں عروج پرہے۔ میوزیموں سے قیمتی نواردات چرا کر ملی بھگت سے وہاں Duplicateرکھ دیے جاتے ہیں پھر انہیں بیرون ملک ملکی بھگت سے سمگلنگ کرکے اربوں کی رقم بنائی جاتی ہے ۔ آئے روز ہمارے ائیرپورٹس پر اکا دکا کارروائیاں نواردات کی پکڑ دھکڑ کی جاتی ہیں ان میں اکثر کسٹم، اے ایف سی، پی آئی اے کا عملہ بھی ملوث پایاجاتاہے لیکن خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کے باعث ملک کے قیمتی تاریخی ورثے کو دیگر ممالک میں فروخت کرنے کا دھندہ عروج پر ہے۔ حکومت وقت اور متعلقہ دفاتر کو ایسی کارروائیو ں کی روک تھام کیساتھ ساتھ ملک میں موجود تمام تر تاریخی ورثے کو ایک کتابی شکل میں محفوظ کرنا چاہئے جو سیاحوں کیلئے مددگار ہوں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ کیاجائے۔ ہر تاریخی مقام پر گائیڈ کا موجود ہونا ضروری قرار دیاجائے اور سیکورٹی کے انتظامات کو بہتر کیاجائے تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ قدت نے ہمیں ہر نعمت کیساتھ ساتھ بہترین اور اہمیت کے حامل ہزاروں سال پرانے تہذیبی ورثے سے بھی مالامال کیاہے۔ بدقسمتی سے جیسے ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہے ویسے ہی ہمارا ٹورازم کا محکمہ بھی عضو معطل ہے جو پاکستان کی یہ بہترین تصویر دیگر ممالک کو دکھانے میں مکمل ناکام ہے۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.