دہلی کی زہریلی ہوا
(Falah Uddin Falahi, India)
دہلی کی تاریخ میں پہلی بار وزیر اعلی
اروند کجریوال کی حکومت نے طاق جفت فارمولہ کو نافذ کرکے آلودگی پر کنٹرول
کرنے کی کوشش کی تھی ۔اس کے نتائج بھی کافی حد تک بہتر آئے ۔لیکن یہ عوام
صحت کو درست رکھنے کی پہل بھی سیاست کی نذر ہو گیا ۔اسے ناکام کرنے کے لئے
اپوزیشن نے وہ سب کیا جو کسی بھی مہذب ملک کی شان نہیں تھی۔اگر اپوزیشن یہی
خیال رکھتی ہے کہ عوامی کام نہ کرنے دیا جائے تو پھر یہ ملک کے مفاد میں
نہیں ہے اور نہ حکمرانی کا طریقہ ہے ۔یہ تمام حرکتیں عوام کے خلاف تھے ۔بہر
حال آج پھر دہلی میں آلودگی کی کیا حالت ہے اس کا اندازہ ہم بی بی سی میں
شائع ایک مضمون سے لگا سکتے ہیں ۔جس میں میکسیکو کی سفیر کی فکر مندی ظاہر
کی گئی ہے ،وہ جو کچھ دیکھ رہی ہیں ہندستان اور دہلی میں کوئی نہیں سوچ رہا
ہے ،انہوں نے آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات کو دیکھتے ہوئے تشویش کا اظہار
کیا ہے ۔جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ پرندے آسمانوں سے گرنے لگیں تو
ہوا کو صاف کرنے کے لیے غیر معمولی اقدام اٹھانے ہی پڑتے ہیں۔ دارالحکومت
نئی دہلی میں تعینات میکسیکو کی سفیر میلبا پریا نے اپنے ملک میں وہ دور
دیکھا ہے۔ اور اب نئی دہلی کی زہریلی ہوا کے بارے میں وہ اتنی فکرمند ہیں
کہ انھوں نے اپنی لمبی چمچماتی ہوئی سفارتی گاڑی چھوڑ کر آٹو رکشہ میں سفر
کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ شان کی سواری ہییہ شاید دنیا کا واحد آٹو رکشہ ہے
جس پر ایک قومی پرچم لہراتا ہے اور اس میں خاص طور پر سیٹ بیلٹ نصب کی گئی
ہیں۔میلبا پریا کہتی ہیں کہ 90 کے عشرے میں میکسیکو سٹی کی ہوا اتنی آلودہ
ہوگئی تھی کہ پرندے آسمان سے گرنے لگے تھے۔ وہ نئی دہلی کو ایک پیغام دینا
چاہتی تھیں، اس لیے انھوں نے آٹو رکشہ خریدنے کا فیصلہ کیا۔’میں ایک ایسی
سواری استعمال کرنا چاہتی تھی جو نئی دہلی کی سڑکوں کے لیے موزوں ہو۔ ہمارا
مقصد فضائی آلودگی کے بارے میں شعور پیدا کرنا بھی تھا، ہوا کو بہتر بنانے
کے لیے ہم سب کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، آٹو رکشہ دیکھ
کر لوگ دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، کچھ سفارتکاروں نے بھی ہمارے آٹو رکشہ کی
سواری کی ہے۔‘ملبا پریا کا پیغام واضح ہے، تھوڑی سی کوشش کی جائے تو ہوا کو
صاف کیا جاسکتا ہے۔وہ کہتی ہیں ’ہوا سے زیادہ جمہوری کوئی چیز نہیں، منصب
کسی کا کچھ بھی ہو، سب ایک ہی ہوا میں سانس لیتے ہیں، میکسیکو سٹی میں بھی
ہم نیآڈ ایون کے طرز کی سکیم استعمال کی، ایندھن کے معیار کو بہتر بنایا،
بہتر ٹیکنالوجی استعمال کی، صعنتوں کو شہر سے باہر منتقل کیا، میٹرو کے
نظام کو بہتر بنایا اور طویل کوشش کے بعد نتیجہ یہ ہوا کہ اب آسمان پھر
نیلا ہوگیا ہے، جسے بچے سرمئی سمجھنے لگے تھے۔‘نئی دہلی کا شمار دنیا کے سب
سے آلودہ شہروں میں کیا جاتا ہے، ملک کے باقی علاقوں میں بھی حالات زیادہ
مختلف نہیں۔ حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق نئی دہلی کے
باشندے فضائی آلودگی کی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں اور ان کی اوسط عمر
تقریباً چھ سال کم ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی
تھی کہ نئی دہلی میں تقریباً نصف بچوں کے پھیپڑے فضائی آلودگی کی وجہ سے
متاثر ہو چکے ہیں۔لیکن نئی دہلی کی ٹریفک ایسی ہے کہ یہاں آٹو رکشہ سے سفر
کرنا کوئی کھیل نہیں۔ خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ لیکن میلبا پریا
کہتی ہیں کہ نئی دہلی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ آٹو سے ہی سفر کرتا ہے اور
وہ بھی اسی ہوا میں سانس لیتی ہیں جس میں باقی دہلی زندگی گزار رہی ہیلبا
پریا کے ڈرائیور راجندر کمار سوٹ اور ٹائی میں آٹو چلاتے ہیں اور انھیں
اپنے سفیر پر فخر ہے۔ مکیش کمار کہتے ہیں ’شروع میں تھوڑا عجیب ضرور لگتا
تھا، لیکن اب عادت ہو گئی ہے، اگر میکسیکو کی سفیر آٹو میں سفر کرسکتی ہیں،
تو باقی لوگ کیوں نہیں؟‘لیکن میلبا پریا کہتی ہیں کہ لوگ ’آٹو رکشہ کو
غریبوں کی سواری سمجھتے ہیں۔‘ملبا پریا جب حکومت کی دعوت پر ایک دن
پارلیمان پہنچیں، تو سکیورٹی نے بہت ادب کے ساتھ انھیں گیٹ پر ہی روک دیا،
انھوں نے اپنا تعارف کرایا تو ’مجھ سے پوچھا گیا کہ میری سفارتی گاڑی کہاں
ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہی میری آفیشل سواری ہے!‘لیکن اس کے باوجود ان کے
آٹو رکشہ کو پارلیمان کے کمپلیکس میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔بنیادی سوال
یہ ہے کہ نئی دہلی کی ہوا کو صاف کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میلبا پریا
کا کہنا ہے کہ وہ کوئی حل تو تجویز نہیں کرسکتیں لیکن دہلی کو ایک طویل
مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔’ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ 15دن میں کچھ نہیں
بدلتا، میکسیکو میں برسوں کی جدوجہد کے بعد صورت حال بہتر ہوئی ہے ،
ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ لوگ گاڑیاں کم استعمال
کریں،لوگوں کو زہریلی ہوا کے خطرات سے آگاہ کرایا جائے۔۔۔ آسمانوں سے
پرندوں کے گرنے کا انتظار مت کیجیے۔ |
|