جلتی بجھتی قندیلیں

کون جانتا تھا کہ سوشل میڈیا پر تہلکہ مچانے والی فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ اپنی موت سے چند روز پہلے اسے گالیاں اور مر جانے کی بددعائیں دینے والے مومنوں اور پارساؤں کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہہ رہی ہو گی کہ جب میں مر جاؤں گی تو مجھے بہت یاد کرو گے ۔ اور ایسا ہی ہؤا اس کا آفیشل پیج ابھی ایکٹو ہے اور اس کی موت کے بعد اس کے فالوورز میں ڈھائی لاکھ کا مزید اضافہ ہؤا ہے ۔ کاش اسے اتنی مہلت مل جاتی کہ وہ اپنا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیتی ۔ لوگ انتظامیہ کو رپورٹ یا ریکوئسٹ کرنے کی بجائے جوق در جوق اس کے عقیدتمندوں میں شامل ہو رہے ہیں ۔ وہ کچھ بھی کر رہی تھی مگر اس کی نامناسب سرگرمیوں کو غیر معمولی اہمیت دینے والے بھی تو یہی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ گناہ صرف غلط کام کرنے والے کو ہوتا ہے اسے پذیرائی بخشنا بڑے ثواب کا کام ہے ۔ اسی لئے اسے اس پلیٹ فارم پر اتنا کامیاب بنایا ۔ ورنہ وہ اکیلی بھلا کیا کر سکتی تھی ۔

جو کچھ قندیل کرتی پھر رہی تھی کیا اس میں سارا قصور صرف اسی کا تھا ۔ کیا صرف وہی اتنی بھیانک سزا کی مستحق تھی؟ اسے ان راستوں پر کس نے ڈالا جہاں سے واپسی قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے ۔ ایک نیم صنعتی سماج میں ذہنیت جاگیردارانہ ہی ہوتی ہے ۔ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کے باوجود مردوں کی غیرت و عزت کا تصور عورت ہی کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے ۔مگر اس مظلوم بچی کے باپ بھائیوں کی غیرت اس وقت کہاں تھی جب یہ سب مل کر اس کی کمائی کھا رہے تھے؟ پہلے زبر دستی اس کی شادی کی جب وہ اپنے جاہل چمار شوہر سے مار کھاتی تھی تب انہیں غیرت نہیں آتی تھی ۔ اسے طلاق دے کر اور اس کا بچہ چھین کر اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا گیا تو ان غیرت والوں سے اسکی دو وقت کی روٹی کی ذمہ داری نہ اٹھائی گئی ۔ وہ اپنا پیٹ خود پالنے نکل کھڑی ہوئی ۔ وہ بس کنڈکٹر بن گئی تب یہ باپ بھائی ڈوب کر نہیں مرے ۔ وہ دوبئی ،ساؤتھ افریقہ میں دھکے کھا رہی تھی اور اسکے چھ غیرتمند مسٹنڈے بھائی اس کی کمائی پر عیش کر رہے تھے ۔ اسے نہ معاشی سرپرستی حاصل تھی اور نہ ہی دینی سطح پر رہنمائی ۔ وہ وینا ملک یا نرگس کے جیسا نصیب لے کر دنیا میں نہیں آئی تھی ۔ کوئی مولانا طارق جمیل اسے اس دلدل سے نکالنے کو نہیں آیا ۔ وہ بھٹکتی پھری اندھی گلیوں کی مسافر بن گئی مگر اپنے کنگلے بہن بھائیوں کی زندگیوں میں مالی آسودگیوں اور خوشحالیوں کی روشنی بھرتی رہی ۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ پھر یہ بد نصیب لڑکی ایک سازش کا نشانہ بنی اور خود اپنے بھائی کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دی گئی ۔ اسی بھٹکی بہکی ہوئی لڑکی کے طفیل میڈیا کے مداریوں میں راجہ اندر کا درجہ پانے والے مفتی قوی کے بارے میں خبریں ہیں کہ اسے بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

اور یقیناً اس تفتیش کا بھی وہی حال ہو گا جو کہ ممتاز قادری کیس میں مفتی حنیف قریشی کو شامل کئے جانے کا ہؤا تھا جو کہ سارے فساد کی اصل جڑ تھا ۔ اس جھوٹے مکار مفتی نے وڈیو ثبوت ہونے کے باوجود قادری سے قطعی لاعلمی اور لاتعلقی کے اظہار پر مبنی حلف نامہ داخل کرا دیا تھا حالانکہ قادری کے ساتھ ساتھ وہ بھی پھانسی چڑھائے جانے کے لائق تھا ۔ اب یہ ٹھرکی مفتی بھی دودھ کا دھلا بن کر سارا الزام قندیل کی بےراہروی کے سر دھر دے گا اور صاف بچ نکلے گا ۔ جب تک سوچ اور سماج میں اندھیرے پھیلانے والے اصل مکاروں اور عیاروں کا قلع قمع نہیں کیا جائے گا ایسی قندیلیں جنم لیتی رہیں گی اور بےدردی سے بجھائی جاتی رہیں گی ۔ یہ قندیل آخری نہیں تھی ابھی بہت اور پڑی ہیں نام نہاد غیرتیوں کے ہاتھوں قبر میں اترنے کے لئے ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1679450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.