گاؤں کی تقدیر سازی کا نادر موقع ....تعلیم یافتہ طبقہ کی ذمہ داریاں!

جموں وکشمیر ریاست میں پنچ سالہ موجودہ سرپنچوں وپنچوں کی مدت رواں برس کے جولائی ماہ میں اختتام پذیر ہورہی ہے۔آخری انتخابات مئی۔جون2011میں ہوئے تھے جبکہ پنچایتیںجولائی 2011مین تشکیل دی گئی تھیں۔امسال پنچایتی انتخابات کی مدت ختم ہونے سے قبل سرنو انتخابات کے لئے تیاریوں کا آغازگورنر این این ووہراہ نے گورنر راج کے دوران ہوچکا ہے۔ انہوں نے ایس سی/ ایس ٹی اور خواتین کے لئے پنچایتیں ووارڈ مخصوص کرنرنے، انتخابی فہرستوں کو اعلیحدہ اعلیحدہ کرنے اور ان کی پبلیشنگ اور ضلع پنچایتی افسران کو بطور نوڈل افسران تعینات کرنے کے احکامات صادر کئے تھے۔ اسی عمل کے تحت ایس سی/ایس ٹی اور خواتین کے لئے مخصوص پنچایتوں اور وارڈوں کے لئے ریاست کے تمام اضلاع کے ڈارفٹ پرپوزل تیار کر کے اخبارات کے ذریعہ شائع کیاگیا او رہے لوگوں سے اعتراضات طلب کئے گئے ہیں۔ یہ فہرستیں محکمہ دیہی ترقی وپنچایتی راج جموں وکشمیر کی ویب سائٹ، ناظم دیہی ترقی جموں کی ویب سائٹ کے علاوہ ”https://drdj.nic.in/whatNew.htm“ اس لنک پر بھی دستیاب ہے۔محکمہ دیہی ترقی کشمیر اور جموں صوبوں کے ڈائریکٹرز اور ضلع پنچایت افسر ان نے وارڈ حلقوں ، حلقہ پنچایتوں، بلاک اور ضلع کی اپ ڈیشن اور Mapping، انتخابی فہرستوں اعلیحدگی کے لئے روسٹر تیار کرنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ وارڈ ریزر(مخصوص)کرنے کا حمتی فیصلہ10اپریل2015کو لیاجانا ہے۔ جموں وکشمیر ریاست میں اس وقت کل 33,500سرپنچ وپنچ حلقے ہیں جن میں 4098سرپنچ اور 29402پنچ حلقے شامل ہیں۔ 4098سرپنچ حلقوں میں سے1953اور کشمیر صوبہ میں بشمول(لداخ خطہ) 2145سرپنچ حلقے ہیں، اسی طرح 29402پنچ حلقوں میں15,767وادی کشمیر(بشمول خطہ لداخ)اور 13635 پنچ حلقے صوبہ جموں میں ہیں۔ جہاں حکومتی وانتظامی سطح پرپنچایتی انتخابات کے وقت مقررہ پرانعقاد کو یقینی بنانے کے لئے تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں وہیں پنچایت حلقہ اور وارڈ حلقہ سطح پر بھی لوگوں نے زور وشور سے تیاریوں کا آغاز کر دیا ہے۔ گذشتہ 4برسوں تک جن سرپنچوں نے عام لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیاتھا، وہ بھی ان دنوں کافی متحرک دکھائی دے رہے ہیں تاکہ دوبارہ سے اپنی کامیابی کو یقینی بنایاجاسکے۔اس کے علاوہ درجنوں نئے چہرے بھی عوام کا ہمدرد، غمخوار اور خادم ہونے کا دعویٰ کر تے ہوئے پنچایتی انتخابات کے دنگل میں کودنے کے لئے لنگر لنگوٹے کس چکے ہیں۔ جس طرح ہندوستان کی مجموعی تعمیر وترقی کے لئے پارلیمانی انتخابات ، جموں وکشمیر ریاست کی ہمہ جہت اقتصادی، سماجی، سیاسی، تعلیمی ترقی کے لئے اسمبلی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح پنچایتی انتخابات گاؤں کی ترقی وخوشحالی کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ گاؤں کی ترقی کا دارومدار پنچایتوں پر ہے۔ گاؤں سطح پر ہونے والا ہر کام بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر پنچایتی اداروں کے ذریعہ ہی کیاجانا ہے۔ ان اداروں کو بااختیار اور موثر بنانے کے لئے کئی برسوں سے جدوجہد جاری رہی، اب آہستہ آہستہ یہ ادارے بااختیار بنتے جارہے ہیں اور توقع ہے کہ آنے والے چند برسوں یاماہ کے اندر آئین ہند کی 73ویں ترمیم کا نفاذ بھی جموں وکشمیر میں ہوگا جس سے پنچایتی اداروں کے اختیارات اور بھی زیادہ وسیع ہوجائیں گے۔ اس وقت تعلیم یافتہ نوجوانوں، گاؤں کے ذی شعور افراد، دانشور طبقہ پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پنچایتی اداروں میں سرپنچ اور پنچ کی صورت میں ایماندار، دیانتدار، مخلص خدادوست اور غیر جانبدارلوگ منتخب ہوکر جائیں ۔ساتھ ہی وہ تعلیم یافتہ بھی ہوں تاکہ گاؤں کے مسائل ومشکلات کو بلاک، تحصیل وضلع سطح پر موثر ڈھنگ سے اجاگر کرسکیں اور ان کے ازالہ کیلئے کوشش کر سکیں۔اس وقت عام لوگوں کو پنچایتی راج ایکٹ کے تحت سرپنچوں وپنچوں کے اختیارات، ان کے فرائض اور ذمہ داریوں بارے بیداری لانے کی ضرورت ہے۔لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ے کہ وہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہوئے کاموں کا حساب چنے ہوئے نمائندوں سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں....؟۔یہ چند ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جوکہ اگلے پانچ برسوں تک گاؤں کے لوگوں کی تقدیرسازی کے لئے انتہائی فائیدہ مند یانقصان کیلئے فیصلہ کن ہیں ۔ فائیدہ مند اس صورت میں کہ اگر اچھے نمائندے منتخب کئے اور بری اس صورت میں کہ بروں کو ان عہدوں پر فائض کیاگیا۔ اس وقت گاؤں سطح پر ہرکوئی یہ کہہ کر رہا ہے وہ سرپنچ وپنچ کے انتخابات لڑے گا، ہمیں ایسا ہرگز نہیں سوچنا چاہئے بلکہ ان انتخابات کو اپنے گاؤں کی تقدیر سازی کے لئے ایک نادر موقع کے طور استعمال کرنا چاہئے۔ گاؤں کے تعلیم یافتہ ، ذی شعور، معززین اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ گاؤں کے معززین کی میٹنگیں منعقد کر کے آپسی صلاح ومشورہ سے ایسے افراد کا انتخاب عمل میں لایاجائے جوکہ پڑھے لکھے بھی ہوں، گاؤں کی تعمیر وترقی کے لئے کام کرنا چاہتے ہوں ، مخلص ہوں، ایماندار ہوں۔اس بات کی ضرورت کا ہر شہری کو بخوبی احساس ہوناچاہئے کہ پنچایتی اداروں کا نظام مخلص ، ایماندار،محنتی اور بے تعصب ورکروں کے ہاتھوںمیں رہے تاکہ ہماری معاشی خوشحالی کسی سیاسی مخمصے میں پڑنے سے محفوظ رہ سکے۔ ہم جتنے اچھے نمائندے چنیں گے ، اس سے ہماری ہی بہتری ہوگی اور ہمارے گاؤں کی پہچان بنے گی۔ ایسے پنچایتی ممبران منتخب کئے جائیں جوکہ بلاک، تحصیل ، ضلع، صوبہ اور ریاستی سطح پر گاؤں کا نام روشن کریں اور دوسروں کے لئے مشعل راہ بنیں۔سال2011میں ہوئے پنچایتی انتخابات کا ذکر کریں تواس وقت ایسی صورتحال پیدا کی گئی کہ ، ایک ہی کنبہ /گھرسے تین چار افراد سرپنچ/پنچ کے لئے میدان میں کھڑے ہوگئے، کہیں جگہ ایسا ہوا کہ ایک شادی شدہ خاتون کا والد اور سسر دونوں میدان میں تھے، اب یہ بیچاری کس کے حق میں ووٹ ڈالے۔ پچھلے پنچایتی انتخابات کے دوران ریاست کے متعدد علاقوں میں ہزاروں آپسی رشتے ٹوٹے، سگے بھائی ، بہن ایکدوسرے کے دشمن ہوئے، ان انتخابات کے اندر جونفرتیں ، قدورتیں اور دوریاں قائم ہوئیں انہیں مٹنے میں کئی برس لگے، کہیں تو اس کا اثر اب بھی دیکھاجارہاہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم ایک معاشرہ کا حصہ ہیں، یہیںجینا اور یہیں مرنا ہے، ان اداروں میں انہیں اشخاص کو چن کر بھیجا جائے کہ واقعی اس کے مستحق ہیں اور تمام تر تقاضے پورا کرتے ہیں۔ رشتہ داری، ذات پات، مذہب، قربت، جان پہچان، سیاسی پارٹی ودیگر نظریاتی وابستگیوں کو ترک کر کے صرف گاؤں کے سبھی لوگوں کی ترقی کے لئے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ماج کے باشعور اور ذمہ دار اشخاص کو بٹھانے سے ہماری ہی شان اونچی ہوگی، ہماری قدر بڑے گی۔ اگرجاہل، کم خواندہ ، خود غرض، لالچی، رشوت خور اور بے ایمانوں کو ان پنچایتی ممبران منتخب کریں گے تو ہماری بھی پہچان دوسرے گاؤں، بلاک یا تحصیل سطح پر ایسی ہی ہوگی۔ خاص کر سرپنچ ہمارے گاؤں، پنچایت کی پہچان ہوتا ہے، اس عہدہ پر جتنا معزز، باشعور، تعلیم یافتہ شخص ہوگا، اتنی ہی ترقی ممکن ہوگی۔ موجودہ پنچایتی ممبران کا ذکر کریں توبہت سارے سرپنچ وپنچ حضرات ایسے بھی ہیں جنہوں نے پورے پانچ برس نکال دیئے لیکن انہیں جموں وکشمیر پنچایتی راج ایکٹ اور قواعد کے تحت حاصل اختیارات، ذمہ داریاں اور فرائض کاپتہ تک نہیں، تو ایسے لوگوں سے کیا توقعات وابستہ رکھی جاسکتی ہیں کہ وہ لوگوں کی بہتری کے لئے کچھ کریں گے۔ریاست کی کئی پنچایتی ایسی تھیں کہ جہاں قانون کی ڈگری یافتہ اور ماہرین قانون بھی تھے، لیکن پنچایتی عدالتی کمیٹی میں چیئرمین تو درکنا،انہیں ممبر تک بھی نہ بنایاگیااور اس کمیٹی میں ایسے ممبران شامل تھے جوکہ ایسے ایسے فیصلہ صادر کرتے رہے کہ انسان خود شرمسار ہوجاتا ہے۔ ایکٹ کی روح سے ماہانہ پنچایتی سطح پر تسلسل سے میٹنگوں کا انعقاد، دیہی مجالس وغیرہ کا بھی ذکر ہے لیکن بہت ہی کم ہوا۔لہٰذا اب اس وقت لوگوں کے پاس ایک نادر موقع ہاتھ میں آیا ہے جس کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ 500یا1000روپے کے عوض اپنے قیمتی ووٹ کا ہرگز سودا نہ کریں بلکہ اس ووٹ کو اپنے گاؤں، محلہ، گلی کوچوں کی ترقی، بہتری، صفائی ستھرائی، اپنے گاؤں کی آن بان اور شان کی بالادستی کے لئے استعمال کریں۔گذشتہ انتخابات میں کئی پنچایتوں میں ایسا ہو اکہ انتخابات سے ٹھیک ایک روز قبل رائے دہندگان کو گھر گھر جاکر پیسے دیکر ان سے ووٹ خریدے گئے۔ عام ووٹر کو یہ بات سمجھ لینی چائے کہ اگر آج ووٹ کا سودا کیا توپھر پانچ برس تک پچھتانا پڑے گا، پنچایتی انتخابات میں ہر ایک شخص کا ووٹ قیمتی ہے، خاص کرتعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو ووٹ کے صحیح استعمال بارے بیداری لائیں، اور ان انتخابات میں اپنا اہم رول ادا کریں۔ نوجوانوں، دانشو ر طبقہ کو جموں وکشمیر پنچایتی راج ایکٹ 1989اورجموں وکشمیر پنچایتی راج قواعد1996، ترمیم شدہ 2015 ا(اردو ترجمہ)جوکہ 196صفحات پر مشتمل ہے جس میں ان اداروں کے اغراض ومقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ لگ بھگ پچیس ابواب کے تحت کماحقہ پورا ہونے کی ا مختلف قانونی شقوں اور دفعات کی بھر پور وضاحت ہے۔فہرست مضامین وعنوانات کے تحت ایکٹ ہذا کا ایک حصہ باب نمبر ایک (مختصر نام اورنفاذ) سے لے کر باب نمبر 11(سزائیں)تک مفصل طریقے سے عبارت ہیں۔مثلاً حلقہ پنچایت کا قیام اور تشکیل،بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کی تشکیل،پنچایت مشاورتی کمیٹی،سرپنچ اور پنچوں کا محنتانہ،سرپنچ اور پنچوں کا محنتانہ،بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے اختیارات او رفرائض منصبی،بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے چیئرمین کی نامزدگی،ضلع منصوبہ بندی اور ترقیاتی بورڈ کی تشکیل،پنچایتی عدالت کی تشکیل ،فوجداری حدوِد اختیارسماعت،پنچایتی عدالت کے اراکین کومحنتانہ،ٹیکس او رفیس عائد کرنا۔ ،پنچایت کی کارروائی کا انعقاد،آمدن ا وراخراجات کا سالانہ تخمینہ،جائیداد اور مالیات،چیئرمین ، وائس چیئرمین اور سیکریٹری بلاک ڈیولپمنٹ کونسل،پنچایت وبلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے اختیارات اور کارہائے منصبی،مختلف عہدہ دارانِ،ریاستی انتخابی کمشنر کامعیاد عہدہ اور دیگرشرائط ملازمت۔اس طرح سے اور بھی بے شمار امورکوواضح کیا گیا ہے جن سے پنچایتی راج نظام کی افادیت واہمیت کی شکل وشباہت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے ۔
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 53108 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.