راجوری پونچھ میں نقلی ادویات کی بھرمار

سرحدی اضلاع راجوری پونچھ میں ڈاکٹر کا مقدس پیشہ اب ایک تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ انسانیت اور ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہوکر کام کرنے والے معالجوں کی تعداد اس خطہ میں تیزی کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں کسی عارضہ کی شکایت لیکر آنے والے شخص کو مریض تصور نہیں کیاجاتا بلکہ پیسے دینے والی مشین تصور کیاجاتاہے ، جس کاعلاج وشفاکے بہانے خون چوسنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی جاتی۔ غیرمعیاری ادویات کی بھرمار ہے۔
بے ضمیر ڈاکٹروں اور دوافروشوں کے مابین شیطانی اتحاد سے عام لوگوں کی زندگیاں داؤ پر

سرحدی اضلاع راجوری پونچھ میں ڈاکٹر کا مقدس پیشہ اب ایک تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ انسانیت اور ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہوکر کام کرنے والے معالجوں کی تعداد اس خطہ میں تیزی کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں کسی عارضہ کی شکایت لیکر آنے والے شخص کو مریض تصور نہیں کیاجاتا بلکہ پیسے دینے والی مشین تصور کیاجاتاہے ، جس کاعلاج وشفاکے بہانے خون چوسنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی جاتی۔ غیرمعیاری ادویات کی بھرمار ہے۔ انتظامیہ کی ناک تلے دوافروش غیر معیاری ادویات کی خریدوفروخت کر کے خطہ میں مریضوں کو شفایاب کرنے کے بجائے انہیں پیچیدہ امراض میں دھکیل رہے ہیں۔دوافروشوں اور سرکاری ڈاکٹروں کے درمیان ساز باز کی ،چکی میں عام لوگ پس رہے ہیں لیکن اس حساس معاملہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔پیر پنجال خطہ میں ایک معمولی سے مرض پر بھی ڈاکٹر دوائیوں کا لمباچوڑا نسخہ بناکر دیتے ہیں اور یہ دوا کم سے کم 500سے ہزار روپے کی ہوتی ہے۔ پونچھ اور راجوری اضلاع میں ڈاکٹر زیادہ پیسہ کمانے اور ہر طرح سے مریضوں کو لوٹنے کے مشن پر کاربند ہیں جس سے ان کے اندر لالچ اور ہوس کا وہ سفلی جذبہ پایاجارہاہے جو عمومی طور کسی بھی انسان پر ایک بار سوار ہو تو اسے انسانیت اور اخلاق کی بلندیوں سے نیچے گرا کر مال و زر کی غلامی اورپستیوں میں پھینک دیتا ہے۔ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس ہی ڈاکٹری پیشہ کے تقدس کو پامال نہیں کر رہی بلکہ بسا اوقات ایسی شکایات بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں کہ سرکاری اسپتالوں کے اندر طبی جانچ کےلئے جو جدید ترین مشینیں نصب کی گئی ہیں ا ±ن کو مختلف بہانوں سے بے کار کر کے غریب مریضوں کو نجی لیبارٹریوں کی طرف دانستہ طور ہانکا جاتا ہے۔ایسا کمیشن حاصل کرنے کی نیت سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے دوسرے استحصالی ہتھکنڈے بروئے کارلاکر بیماروں کودو دو ہاتھوں لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔پونچھ راجوری میں موجود دوائیوں کی دوکانوںپر غیر معیار ی ادویات کی فروخت کا جوبے دریغ سلسلہ جاری ہے جس سے مریضوں کوشفایابی ملنے کے بجائے ’جوں جوں دوا لی مرض بڑھتا ہی گیا‘کے مصداق بیماری پیچیدہ ہی ہوتی جاتی ہے۔ان دوافروشوں کی چیکنگ کا کوئی بھی انتظام نہیں ، متعلقہ حکام ماہانہ طور باقاعدگی طور پر ان دوافروشوں سے اچھی خاصی کمیشن(رشوت)لیکر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔اس خطہ میں بیشتر دوافروش سادہ لوح عوام کو غیر معیاری دوائیوں فروخت کرتے ہیں۔سرکاری اسپتالوں کے اندر تعینات ڈاکٹروں کے پاس MR(میڈیکل ریپریزنٹیٹو)کا دوران ڈیوٹی اور بعد میں صبح وشام رہائش گاہوں پر تانتا بندھا رہتا ہے جوانہیں گذارش کرتے ہیں کہ آپ ہماری اس دوا کو مریضوں کو تجویز کریں، یہ دوائی جتنی زیادہ فروخت ہوگی تو اتنی ہی آپ کو کمیشن ملے گی، اس پر مہنگے مہنگے تحفے ملنے کے علاوہ فیملی کے ہمراہ بیرون ممالک سالانہ ٹور پر بھی بھیجا جائے گا۔ بیشتر ڈاکٹر اس لالچ میں آجاتے ہیں اور جب ان کے پاس کوئی مریض سردرد یابخار کی شکایت لیکر آتا ہے تو آکر آنکھیں بند کر ڈاکٹر ساتھ ہی یہ ادویات بھی تجویز کردیتے ہیں جس سے مریض کو کوئی فائیدہ نہیں ہوتا۔ بخار کی ٹیبلٹ پیرا سٹا مول کو بنانے والی دوساز کمپنیوں کے تعداد کم سے کم بھی ہزار سے زائد ہے جن میں چند ایک کو چھوڑ کر بیشتر پیرا سٹا مول کی غیر معیاری اور گھٹیاٹکیاں تیار کر کے مارکیٹ میں اتار دیتی ہیں جن کی میڈیاودیگر ذرائع کے ذریعے تشہیر اور ڈاکٹروں کی مدد لیکر فروخت کیاجاتاہے۔جومعیاری دوائیاں ہوتی ہیں ،ان میں دوافروشوں کو کم آمدنی ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر معیار ی دوائی کی قیمت اگر100روپے ہے تو اس میں دوا فروش کو بمشکل5سے10روپے بچت ہوتی ہے جبکہ غیر معیاری دوائیوں سے دوافروشوں کو 100میں سے 50سے60روپے کا غیر متوقع اور حیران کن منافع ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کو معیاری اور غیر معیاری دواساز کمپنیوں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہوتی، اسی ناواقفیت کا غلط فائیدہ اٹھاکر پونچھ راجوری میں دو ا فروش زیادہ ترغیر معیاری دوائیوں فروخت کرتے ہیں جن سے انہیں بہت زیادہ فائیدہ ہوتا ہے۔ ان دوافروشوں کے پاس معیاری دوائیاں بھی ہوتی ہیں جوکہ صرف اسی کو دی جاتی ہیں جووہ طلب کرتا ہے ۔غیر معیاری دوائیاں دینے پر اعتراض ظاہر کرئے لیکن پونچھ میں ایسے افراد کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ خطہ پیر پنجال کی بیشتردوا فروش دکانوں پر غےر معیاری ادوےات کی دستےابی سے لوگوں کی جان خطرے میں ہے لیکن انتظامیہ اس حساس مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ یہاں کی عوام غیر معیاری ادویات کی بھر مار سے عدم تحفظ کا شکار ہے کیونکہ یہاں سے خریدی گئی ادویات سے مرض کی شفا کے بجائے اس میں دن بدن اضافہ ہوجاتا ہے ۔دوا فروشوں کی محکمہ صحت کے حکام اور دیگر متعلقین کے ساتھ گہری ساز باز ہے جس کی وجہ سے وہ بے خوف وخطر غیر معیاری دوائیوں فروخت کر رہے ہیں۔غےر معیاری ادوےات سے پونچھ میں کئی بچوں اور ضعیف العمر افراد کی جانیں جا سکتی ہیں جن پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے ۔نقلی ادویات کا بازاروں میں چلن اور ان کو فروغ دینے والے بے ضمیر ڈاکٹروں اور دوافروشوں کا وہ شیطانی اتحاد پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ نقلی ادویات مسئلہ فوری توجہ کا طلبگار ہے جس کے سامنے یا تو جان بوجھ کر قانون بھیگی بلی بنا ہواہے یا قانون نافذ کرنے والے اپنی آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ کر چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اس انسان دشمن اتحاد کوتوڑ کر غریب مریضوں کو بچانے کی تدابیر کرنا حکومت کا اولین فرض ہونا چاہئے ،بصورت تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجانہم کے مصداق ایک بیماری کا علاج ڈھونڈنے اور دوسرے زیادہ مہلک عوارض کو نظرانداز کرنے سے حالات میں بہتری آنے کی امید کرنا خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔شعبہ صحت کے اعلیٰ حکام کو چاہئے کہ خطہ پیر پنجال کی سادہ لواح عوام میں اس حوالہ سے وسیع پیمانے پر بیداری لائی جائے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ نجی دکانوں سے ادویات کی خریدوفروخت میں کن کن باتوں کو دھیان میں رکھاجائے، میعار کی تشخیص کیسے ہوئے، اصلی ونقلی کا کیسے پتہ چلے، غیر معیاری ادویات فروخت ہورہی ہوں تو وہ اس سے رجوع کریں ۔
 
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 52938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.