خطہ پیر پنجال سے.... بچوں کا بھکار ی پن اور پیشہ وار بکھاری

سماج میں مالی طور کمزور،غریب، مساکین، یتیم،بیواؤں اور بے سہارا معذور افراد کی مالی امداد کرنا ہم سب کا فرض ہے تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ باوقار زندگی جی سکیں اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں انہیں آسانی ہو۔ تمام صاحب ثروت اور مالی طور مضبوط لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پڑوس، محلہ، گاؤں اور علاقہ میں جتنا بھی ہوسکے ، ایسے لوگوں کی مدد کریں تاکہ وہ احساس محرومی کاشکار نہ ہوں۔ ایسے افراد کا خاص خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اور انسانیت کا تقاضا بھی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں ایسے افراد کی تعداد ہزاروںبلکہ لاکھوںمیں ہے، جوآئے روز ہم سے مالی تعاون کے لئے رجوع کرتے ہیں، کچھ افرادسڑکوں، چوراہوں، مذہبی مقامات(زیارتوں، خانقاہوں، درگاہوں، مندر،گردوارا، گرجاگھر، گپھا)وغیرہ پر بھی بیک مانگ کر اپنی کفالت کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان میں مستحقین اور غیر مستحقین دونوں طرح کے بکھاری شامل ہوتے ہیں۔کچھ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنا اور اہل وعیال کا پیٹ پالنے کیلئے بیک مانگتے ہیں تو کچھ نے اس کو بطور پیشہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس میں بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے۔ اس حوالہ سے اگر خطہ پیر پنجال کے اضلاع راجوری پونچھ کی بات کی جائے تو یہاں کثیر تعداد میں بچے بیک مانگتے دیکھے جاسکتے ہیں، جن میں کثیر تعداد بیرون ریاست سے آئے پیشہ وار بکھاریوں کی ہے۔ خطہ کے تمام قصبہ جات اور گھنی آبادی والے علاقوں میں ایسے بکھاری بچوں کو جابجاہاتھ پھیلاے پھرتے ہیں۔۔ سندربنی، نوشہرہ، راجوری ، درہال، کالاکوٹ، منجاکوٹ، تھنہ منڈی، سرنکوٹ، مینڈھر، منڈی، پونچھ میں بس اڈہ اور مصروف ترین چوراہوں پر بیک مانگنے والے بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے جن میں زیادہ تر بیرون ریاستی ہیں، ان بچوں کو ماں باپ بیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں، جن بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے، کتابیں ہونی چاہئے، انہیں والدین بیک مانگنے کے طرح طرح کے گن سکھاتے ہیں۔راجوری پل پر جب جموں یاپونچھ سے آنے جانے والی گاڑیاں کچھ دیر کے لئے رکتی ہیں تو متعدد بچے بچیاںبیک مانگنے گاڑی میں آتی ہیں، گاڑی میں داخل ہوتے ہیں وہ بیک مانگنے کا پیشہ وارانہ طریقہ اختیارکرتے ہیں، کوئی فوری طور رونا شروع کردیتا ہے، کوئی قوالی یا نعت وحمد گا کر گدا مانگتا ہے توکوئی دیگر طرح طرح کے بہانے کرتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ بیک مانگ کر جوں ہی یہ بچے گاڑی سے نیچے اترتے ہیں توپرسکون ہوجاتے ہیں، اپنے آنسوؤں کو پونچھ کر کچھ دیر خوش ہوجاتے ہیں اور پھر کسی نئی گاڑی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس میں پھر رویاگا کر بیک مانگی جائے۔کیا یہ بچے خود ایسا کر رہے ہیں ....؟ نہیں ، ہرگذنہیں بلکہ ان کے والدین انہیں یہ تربیت دیتے ہیں، انہیں ایسی ایسی باتیں سکھائی جاتی ہیں جس سے راہگیر یامسافر وں کا دل پگل جائے اور وہ ان کی کچھ مالی مدد کردیں۔ ہم بھی آنکھیں موند کر ان بچوں کی مدد کردیتے ہیں جوکہ ٹھیک نہیں۔ انتظامیہ اور سماج کے ذی شعور افراد اور تعلیم یافتہ نوجوانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بیک مانگنے والے بچوںکی نشاندہی کر کے ان کا پتہ لگایاجائے کہ آیا یہ کیوں بیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ان میں کون پیشہ وار بکھاری ہیں اور کون حالات کے ہاتھوں مجبور۔ آج مرکزی وریاستی سرکار وں کی طرف سے بچوں کی فلاح وبہتری کیلئے درجنوں سکیمیں چلائی جارہی ہیں جن کے تحت ان بچوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ اور راجوری کواس ضمن میں فوری طور محکمہ سماجی بہبود کے ذمہ داران کو ہدایات جاری کر کے فوری موثر اقدامات اٹھانے چاہئے۔ آج ہم ایک طرف’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘کی بات کرتے ہیں،2016میں بچیوں کا قومی دن بھی منارہے ہیں، تو پھر ہماری نظر ان بچیوں کی طرف کیوں نہیں جاتی جومیلے کچیلے کپڑے پہنے ، اپنے ننھے منے ہاتھوں کوبیک مانگنے کے لئے ہمارے سامنے پھیلا رہی ہیں۔ یہ بچے بچیاںچاہئے مجبوری کی حالت میں بیک مانگ رہے ہیں یاکسی دوسری وجہ سے، اس کی ہرصورت میں حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ ان بچوں کو جہاں تک ہوسکے تعلیم حاصل کرنے، بیک مانگنے کے عمل کو ترک کر نے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے کوئی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ وہ بیک مانگنے پر مجبور نہ ہوتے ہوئے اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور کل ملک وریاست کے ایک مہذب شہری بن سکیں۔یہ مشاہدہ کیاگیاہے کہ بیرون ریاست سے آئے بھکاری مرد و خواتین اپنے بچوں کو بھی بیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں جس سے وہ بکھاری کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی سماجی برائیوں(نشہ کے عادی، جرائم میں ملوث)کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں راجوری پونچھ اضلاع سے تعلق رکھنے والے بچے مجبوری کی حالت میں بیک مانگ رہے ہیں، کچھ ایسے ہیں جن کے سر سے والد کا سایہ اٹھ چکا ہے، کچھ ایسے ہیں جن کے والدین جسمانی طور معذور ہیں، کچھ ایسے ہیں جن کے والدین کسی بیماری کا شکار ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جن کے والدین کی مالی حالت اتنی خستہ ہے کہ اگر وہ بیک نہ مانگیں تو روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی نشاندہی اور تدارک کرنا وقت کی ضرورت ہے۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی بچہ شوق سے بیک نہیں مانگتا، اس کے بکھاری پن کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ متعلقہ ضلع انتظامیہ، رضاکار تنظیموں، سماج کے ذی شعور افراد، دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مل جملہ خطہ پیر پنجال میں بکھاری بچوں کی بڑی تعداد کو روکنے اور اس وباءکا جڑسے خاتمہ کرنے کیلئے اپنا مثبت رول ادا کریں۔ بچوں کے بکھاری کا خاتمہ کرنے کیلئے بیداری پروگراموں اور کیمپوں کا انعقاد بھی ضرور ی ہے۔ والدین کا بھی یہ فرض اولین ہے کہ وہ حتی الامکاںاپنی اولاد کوبیک مانگنے پر نہ لگائیں۔ عام لوگوں پر یہ ذمہ داری ہے وہ گدا کے لئے ان کی طرف بڑھنے والے ننھے ہاتھوں پر ایک، دو، پانچ یا دس روپے رکھ کران کے مستقبل کو برباد نہ کریں بلکہ جس بھی علاقہ میں ایسے بچے دکھائی دیں ان کے بارے میں مکمل پتہ لگاکراس معاملہ کو متعلقہ انتظامیہ کی نوٹس میں لائیں۔ اگر کوئی واقعی ان بچوں کی حالت زار سے پریشان ہے، ان کی مددکرنا چاہتاہے تو بجائے پیسے دینے کے ،ان کی تعلیم وتربیت کا انتظام ونصرام کرنے کے لئے کوئی مستقل متبادل راستہ تلاش کرنے میں اپنا رول ادا کیاجائے جس سے وہ باوقار زندگی جی سکیں اور کل کے تعلیم یافتہ اور مہذب شہری بن سکیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس بات کو ہر حال میں یقینی بنایاجائے کہ بچے بیک نہ مانگیں، جہاں کہیں بھی بچے بیک مانگتے دکھائیں دیں تو ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے کیونکہ یہ وقت ان کی تعلیم وتربیت ، جسمانی وذہنی نشونما کا ہے
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 56084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.