رفاقت
(Farheen Naz Tariq, Chakwal)
محبت ،خواب ،خوہشوں کی آس میں اس نے بابل
کا آنگن چھوڑا تھا دل ملے جلے تاثرات کا شکار تھا آنے والے وقت میں کسی کی
بھرپور رفاقت کی امید تھی تو ماں باپ کا آنگن چھوڑنے کی تکلیف بھی تھی سہاگ
کے سرخ جوڑے میں ماں باپ کی دعائیں سمیٹے وہ فرمان کے گھر میں داخل ہوئی
تھی اک نئی زندگی اور اس کا جیون ساتھی اس کے منتظر تھے پہلے پہل نئی دلہن
کے خوب چاؤ چلن کیے گئے مگر ہستہ ہستہ سسرال اور سسرالیوں کے رنگ کھلنے لگے
کبھی اس کے پہننے اوڑھنے پر اعتراض تو کبھی نوکری کرنے پر - وہ ایک معزوروں
کے فلاحی سینٹر پر کام کرتی تھی جہاں لوگ اپنی تکلیفیں پریشانیاں لے کر آتے
اور دعائیں دیتے واپس جاتے اس کے ہاتھ میں رب تعالئ نے بہت شفاء رکھی تھی
کئی لوگ شفاء یاب ہوئے تھے اس کے ہاتھوں - مگر اس کے سسرالیوں کو اعتراض
تھا اسکے کام کرنے پر - باوجود اس کے کہ اس کا شوہر کوئی باقاعدہ کام دھندا
نہ کرتا تھا باوجود اس کے کہ انہوں نے لڑکے کی نوکری کے متعلق صبیحہ کے ماں
باپ کو جھوٹ بولا تھا ایسے دھوکے باز لوگوں سے کیا توقع کی جا سکتی تھی اس
نے دل میلا کیے بغیر سسرال میں نبہ کرنا چہا وہ گھر اور بہر کی ذمہ داریاں
اچھے سے نبھاتی رہی مگر ان لوگوں کی ہمہ وقت تیوری چڑھی رہتی دن پر دن
گزرتے گئے اسے اللہ نے انعام کے طور پر چاند سا بیٹا دیا مگر ان دنوں وہ
بہت بیمار ہو گئی اس کا شوہر ان دنوں بھی بے روزگار تھا سسرالیوں نے اس کا
علاج کروا کر اپنا پیسہ برباد کرنے کی زحمت نہ کی مارے درد کے اس کے آنسو
رواں تھے جب اس کے والدین خوشی خوشی اس سے ملنے آئے مگر اسکی حالت دیکھ کر
انکے دل کٹ کر رہ گئے اپنی لاڈوں پلی کو کن ناشکروں میں بیہ دیا ان کے کہنے
کی دیر تھی وہاں جیسے حشر برپا ہوگیا وہ لوگ تو جیسے اسی موقعے کی تلاش میں
تھے وہ واویلا کیا کہ صبیحہ کی زبان گنگ ہوگئی سب کو خوش رکھنے کی اسکی
کوششیں اک دم سے خاک ہوئی تھیں - اس سے اس کا بچہ تک چھین لیا گیا اور اسے
بے دردی سے ہاتھ پکڑ کر گھر سے بہر نکالتی ساس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ بھی
کسی کی بیٹی ہے اور وہ بھی کسی کو اتنی ہی عزیز ہے جتنی اسکو اسکی اپنی
بیٹی- -
دروازے کے بہر بیٹھی وہ دستک دیتی رہی اپنے بچے کی بھیک مانگتی رہی مگر ان
کے کان پر جونک تک نہ رینگی -روتی بلکتی بمشکل تمام اس کے والدین اسکو رکشے
میں بٹھا کر گھر لائے گئے مگر اسکی روح کو سکون نہ تھا اسے اپنا درد بھول
گیا تھا اگر کچھ یاد تھا تو صرف اس کا بیٹا اسکا فیضان- اس کا سانس صرف اس
اک نام کی ڈور سے اٹکا ہوا تھا - مامتا کے ہاتھوں مجبور وہ دوبارہ اس گھر
تک گئی اپنے بیٹے کو صرف ایک نظر دیکھ لینے کی خاطر - مگر چھ بیٹوں کی ماں
جس نے ایسی ہی تکلیفیں اٹھا کر ان کو پروان چڑھایا تھا وہ اپنے ہی جیسی اک
دوسرے عورت کی تکلیف پر سفاکی سے مسکراتی رہی مگر اسے اس کے بچے سے ملنے تو
دور گیٹ سے اندر بھی آنے نہ دیا گیا بابا بمشکل تمام اسے وہاں سے گھسیٹ کر
واپس لائے تھے - ان سے بیٹی کا دکھ دیکھا نہ جاتا تھا دوسرے ہی دن کورٹ میں
انصاف کی اپیل لے کر پہنچ گئے کیس چلا وکلاء نے اپنے پینترے دکھائے حتی کہ
کورٹ کچہری کے پرانے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے اسکے کردار تک پہ کیچڑ اچھالا مگر
اس کو اس کے بچے سے نہیں ملایا گیا کئی مہ کی تگ و دو کے بعد اتنا ہوا کہ
وہ عدالت کے انصاف سے دلبرداشتہ ہوگئی تب اک سہانے دن اس کا شوہر بیٹا لیے
چلا آیا اسے الگ گھر میں لے جانے کے لیئے - شاید اسکے ماں باپ نکھٹو بیٹے
اور پوتے سے اکتا گئے ہوں یا شاید اب بن ماں کے بچے کو سنبھالنا مشکل ہو
رہا ہو یا پھر کیس کا خرچہ مزید برداشت نہ کرنا چہتے ہوں مگر اسے کسی چیز
میں دلچسپی نہ تھی حتئ کہ سامنے کھڑے اس شخص اور اس کی باتوں میں بھی نہیں
اس کی توجہ کا واحد مرکز فیضان تھا جسے وہ دیوانہ وار چومتی جاتی تھی
آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں تھا دیکھنے والی ہر آنکھ اس منظر پر اشکبار
تھی-
زندگی کا قدرے پر سکون دور شروع ہوچکا تھا وہ لوگ کرائے کے گھر میں رہتے اس
کا شوہر بھی اب مقدور بھر کمانے لگا تھا اس نے صبیحہ کو گھر چھوڑنے کی وجہ
نہ بتائی تھی اور اس نے کریدا بھی نہیں زندگی کافی متوازن چل رہی تھی فیضان
بڑا ہو رہا تھا پاؤں پاؤں چلتے اب سکول جانے لگا تھا بیچ میں گزرے بہت سے
وقت نے ماضی کے زخم کافی حد تک مندمل کر دیے تھے صبیحہ نے ان لوگوں کی
زیادتیوں کو فراموش کر دیا تھا اب وہ ہر اتوار دونوں کے والدین کو ملنے بھی
جانے لگے تھے صبیحہ کے سسرالی اس کی آؤبھگت کرتے تو وہ اپنی زندگی سے مطمئن
ہوتی چلی جاتی مگر اسے معلوم نہ تھا دشمن اپنی ترکش میں اک آخری تیر چھپائے
ہوئے تھا- قطرہ قطرہ پتھر پر گرتا پانی بھی بڑی ان دیکھی دراڑیں بنا دیتا
ہے اسے معلوم نہ تھا فرمان کے اچانک سے بدلتے رویے کی وجہ کیا تھی اسے بہت
بعد میں اندازہ ہوا وہ کام پر لیٹ ہونے کے بہانے ساری شام اپنے گھر گزار کر
آتا تھا اسے فرمان کے اسکے ماں باپ سے ملنے پہ اعتراض نہ تھا مگر وہ تو اسی
کے گھر میں نقب لگا رہے تھے -
" مرد کان کا کچا اور بزدل ہو تو وہ اپنے سے جڑے لوگوں کو کبھی سکھ نہیں دے
سکتا "
اس نے فرمان سے اسکے بدلے رویے کا گلہ کیا مگر وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گیا
"مرد کو سو کام ہوتے ہیں سارا دن تمہاری پٹی سے لگا بیٹھا نہیں رہ سکتا -"
"مگر میں نے ایسا مطالبہ تو نہیں کیا مگر جتنی دیر آپ گھر ہوتے ہیں اتنی
دیر تو مجھے اور فیضان کو وقت دیا کریں-" وہ ابھی بھی دھیمے سے گویا ہوئی-
"مجھ سے زبان مت لڑاؤ-" وہ جہلوں کی طرح بولتا دروازے کی ٹھوکر مارتا
دوستوں میں نکل گیا یہ دوستیاں ہی تھیں جو اسے کوئی رشتہ خلوص سے نبھانے نہ
دیتیں یہ وہی لوگ تھے جن کا عظیم قول تھا کہ بیوی پیر کی جوتی ہوتی ہے اور
مرد سر کا تاج جو یہ بھول جاتے ہیں جوتی کو تاج کی ضرورت نہیں ہوتی اگر
عورت کو انسان نہیں سمجھو گے تو آپ خود سر کا تاج کیسے بن سکتے ہو-
بات سے بات بڑھتی جارہی تھی فرمان کی گھر اور بیوی بچے میں دلچسپی گھٹتے
گھٹتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی اچھے برے حالات میں گزارہ کرنے کے
باوجود بالآخر صبیحہ کی ہمت جواب دے گئی اور اک دن اس نے فرمان کے رویے کی
وجہ پوچھ ہی ڈالی جس اکھڑ کر وہ جھگڑنے لگا اور جھگڑتا بڑھتے بڑھتے بات
آخری حد تک جاپہنچی-
" میں فرمان احمد اپنے پورے ہوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں-" نہایت
سفاکی سے بولتا وہ گھر سے نکلتا چلا گیا ہمیشہ کی طرح برسوں کی ریاضت اک
چھوٹے سے جملے پہ آکر ختم ہوئی تھی اس نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ایک جملہ
کیسے اسکے پیچھے کسی کی بربادی کی کہانی بن گیا تھا- بعد کے مراحل صبیحہ نے
اک ٹرانس کی کیفیت میں طے کیئے اور وہ اسے تو نہ اللہ کا خوف تھا نہ زمانے
کا بلکہ اپنی اولاد تک کی اس شخص کی نظروں میں کوئی ہمیت نہ تھی کم ظرفی کی
انتہا تو اس نے تب کی جب اپنے بیٹے کو حق مہر کے چند سو ہزار کے عوض اسے
بیچ گیا - |
|