وہ تھوڑی دیر کو خوماش ہوئی تھیں ۔۔۔۔ اور
بابا اور شمشیر کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ بابا سر جھکائے ان
کی بپتا سن رہے تھے اور شمشیر بار بار آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو اپنی آستین
سے پونچے جا رہا تھا ۔۔۔ ان کے خاموش ہونے پر دونوں نے سر اُٹھا کر انہیں
دیکھا تھا ۔۔۔۔
آپ کے ساتھ جو کچھ بیتا بہت تکلیف دہ تھا ۔۔۔ لیکن آپ وہاں سے نکلنے میں
کامیاب کیسے ہوئیں ۔۔۔ جیسا کہ آپ نے بتا یا کہ انہوں نے آپ کو لوہے کی
زنجیروں سے باندھ کر رکھا تھا حتہ کہ آپ کی گردن تک لوہے کے پٹے سے جکڑ دی
گئی تھی ۔۔۔ پھر یہ ممکن کیسے ہوا ۔۔؟؟؟؟؟
باباکے سوال پر وہ مسکرائیں تھیں ۔۔۔ ایک زخمی سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔
یہ سب اللہ کا کرم ہے جناب ۔۔۔۔ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنے
بندوں سے ۔۔۔ اسی کی مدد سے ہی یہ سب ممکن ہوسکا ۔۔۔۔ میں تو ہوش و خرد سے
آزاد تھی ۔۔۔ اور یہیں دشمن مار کھا گیا ۔۔۔۔ اور مجھ کو بےہوش سمجھ کر
تھوڑا غافل بھی ۔۔۔۔ ہنہ ! جب ہوش آیا تو خود کو اس دن زنجیروں سے آزاد اس
کوٹھری کے گندے فرش پر پڑے پایا ۔۔۔ شاید کسی بدبخت کے دل میں اللہ نے رحم
ڈال دیا تھا ۔۔۔ بہر حال جب ہوش میں آئی تو کچھ دیر کے لئے تو سمجھ ہی نہیں
آیا ۔۔ خیر پھر سارے واقعات ایک کے بعد ایک یاد آتے گئے ۔۔۔۔ اور جیسے ہی
مجھے احساس ہوا کہ میں دشمن کے نرغے میں ہوں ۔۔۔ تو سب سے پہلے میں نے یہاں
سے نکلنے میں ہی عافیت جانی ۔۔۔ اس کوٹھری میں روشندان نام کی کوئی چیز
موجود نہیں تھی ۔۔۔ بہر حال میں دیگر جنات کی طرح غائب ہونے کی صلاحیت
رکھتی تھی ۔۔ اور ان سے زیادہ پھرتیلی تھی ۔۔۔ اور ایک بات جو وہ بدبخت
اللہ کے دشمن کو معلوم نہیں تھی کہ میں جنات سے زیادہ طاقت ور تھی بےشک میں
ان کی طرح روپ بدلنے سے قاصر تھی مگر ۔۔۔ بہت سے معاملات میں اللہ نے مجھے
دیگر جنات پر فوقیت دے رکھی تھی ۔۔۔۔۔ اور ساتھ میں اپنی ماں کی وجہ سے
انسانی حسیات بھی دیگر انسانوں سے زیادہ تھی ۔۔۔۔۔ اگر ابھیمنیو کو یہ سب
پتا چل جاتا تو وہ مجھے بےہوشی کی حالت میں ہی مار ڈالتا ۔۔۔۔ کیونکہ ایک
مسلمان ہونے کے ناطے میں اس کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی تھی ۔۔۔
بہرحال مجھے اب یہاں سے نکلنا تھا ۔۔۔ مگر کس طرح جب کہ دروازہ لوکڈ تھا
۔۔۔۔ اور روشندان نام کی کوئی چیز تھی بھی نہیں ۔۔۔۔ میں نے پریشانی سے
چوروں طرف نظر دوڑائی تو کوٹھری کی چھت پر نظر ٹک گئی ۔۔اور میرے چہرے پر
ہلکی سی مسکراہٹ آکر معدوم ہوئی تھی ۔۔۔۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد قدموں کی
چاپ سنائی دی ۔۔۔ اور اس بار چوکنے اور مات کھانے کی باری ان کی تھی ۔۔۔۔
دروازہ ہلکی چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ کھلا تھا ۔۔۔۔ اور زرد رنگ کی لنگوٹ
میں ایک جن اندر داخل ہوا تھا ۔۔
لیکن سامنے نظر پڑتے ہی چونکا تھا ۔۔۔۔ اور گھبرا کر الٹے قدموں باہر نکلنے
ہی لگا تھا کہ میں جو چھت سے چپکلی کی طرح چپکی ہوئی تھی نے فوراً اس پر
چھلانگ لگائی تھی اور اسے اندر کی طرف گھسیٹ لیا تھا ۔۔۔۔ وہ اس افتاد پر
بوکھلا گیا تھا اور ابھی وہ کچھ سمجھنے کے قابل ہوتا میں نے اس کی گردن
دبوچ لی اور پوری طرح اسے اپنے قابو میں کر لیا ۔۔۔ پھر زرا بھی دیر کئے
بغیر اس کی گردن مروڑ ڈالی ۔۔۔ جیسے ہی وہ مرا کالے دھوئیں میں تبدیل ہوکر
اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔۔۔۔ میں نے نفرت سے اپنے ہاتھ جھاڑے تھے ۔۔۔ اور
محتاط انداز میں باہر نکل کر باہر کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔ یہ ایک بہت بڑا
ہال نما کمرا تھا ۔۔۔ جس کے بیچوں بیچ گڈی (کالی) کی بہت بڑی ہیبت ناک
مورتی رکھی تھی ۔۔۔ مگر نا کوئی آدم نا جن نظر آرہا تھا ۔۔۔ ہال خالی تھا
۔۔۔ کوٹھری میں کوئی سوراخ بھی نہ تھا مگر ہال میں تین بڑی بڑی کھڑکیاں
تھیں ۔۔۔۔ جن کے پٹ کھلے ہوئے تھے ۔۔۔ میں تیزی سے ایک کھڑکی کی جانب بڑھ
گئی اور ابھی اس قد آدم کھڑکی سے باہر نکلنے لگی تھی کہ رک گئی اور پیچھے
پلٹ کر گڈی کی مورت کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے اس کی
بڑی سی ہیبت ناک مورت کے سامنے آکر رک گئی ۔۔۔۔۔ اس کے آنٹوں ہاتھوں میں
ہتھیار تھے ۔۔۔ کسی ہاتھ میں تلوار تو کسی ہاتھ میں گرز اور ترشول ۔۔۔ مورت
پتھر کی تھی مگر ہتھیار اصلی تھے ۔۔۔۔۔ لوہے سے بنی تلوار اس کے ہاتھ سے
نکالی تھی اور نفرت سے اسے دیکھ کر اس پر تھوکا تھا ۔۔۔ اور پھر ایک فلک
شگاف نعرہ حق بلند کیا تھا ۔۔۔
اللہ اکبر !
ہال میرے نعرے سے گونج اُٹھا ۔۔۔ ساتھ ہی میں نے اس تلوار سے بےجان مورت پر
وار کیا تھا ۔۔۔ ایک ہی وار سے گردن دھڑ سے الگ ہوئی تھی ۔۔۔ پھر مجھ پر
جنوں طاری ہوگیا تھا اور میں پے درپے وار کرتی گئی اور اس پتھر کی بنی کالی
کو بھر بھری مٹی میں بدل کر رکھ دیا ۔۔۔ اچانک ایک بھیانک چیخ کی آواز پر
چونک کر دیکھا تو تقریباً پندرا سے سولہ زرد رنگ کی لنگوٹ پہنے شیاطین کو
اپنے پیچھے کھڑے پایا ۔۔۔ وہ خونخوار نظروں سے مجھے گھور رہے تھے ۔۔ میں نے
ان کی طرف سرد نگاہوں سے دیکھا تھا ۔۔۔ اور دونوں قدم مضبوطی سے زمیں پر
جما کر ایک طنزیہ مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی تھی ۔۔۔ وہ تلملا کر مجھ پر ایک
ساتھ ٹوٹ پڑے ۔۔۔۔ میں نے انہیں اپنے قریب آنے دیا ۔۔۔ اپنی جگہ سے ایک انچ
بھی نہیں ہلی بڑے سکون سے انہیں اپنی اور آتا دیکھتی رہی ۔۔۔۔ میرے منہ سے
خون جاری تھا ۔۔۔ ہوش میں آتے ہی زبان میں گڑی کیلیں میں نکال چکی تھی ۔۔۔۔
میرے ہاتھوں پیروں اور گردن پر زنجیروں سے زخم سے بن چکے تھے ۔۔۔ جن سے خون
بھی رس رہا تھا ۔۔۔۔ مگر میں اس حال میں بھی ان شیاطین پر بھاری تھی ۔۔۔۔
بہرحال وہ جیسے ہی میرے قریب آئے میں ایکدم حرکت میں آئی تھی اور لٹو کی
طرح گھوم گئی تھی ۔۔۔۔ صرف ایک وار کیا تھا تلوار کا اور پندرا کے پندرا
دشمنوں کی گردنیں اُڑا کر رکھ دیں ۔۔۔۔ ایک بساندھ سی بُو پھیلی تھی میرے
چاروں طرف اور وہ سب کالے دھواں بن کر فضاٰء میں تحلیل ہو گئے ۔۔۔۔ پھر میں
تیزی سے باہر کی سمت نکلی تھی اور تیزی سے اڑان بھری تھی ۔۔۔۔ اڑتے ہوئے
پیچھے کی طرف دیکھا تو ہزاروں کی تعداد میں ان بدبختوں کو بھی فضا میں بلند
ہوتے دیکھا ۔۔ کوئی چیز انہوں نے مجھ پر پھینکی تھی جو سیدھا میرے بازو اور
گردن پر آکر لگی تھی اور میں جو بجلی کی رفتار سے اڑ رہی تھی زمیں پر گرتی
چلی گئی اور اپنی تیز رفتاری کے باعث نشیبی زمین پر کافی دور تک رول ہوتے
گئی کوئی آہنی شجر تھا جس سے ٹکرا کر میں مزید لڑکھنے سے بچ گئی تھی ۔۔۔۔
میرے جسم سے تیزی سے خون بہنے لگا تھا ۔۔ مگر ہمت کر کے اٹھ کر دوڑ لگا دی
۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میں کہاں ہوں ۔۔۔ بس اللہ کا نام لیا تھا اور
رفتار بڑھا دی تھی نا جانے کتنا وقت میں دوڑتی رہی ۔۔۔ خوف بھی تھا کہ وہ
بدبخت مجھ تک نہ پہنچ جائیں ۔۔۔۔ اور اب اتنی ہمت بچی بھی نہیں تھی کہ ان
کا مقابلہ کر پاتی ۔۔۔۔ میں نے اپنی ساری توانائی صرف دوڑنے میں لگا دی تھی
۔۔۔ اور اسی چکر میں ٹھوکر لگنے پر ندی میں جا گری تھی اور اس کے بعد کیا
ہوا یہ آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔۔۔
وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئی تھیں ۔۔۔۔ اور ان دونوں کو خاموش نظروں سے دیکھنے
لگیں ۔۔۔۔
واہ خالہ اماں ! آپ تو پھولن دیوی اور جھانسی کی رانی کا مکسچر نکلئیں ۔۔۔
اچھا مسٹنڈوں کو مار مار کر ادھ مواں کر کوُ نکلے اور ان کی دیوی کا بھی
بھرکس نکال دئے ۔۔۔۔ کافی دناں(دنوں) تک تلملاتے رہینگے نا دشمناں بھی ۔۔۔۔
شمشیر میاں پر جوش انداز میں بولے تھے ۔۔۔ مگر حوریہ جانتی تھیں کے آگے کیا
کچھ خطرات منہ کھولے ان کے سامنے کھڑے تھے ۔۔۔ اور ابھیمنیو کتوں کی طرح ان
کی بوُ سونگھتا پھر رہا ہوگا ۔۔۔۔ اور جب تک ڈھونڈ نا نکالے گا چین سے
بیٹھے گا نہیں ۔۔۔ وہ اس کی بات پر مسکرا بھی نہیں سکی تھیں ۔۔۔۔۔
××××××××××××
میں حیرت سے سامنے کھڑی اس شخصیت کو دیکھے جارہی تھی جو مجھے اپنا ہی عکس
لگی تھی ۔۔۔۔ دلِ ان کی بات پر یقین کر رہا تھا مگر میرا ذہن اس کی نفی کر
رہا تھا ۔۔۔۔
نن نہیں آاآاپ ۔۔۔ یہ یہ نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔
میں پیچھے ہٹ تے ہوئے ۔۔۔ ہکلاتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ جس ہستی سے ملنے کی
تمنا دل میں جاگی تھی ۔۔۔انہیں اپنے سامنے یوں دیکھ کر میرا ردِ عمل شاید
فطری تھا ۔۔۔۔ وہ آنکھوں میں دنیا جہاں کا درد لئے مجھے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔
عائیشہ ! میری جان ۔۔۔۔
ومیری طرف بڑھی تھیں ۔۔۔۔ مگر میں تیزی سے تیرتے ہوئے اس سوراخ سے باہر نکل
گئی ۔۔۔ رفتار بجلی سے بھی تیز ۔۔۔ نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے کہاں سمندر
میں لے آئی تھیں ۔۔۔ بس اس وقت میں ان سے راہِ فرار چاہتی تھی اور اندھا
دھند بلا سوچے سمجھے تیرتی چلے گئی ۔۔۔۔ آنکھیں سلگ رہی تھی ۔۔۔ دل سلگ رہا
تھا ۔۔۔۔ اور دل ایک عجیب کیفیت کا شکار تھا اس پل ۔۔۔۔ میں عائیشہ دانیال
علی اس وقت سب کچھ بھول بیٹھی تھی ۔۔۔ سب کچھ شاید سب کچھ ۔۔۔۔
××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔۔ |