جس ملک میں 1200پولیس اہلکار ایک گھر کی
سیکورٹی پر معمور ہوں ،جس ملک میں 37سے 50پولیس اور سیکورٹی اداروں کی
گاڑیاں فقط ایک ذات شریف کی حفاظت پر معمور ہوں،جہاں قانون موم کی ناک
ہو،جہاں اخلاقیات کچے گھڑے کی مانند ہوں،جہاں اصول ضابطے اور پابندیاں صرف
چھوٹے اور غریب لوگوں کے لیے ہوں ،جہاں پیسے والے کے پیچھے اور ڈنڈے والے
کے آ گے رقص کیا جاتا ہو،جہاں ایک دن میں تیرہ سے چودہ ارب روپے کی کرپشن
ہو رہی ہو،جہاں کا وزیر اعظم دیڑھ ما ہ کے لیے ملک کو چھوڑ کے بیرون ملک
علاج کرواتا پھر رہا ہو،جہاں باپ وزیر اعظم بھتیجا،سمدھی ،بھائی
،بیٹی،بھانجے بھتیجے تک بیورو کریسی کی گردنوں پہ سوار ہوں،جہاں 365
سواریوں والے پورے پورے جہاز محض چند افراد کے آنے جانے اور لانے لے جانے
کے لیے استعمال ہوں، جہاں دو بڑے گھروں کا روز کا خرچ بیس لاکھ سے زائد
ہو،جہاں بجلی ہو گیس ہو نہ پانی نعرہ پھر بھی لگے دل ہے پاکستانی ،فلاں
ساڈا شیر اے باقی ہیر پھیر ہے،جہاں دو وقت کھانے کو روٹی نہ ہو مگر کہیں نہ
کہیں سے چلو چلو کی آواز آتی رہے اور لوگ تن من اور گھر گھاٹ بیچ کر جھوٹے
داعی اور جھوٹے انقلابیوں کی چلو چلو پہ لبیک کہتے رہیں اور ایسا بار بار
ہو،اور جہاں ہر بار چند دن بعد ایک نئی تحریک کی نوید اور پھر سب اچھا ہو
جاتا ہو،جہاں جھوٹ کا کاروبار ہو جہاں منافقت ہی منافقت ہو، جہاں ایک طرف
پندرہ د ن سے (مقبوضہ کشمیر) میں کرفیو ہو بچے بوڑھے مارے جا رہے ہوں
عورتوں کی عصمتیں پامال ہو رہی ہوں اور دوسری طرف چند میلوں کے فاصلے پر
لڈیاں بھنگڑے فائرنگ ہاہاکار اور جیت کا جشن منایا جا رہا ہو، قومیں انا
عزت نفس اور وقار پہ زندہ رتی ہیں مگر ان تینوں کا جدھر دور پرے کا بھی
واسطہ نہ ہو تو ایسے ملک ایسی قوم اور ایسے علاقے میں چپ کر کے نمک کی کان
میں نمک کی طرح رہنا چاہیے یہی عقلمندی کا تقاضا ہے،مگر چند سر پھرے ایسے
بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی حالت میں اپنی انا غیرت اور وقا ر کو نہ داؤ پہ
لگاتے ہیں نہ اسے مجروح ہی ہونے دیتے ہیں،آ ج میر ا موضوع ایسے ہی دو لوگ
ہیں ،محمد علی نیکو کارا ایک اعلیٰ سابق پولیس افسر تھا اکھڑ مزاج اور شدید
انا پرست،کئی دفعہ حکمرانوں کے بے سروپا آرڈرز نہ مانے اورمشہور زمانہ
انقلابی دھرنے کے موقع پر محمد علی نیکوکارا کو ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے
گولی چلانے کا حکم ملا ،جس پر اس نے فقط اتنی گذارش کی کہ جناب اس ہجوم کو
بغیر گولی چلائے بھی منتشر کیا جا سکتا ہے یہ اپنے لوگ ہیں پاکستانی ہیں
اور سب سے بڑھ کر بھولے بھالے ہیں جنہیں انقلاب کے داعی ہانک کے لائے ہیں
ان پر گولی کیوں چلائی جائے ،جواب ملا تم پاکستانی حکومت کے ملازم ہو نہ کہ
انقلابیوں کے ہر حکم ماننے کے پابند ہو،نیکو کارا نے کہا بالکل پا بند ہوں
مگر اس حکم کا جو ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے
ملے گا نہ کہ معصوم اور نہتے لوگوں کو بھوننے کا،اور یہ بات اعلیٰ ایوانوں
میں بیٹھے بدمست حکمرانوں کی طبع نازک پہ گراں گذری اور انقلاب تو کیا آنا
تھا یہ انقلاب انقلابی لیڈرز نیکو کارا کی جڑوں میں بیٹھ گئے اور حیرت کی
بات یہ ہے کہ انقلابی لیڈر کمال ڈھٹائی سے اسی نیکو کارا کو بھول گئے جس نے
ان پر اور ان کے حامیوں پر گولیاں نہ برسا کر اپنی نوکری گنوا دی،کوئی نہیں
بولا اس کے لیے نہ بولے گا کیوں کہ یہ اندر سے سارے ایک ہیں،اسی طرح کا ایک
سر پھرا پولیس افسر چکوال میں بھی پایا جاتا ہے،یہ نگر نگر کا مسافر ہے ہر
دو ماہ بعد اگلے علاقے میں پہنچ جاتا ہے،بے وقوف آدمی کو پتہ ہی نہیں کہ
نوکر ی کیسے کی جاتی ہے ورنہ آج ڈی ایس پی ہوتا،2004سے مجھے اس شخص سے
واسطہ ہے ،مجرموں کے لیے خوف و دہشت کی علامت اظہر شاہ نے بہت ہی کم وقت
میں محکمے اور عوام کے دلوں میں وہ مقام بنا لیا جو لوگ پوری پوری سروس
گذار کے بھی نہیں بنا پاتے۔ہر مشکل سے مشکل ٹاسک مہینوں نہیں دنوں میں مکمل
کر لیتا ہے،ڈیپارٹمنٹ جہاں کہیں آکے بے بس ہو جائے وہاں اسے بلا کر معاملہ
اس کے سپرد کیا جاتا ہے،اس کامیابیوں کا سلسلہ اتنا طویل ہے کہ کالم کی جگہ
پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے،اور افسوس کی بات اورقابل مذمت پہلو یہ ہے کہ اس
شخص کے ساتھ ہاتھ ہمیشہ ن لیگ کے دور میں ہوا،جو اپنے آپ کو بظاہر میرٹ اور
اصول پسندی کا سرٹیفیکیٹ دیتے نہیں تھکتی،مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اظہر شاہ
تھانہ ڈھڈیال میں تعینات تھا اور چکوال کے ایک زور آور ایم این اے نے کوئی
ناجائز سفارش کی جو حسب عاد ت اظہر شاہ نے رد کی اور پھر ان صاحب نے اس وقت
یہ ڈائیلاگ مارا تھا کہ اب چکوال کو بھول جاؤاور پھر اظہر شاہ چکوال سے تلہ
گنگ جا پہنچا اور وہاں سے پنڈی،اور پنڈی میں ان سے بڑے چوہدری سے واسطہ پڑ
گیا،وہاں بھی ایک تھانے سے دوسرے تھانے کا سلسلہ جاری رہا،پھر دور بدلا تو
اظہر شاہ ایک بار پھر واپس ضلع چکوال میں آ گیا،بھرپور مخالفت اور تنگ ہونے
کے با وجود کوئی بھی سیاسی وڈیرہ اظہر شاہ کی کارکر دگی اور بہترین
صلاحیتوں کا انکار نہیں کر سکتا،یہاں آکر پھر اظہر شاہ نے جہاں ایک طرف
جرائم پیشہ عناصر کو نکیل ڈالی وہیں سیاستدانوں کے سامنے دوبارہ اسی خود
سری اور ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنا شروع کر دیا کہ جو کام بھی میرٹ اور اصول
سے ہٹ کر ہو گا نہیں کر وں گا،نتیجتاً یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہا ں اور
پھر یہاں سے وہاں کا سلسلہ چلتا رہا،تلہ گنگ ،ڈھڈیال ،چکوال ،چوا سیدن شاہ
کلر کہار ہو یا ٹمن اظہر شاہ کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھتا کیوں کہ ان علاقوں
میں ایس ایچ اوز صاحبان صبح وردی بھی پوچھ کر زیب تن کرتے ہیں،اظہر شاہ یوں
ہی فٹ بال بنا رہا اور آخر میں کلر کہا ر میں تعینات ہوا اور ایک بڑے صاحب
کے ڈرائیور اور اس کے رشتہ دار پر جرم کرنے اور اس کی پشت پناہی کرنے پر ہر
قسم کا دباؤ اور دھونس دھمکی کو نظر انداز کر کے قانون کے مطابق ایف آئی آر
دے بیٹھا اور یہ اس کا سب سے بڑا جرم بن گیا،آج اظہر شاہ جیسا انسپکٹر جو
نہ صرف چکوال پولیس بلکہ پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے لیے قابل فخر و تقلید
ہے،پولیس لائن بلکہ کھڈے لائن ہے ،اظہر شاہ کے ساتھ تو جو کچھ ہوا سو ہوا
مگر ہم سب دیکھتے سنتے اور جانتے بوجھتے خاموش ہیں کہیں کوئی آواز نہیں
کہیں کوئی احتجاج نہیں بالکل اسی طرح جیسے محمد علی نیکو کارا کسی بڑے کی
بڑی انا کی بھینٹ چڑھ گیا اور کوئی اس کے لیے نہ بولاا ن حکمرانوں کے جانے
کے بعد ہمیں یاد آئے گا کہ انہوں نے یہ غلطی بھی کی تھی اور یہ غلطی بھی کی
تھی بالکل اسی طرح جس طرح سوویت یونین کا صدر خرو شیف صدر بنا تو پہلے ہی
دن پارلیمنٹ میں اس نے اپنے سے پہلے والے صدر اسٹالن کو آڑے ہاتھوں لیا ،کہ
وہ ایک ظالم شخص تھا اس میں برداشت کا مادہ بالکل بھی نہیں تھا،وہ ہر کسی
سے انتقام لینا فرض سمجھتا تھا،وہ بد کردا ر تھا وہ ایک ڈکٹیٹر تھا ملک میں
آمریت نصب کر رکھی تھی،ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا وغیرہ وغیرہ ،یہ
سارا بھاشن سن کر اکتائے ہوئے کسی معزز رکن پارلیمنٹ نے ایک چٹ لکھی کہ
جناب آپ اس وقت اس اسٹالن کے اتنے قریب تھے جب وہ یہ سب کر رہا تھا آپ تب
کیوں نہیں بولے تب آپ کیا کر رہے تھے،چٹ کسی نہ کسی طرح خروشیف تک پہنچا دی
گئی،خروشیف نے چٹ پڑھی ،سب کو سنائی اور پھر ایک گرجدار آواز میں بولا کس
نے لکھی ہے یہ چٹ،پارلیمنٹ میں سناٹا چھا گیا،خرو شیف نے دوبارہ چیخ کر
پوچھا کس نے بھیجی ہے یہ چٹ بولو،پارلیمنٹ میں سناٹا بدستور قائم رہا،خرو
شیف اپنی کرسی سے اٹھا ایک قہقہ لگایا چٹ کے پرزے کیے اور انہیں ہوا میں
اچھا ل کے بولا ہم اس وقت ایسی ہی چٹیں لکھا کرتے تھے،،،،،،،،،،،،،عقلمند
کے لیے اشارہ کافی ہے،،اﷲ ہم سب پہ رحم کرے۔۔ |