بہادری کیا ہے؟
(Faisal Shahzad, Karachi)
آج کل ہماری طبیعتیں کچھ اس قسم کی
بن گئیں ہیں کہ ہم تدبیر اور منصوبہ بندی سے کام نہیں کرتے۔زیادہ ترلوگ تو
کچھ کرتے ہی نہیں ،زندگی کاکوئی مقصدسامنے نہیں ہوتا۔ظاہر ہے دو وقت کی
روٹی کمانا،کھاناپینا اورسوجاناتو کوئی زندگی نہیں ۔یہ معمولات توحیوان بھی
انجام دیتے ہیں۔پھران میں اورانسا ن میں فرق ہی کیاہوا۔انسان تووہی ہے جو
زندگی کے مقصدکو پہچانے اور اس کے لیے کوشش کرے۔الحمدﷲ بہت سے گھرانوں میں
بہت سے مسلمان مرداورخواتین میں اس مقصد کااحساس موجودہے مگر ایک کمی بہت
زیادہ محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ ہمار ے کاموں میں جوش زیادہ ہوتاہے ،ہوش
کم۔ہم تدبیر اورمنصوبہ بندی کو شجاعت اور بہادری کے خلاف سمجھتے ہیں ۔خالی
پیلی جوش کو اصل ہمت اوربہادریسمجھتے ہیں۔اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ کبھی
کسی پر برس پڑے۔کبھی ناراض ہوگئے،دوچارجلی کٹی سنادیں،نتیجہ یہ ہوتاہے کہ
اس ماحول میں جودینی کام ہونے کاامکان تھا و ہ بھی ختم ہوجاتاہے۔اگر ایسے
میں کوئی مصلحت بینی کامشورہ دیتاہے توہماراجواب ہوتاہے کہ واہ جی ہم کوئی
بزدل تھوڑاہی ہیں جو کسی کالحاظ کریں۔
میراخیال ہے ہمیں شیر کی مثال سے سبق لیناچاہیے۔شیر جنگل کابادشاہ
ہے۔بہادری میں اس کی مثال دی جاتی ہے، مگر کبھی ایسانہیں ہوتاکہ وہ
اندھادھندکسی پرحملہ کردے۔شکارسے پہلے وہ شکارکوتاکتاہے اورٹھیک ٹھاک
منصوبہ بندی کے ساتھ شکار کرتا ہے۔یہی اصل بہادری ہے کہ حالات کے تقاضے
اورضرورت کے ساتھ اپنے وسائل طاقت اورموقع محل کو دیکھ بھال کر کوئی اقدام
کیاجائے۔خالی جوش کاتو صرف نقصان ہوتاہے۔اگر جوش دکھاناہی بہادری ہے تو سب
سے زیادہ جوش خود کشی کرنے والوں پرطاری ہوتاہے ،اسی جوش میں وہ اپنی جان
لے لیتے ہیں۔مگراسے کوئی بھی بہادری نہیں کہتا۔اسے سب بزدلی اور حماقت
مانتے ہیں۔شریعت نے بھی اس سے منع کیاہے کہ یہ اﷲ کی دی ہوئی نعمت ِحیات کی
ناقدری ہے۔اگر وہی شخص خود کشی کی بجائے اپنی ذمہ داری کوسمجھ کراﷲ
پربھروسہ کرکے تدبیر کے ساتھ کوشش میں لگارہتاتو چاہے اچھا فوراً نہ ملتا
مگر اس کاکردارضرورقابل تعریف ہوتا۔
شریعت ہم سے ایساہی کردارچاہتی ہے۔جس میں پختگی ہو،استقامت ہو،اﷲ پرتوکل
ہو،تدبیر ، احتیاط اورمنصوبہ بندی ہو۔مشورہ اور سوچ بچارہو۔کام دین کاہو
یادنیاکا،جو اس اندازمیں درجہ بدرجہ آگے بڑھتاہے وہ مضبوط بنیادیں رکھتاہے
اورسالہاسال تک پھل دیتاہے۔دارالعلوم دیوبندکی مثال سامنے ہے۔اکابر نے
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد بہت غوروفکر کرکے بڑی منصوبہ بندی کے
ساتھ یہ ادارہ بنایا۔رفتہ رفتہ یہ ادارہ برگ وبارلایا۔آج ڈیڑھ صدی بعد
دنیاکاشاید ہی کوئی کونہ ہوجہاں دیوبند کے فیض یافتگان دین کی آبیاری نہ
کررہے ہوں۔
مگر ان باتوں کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ بزدلی اورکم ہمتی اختیارکریں۔مصلحت
بینی کااس قدرشکارہوجائیں کہ شریعت کے دائرے سے ہی باہر قدم رکھ دیں۔نمازا
س لیے ترک کردیں کہ سردی ہے ۔روزہ اس لیے چھوڑدیں کہ گرمی
ہے۔ہرگزنہیں۔مقصدتویہ ہے کہ دین پرپختگی اوراﷲ کے احکام پرعمل وقتی جوش
وجذبے سے نہیں ،مضبوط قوت ِارادی کے ساتھ ہو۔دین کی اشاعت وحفاظت کاکام
مستقل بنیادوں پر تدریج کے ساتھ ہو۔ہم یہ نہ سوچیں کہ ہماراامتحان بس
چنددنوں یاچندگھنٹوں کاہے ۔نہیں بلکہ یہ عمربھر کاامتحان ہے۔باطل سے مقابلہ
صدیوں سے چلاآرہاہے اورچلتارہے گا۔جب ہم سفر کی انتہاء پرنگاہ رکھیں گے تو
پھر دیرتک چلنا آسان ہوگا۔سفر ہمارے خیال میں چندگھنٹیکاہوتوہم ایک آدھ
گھنٹے بعد ہی آرام کی ضررورت محسوس کریں گے۔جن کاسفر طویل ہوتاہے وہ ہمیشہ
منصوبہ بندی کے ساتھ چلتے ہیں ۔سواری کوتیار کرتے ہیں۔سیٹیں بک کراتے
ہیں۔راستے کی چھوٹی موٹی تکالیف کی پروانہیں کرتے۔جلدی جلدی آرام کے لیے
نہیں بیٹھ جاتے۔یہ زندگی اورہماری دینی ودنیوی ذمہ داریاں ایک سفرہی توہیں
۔اس کو پورے استقلال اورتدبیر سے قطع کریں۔اﷲ ہماری مددفرمائے۔
|
|