صوفیاء اورعقیدۂ عشق
(Abdul Bari Shafiq, Mumbra Mumbai)
تمام تعریف اللہ رب العالمین کے لئے جس نے
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوقیامت سے پہلے ہدایت وگمراہی،توحید وشرک، جاہلیت
اوراسلام کے درمیان تفریق کنندہ بناکر مبعوث فرمایا، اوردرودوسلام ہونبی
ہادی ﷺ پرجنھوں نے اپنے پروردگارکی رسالت کونہایت درجہ مکمل کردیا، لیکن
کچھ گمراہ قسم کے لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے لائے ہوئے تحفے سے اعراض کیا جس کی
وجہ سے آج روئے زمین پرمختلف قسم کے مذاہب وملل موجودہیں اور ان کے اپنے
رسم ورواج ہیں انھیں گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ صوفیاء کاہے، زیرنظر
مضمون میں صوفیاء اورعقیدۂ عشق پرمختصرروشنی ڈالی گئی ہے۔
اشتقاق:۔ صوفی اورتصوف کے لغوی اشتقاق کے بارے میں محققین کے یہاں ہردورمیں
اختلاف رہا ہے، قرآن اورصحاح ستہ میں یہ لفظ موجود نہیں ہے ،عربی زبان کی
قدیم لغات، نیز جاہلی ادب کا وسیع ذخیرہ اس سے خالی ہے، یہی وجہ ہے کہ
علماء اس کی اصل کے بارے میں مختلف الرائے ہیں عہدجاہلیت میں صوفی کی اصل
تلاش کرنے کی پہلی کوشش حافظ محمد بن طاہرالمقدسی(۴۴۸ھ،۵۰۷ھ) کی بیان کردہ
ایک روایت میں کی گئی ہے، ان کے بیان کے مطابق کوفہ کے ایک محدث ولید بن
قاسم(۸۳۲ھ) سے صوفی کی نسبت کے بارے میں سوال کیاگیا توانھوں نے جواب
دیا’’قوم فی الجاھلیۃ یقال لھم صوفۃ انقطعوا إلی اللہ عزوجل وفطنوا الکعبۃ
فمن تشبہ بھم فھم الصوفیۃ‘‘(۱)صوفیاء کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ لوگ
خانہ کعبہ کے مجاورتھے اورحاجیوں کے آرام وآسائش کاانتظام کرنا ان کے ذ
مہ تھا ان میں سب سے پہلے غوث بن مراوبن طانجہ بن الیاس بن مضرکانام صوفہ
پڑا(۲)صوفی کو ’’صف‘‘ سے بھی ماخوذ بتایا گیا ہے، اس رائے کی بنیاد شیخ
ابوالحسن نوری(م.۲۹۵ھ) کاقول ہے ’’الصوفیۃ ھم الذین صفّا ارواحھم فصاروا فی
الصف الأول بین یدی الحق‘‘(۳) ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ صوفی’’صفا‘‘ سے
مشتق ہے صوفیہ کی بڑی تعداد اس رائے کی قائل ہے ،شیخ بشربن حارث الحاقی(
۱۵۰، ۲۲۷ھ) کاقول ہے’’الصوفی من صفا قلبہ للہ‘‘(۴)
تصوف اورصوفیاء کے تعلق سے محقق محمد لطفی لکھتے ہیں:’’ ہمارا خیال یہ ہے
کہ یہ یونانی کلمہ’’تھیوسوفیا‘‘سے مشتق ہے جس کے معنی حکمت الٰہی کے ہیں ،صوفی
وہ حکیم ہے جوحکمت الٰہی کاطالب ہوتاہے اوراس کے لئے کوشاں رہتا ہے، صوفی
یا تصوف کی غایت حقیقت الٰہی تک پہنچنا ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیاء
جوکچھ بھی حقیقت الٰہی کے متعلق کہتے یا لکھتے ہیں اس پروہ فلسفیانہ بحث
کرتے ہیں(۵) بیش ترعلماء اورمستشرقین اسے’’صوف‘‘ (اون) سے ماخوذ سمجھتے ہیں،
شیخ ابوبکرکلاباذی(م.۳۸۰ھ) لکھتے ہیں کہ لباس کی وجہ سے ان کانام صوفہ پڑا
کیونکہ وہ حفظ نفس یازینت کے لئے نرم لباس نہیں پہنتے بلکہ صرف سترعورت کے
لئے بالوں کاکھردرااورموٹا اونی لباس استعمال کرتے ہیں۔(۶)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں’’والنسبۃ فی الصوفیۃ الی لانہ غالب
لباس الزھاد‘‘(۷)علامہ ابن خلدون کی بھی یہی رائے ہے، مصر اوربرصغیرکے اہل
قلم میں سے عبدالباقی سرور ،ابراہیم الجیوشی اورڈاکٹر میرولی الدین نے بھی
اس رائے کی تائید کی ہے ڈاکٹر زکی مبارک(۱۳۰۸۔ ۱۳۷۱ء) نے اسے سب سے صحیح
قراردیا ہے۔(۸)
تصوف کا آغاز:۔ تصوف کا آغاز عالم اسلام کے دوشہروں کوفہ اوربصرہ سے
ہواجوشیعوں کے شہرسے منسوب تھے اوران کے مراکز کہلاتے تھے، کوفہ پرمانی کی
فکرکا اثرتھا اوربصرہ میں ہندوستانی علم وفکرکا، مانی کے مذہب میں عشق
خداوندی کے عناصرپائے جاتے ہیں جبکہ ہندوستانی فلسفہ میں ساراز ورترک وتیاگ
پرہے۔(۹)
ڈاکٹر ابوالعلاء عفیفی کے مطابق:’’تصوف مذاہب شیعہ سے قریب ہے اوریہ کوفہ
میں۔ جوشیعوں کا مرکز تھا۔ وجودپذیرہوا، عبدک صوفی متوفی (۲۱۰ھ) اس کے
آخری امام تھے۔(۱۰)
اساس:۔ یوں توتصوف پرکئی قسم کے اثرات ہیں،لیکن اس کی اساس میں فیثاغورث (م
۵۳۲ ق.م.)زینوفینیز(م.۴۴۵ق.م.) افلاطون (م.۳۴۷ق.م.) کے فلسفوں کے اثرات
کاذکرخصو صیت کے ساتھ کیا جاتاہے۔
فیثاغورث کے نظام فلسفہ کی روح اصول اوراعمال کی بنیاد اصلا تناسخ ارواح
(آواگون) کے عقیدے پر مبنی ہے، ان کا نصب العین پیدائش کے چکرسے آزاد
ہونا اوربالآخر خدائی برکتوں کے عالم میں داخل ہوناہے ان کے حصول کے لئے
سخت ریاضت اورذہنی مشقت کی وکالت کی جاتی ہے۔(۱۱)
زینو فینیز کے فلسفے کابنیادی خیال یہ ہے کہ ہرشئے میں اتحاد وحدت ہے یعنی
سب ایک ہے یہ ایک ہراعتبار سے خداہے اس کی ابتداء اورانتہا نہیں ہے اپنی
ذات میں یکساں ہے اس لئے غیر متغیرہے یہ کائنات سے علیحدہ بھی نہیں ہے۔(۱۲)
صوفیاء کس طرح فلوطینی عقائد وافکار کے حامل ہیں اوران کی ترویج واشاعت میں
کوشاں، اس تعلق سے یونس خاں ایڈوکیٹ لکھتے ہیں :مسلمان صوفیاء پرنوفلاطونی
تصوف کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جنید بغدادی، شہاب الدین سہروردی اشراقی
مقتول ،شیخ اکبر محی الدین ابن عربی وغیرہ کے افکار تصوف فلوطین سے
متاثرہیں، بایزید بسطامی جوپہلے صاحب حال صوفی ہیں، فنافی اللہ کے مبلغ
ہیں، جنید بغدادی نے فلوطین کی پیروی میں ذات احد کوحسن ازلی کہہ کر پکارا
اورعشق حقیقی کو تصوف وسلوک کالازمہ قراردیا،حلاج کا یہ خیال کہ انسانی روح
میں روح کل جلوہ گرہے، فلوطین سے ماخوذ ہے، ابن عربی کا اللہ افلاطون کے
خیرمحض اورفلوطین کے تصوف ہی کی صدائے بازگشت ہے ،صوفی شعراء کی پرسوز
شاعری نے نوفلاطونی افکارکو اسلامی دنیا میں دوردورتک پھیلادیا، اس طرح
فلوطین کاتصوف مسلمانوں کے فکرواحساس کامحوربنا۔(۱۳)
لفظ عشق کامفہوم:۔لفظ عشق عربی زبان کا لفظ ہے، قاضی محمد سلیمان سلمان
منصور پوری رحمہ اللہ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’الجنون فنون
والعشق من فنہ یسجلہ المرء علی نفسہ باستحسان بعض الصور والشمائل‘‘یعنی
جنون کے بہت سے اقسام میں عشق بھی جنون کی ایک قسم ہے اس مرض کوانسان اپنے
نفس پر بعض صورتوں یا خصلتوں کواچھاسمجھ لینے سے خود واردکرلیاکرتا ہے(۱۴)
امام ابوجعفرطحاوی اپنی کتاب میں لفظ عشق کی تعریف میں رقمطراز ہیں:’’إن
العشق محبۃ مع شھوۃ‘‘(۱۵)یعنی شہوت کے ساتھ محبت کرنے کا نام عشق ہے۔
ابوالعباس احمد بن یحیٰ سے محبت اورعشق کے بارے میں پوچھاگیا کہ ان میں سے
کون اچھا ہے توجواب میں فرمایا کہ محبت، کیونکہ عشق کے اندرشہوت کاغلبہ
ہوتاہے(۱۶) علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ عشق کے سلسلے میں صوفیاء کے عقیدے کی
ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عشق ہی کانام محبت تامہ ہے اورصوفیاء حضرات
اس کا استدلال عبدالواحد بن زید سے روایت کی گئی ایک اثر سے کرتے ہیں جس
میں ہے کہ’’برابر میرا بندہ میری طرف قربت حاصل کرتا ہے مجھ سے عشق کرکے
اورمیں بھی اس سے عشق کرتا ہوں‘‘(۱۷)
لیکن جمہورعلماء کاکہناہے کہ لفظ عشق اللہ سے محبت کے اظہارکے لئے استعمال
نہیں کیاجائے گا کیونکہ لفظ عشق کے اندر ایسی محبت کااظہار ہوتاہے جس کی
کوئی انتہانہیں ہوتا، اورمزید یہ کہ لفظ عشق عرف عام میں مردکا عورت سے
زیادہ محبت کے سلسلے میں بولاجاتاہے۔(۱۸)
عشق اورمعرفت الٰہی:۔ مذہب تصوف میں خداسے عشق کرنا اورخدا کو معشوق
قراردینا، یاپھرخود کو معشوق قراردینا اورخداکو اپنے اوپرعاشق قراردینا،
اورتصور باندھنا کہ بنیادی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے، بلکہ وہ ایمان کی تشریح
ہی عشق سے کرتے ہیں، حالانکہ عشق کا لفظ اللہ کی ذات سے منسوب کرناانتہائی
لغو اوربیہودہ بات ہے۔(۱۹)
اس سلسلے میں عبدالرحمن کیلانی نے بہت ہی صحیح بات کہی ہے’’عشق کا لفظ
بالعموم برے کاموں میں استعمال ہوتاہے اس لئے کہ اس لفظ سے غیرشعوری
طورپرطبیعت فحاشی اوربہیمیت کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔(۲۰)
اکثر صوفیاء فرماتے ہیں اوراس کے متعلق وہ خود بھی عمل کرتے ہیں کہ عشق
حقیقی میں عشق خداوندی کی ابتداء عشق مجازی یعنی عورت کے عشق سے ہوتی ہے
(۲۱) ابن عربی کاکہنا ہے کہ ’’جب مردعورت سے محبت اورمجامعت کرتا ہے تویہ
مشاہدۂ حق کی اکمل ترین صورت ہوتی ہے اورعورت میں خداکا مشاہدہ کرتاہے
یعنی عورت جو منفعل ہے اس میں اس کو خدانظر آتا ہے اورظاہر ہے کہ مادیات
سے ہٹ کرخداکا مشاہدہ تجریدی صورت میں نہیں ہوسکتاہے۔(۲۲)
عشق مجازی اورامردپرستی:۔ ابن عربی نے تومشاہدۂ حق کے لئے عورت کاوجود
ضروری سمجھا خواہ کوئی عورت ہو، مگردوسرے صوفی اکثرامردیابے ریش لڑکے
کوپسند فرماتے ہیں اس بارے میں ان کا مقولہ بھی ہے ’’النظر إلی وجہ
الأمردعبادۃ‘‘یعنی بے ریش لڑکے کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔(۲۳)
عشق مجازی کے فضائل:۔ عشق مجازی کایہ نظر یہ آہستہ آہستہ دین طریقت کی
بنیاد قراردیاگیا، عارف جامی فرماتے ہیں ۔
متاب ازعشق اوگرچہ مجازی ست
کہ آن بہرحقیقت کارسازی ست
یعنی عشق سے روگردانی نہ کراگرچہ وہ مجازی ہوکہ یہ حقیقت(عشق حقیقی) کے لئے
ایک حیلہ ہے۔(۲۴)
اوراس سلسلے میں ایک موضوع حدیث بھی پیش کی جاتی ہے ’’من عشق فعفف وکتم
فمات مات شہیداً‘‘یعنی جوشخص کسی پر عاشق ہوجائے پھرعفیف رہے اورپوشیدہ
رکھے پھرمرجائے تووہ شہید مرے گا۔(۲۵)
شکوہ:۔صوفی ابن عبدالغنی نابلسی کے بارے میں کہاگیاہے کہ وہ کس طرح گویا
ہوتا ہے
الٰہی لیس للعشاق ذنب لأنک انت تبلی العاشقینا
ترجمہ: اے میرے خدا عاشقوں کاکیاگناہ ہے، جبکہ توخودہی عشاق کوعشق میں
مبتلاکرتاہے۔
وتخلق کل ذی وجہ جمیل تکادلہ تصلی العابدین
ترجمہ: اورتوہی خوبصورت چہروں کاخالق ہے، جن کی خوبصورتی کی وجہ سے عبادت
گزار اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
وتأمرنا بغض البصرمنھم کانک ماخلقت لناعیونا
ترجمہ: اورپھرہمیں حکم دیتاہے کہ ان سے نگاہیں نیچی رکھیں کیا تونے ان
کودیکھنے کے لئے ہمیں آنکھیں عطانہیں کیں۔(۲۶)
شیخ حسین لاہوری م ۱۰۵۲ھ کا عشق:۔ روایت ہے کہ ایک شخص حاجی یعقوب نامی
مدینہ منورہ کا رہنے والاتھا، وہ ہمیشہ شیخ حسین کو روضۂ نبوی میں معتکف
دیکھتا ایک مرتبہ لاہور آیا توایک بازارمیں دیکھا کہ ڈھول بج رہا ہے
اورشیخ شراب کے نشہ میں چوررقص کررہا ہے دیکھ کرشیخ حسین کوپہچان لیا
مگرسخت حیران ہواکہ یہ کیا بات ہے؟ شیخ نے کہا ’’آنکھیں بند کرو‘‘اس نے
آنکھیں بندکرتے ہوئے اپنے آپ کو مدینہ منورہ میں اورحسین کو روضۂ نبوی
میں معتکف پایا۔(۲۷)
حاجی محمدقادری نوشاہی:۔ مشہورہے کہ حضرت نوشاہ قوم گلگو(کمہار) سے تعلق
رکھتے ہیں مگراصل حقیقت یہ ہے کہ آپ قوم کھکرہ (کھوکھر) سے تھے، اس
قوم(گلگو،کمہار) سے مشہور ہوجانے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے بزرگ میں سے کوئی
بزرگ اس قوم(گلگو،کمہار) کی ایک حسین جمیل لڑکی پرعاشق ہوگئے تھے اوراس کے
عشق میں ایسے خودرفتہ ہوئے تھے کہ اسی قوم کے طورطریقے اختیار کرلئے،آخریہ
عشق مجازی عشق حقیقی میں تبدیل ہوگیااورآپ زمرۂ اولیاء اللہ میں
آگئے۔(۲۸)
میاں شیرمحمد شرقپوری م.۱۳۳۱ھ:۔ قطب العالم، غوث ربانی،
شیریزدانی،مادرزادولی تھے، خزینہ معرفت کا مصنف بیان کرتاہے کہ ایک مرتبہ
آپ کوایک نوعمرلڑکے غلام محمد کٹاریہ سے محبت ہوگئی، اس کے عشق میں اس
درجہ محویت ہوئی کہ آپ اسے ہروقت یادکرتے رہتے، جب اسے نہ پاتے تو بے چین
ہوکر اسے ڈھونڈنے نکل جاتے اورتلاش کرکے لے آتے اورجب کبھی وہ چلاجاتا
تواکثرفرماتے: ’’ادھرعشق ستارہا ہے ادھر غلام محمد یادآرہاہے‘‘بہت عرصہ
دراز تک میاں صاحب اس نوجوان کے عشق میں مبتلارہے اور آہ و فغاں کرتے رہے،
پھرکافی مدت کے بعدآہستہ آہستہ اس سے کسی قسم کا تعلق نہ رہا۔(۲۹)
حرف آخر:۔ الغرض صوفیاء کا نصب العین وصل خداوندی ہے، خداسے واصل ہونے، اس
کی ذات میں ضم ہونے اوراس کی ذات میں فناہوکرہی وہ باقی باللہ ہوسکتے ہیں
چنانچہ ان کی زندگی کا مقصد عبادت خداوندی اوررضائے الٰہی نہیں ہوتا، بلکہ
وہ خداسے عشق کرتے ہیں اوراپنے عشق وسرمستی کے اظہار کے لئے وجدوسماع رقص
ونغمہ کوذریعہ بتاتے ہیں لیکن یہ ایک غیراسلامی اورباطل مذہب ہی نہیں ہے
بلکہ اسلام کے خلاف مذہب ہونا اس کا امتیاز ہے، چنانچہ اسے کلّی یاجزوی
طورپردرست سمجھنا، اسے اسلام کا جزء ماننا ،اسے طریقۂ نجات، طریقۂ تربیت
،طریقۂ تزکیہ وغیرہ مانناکفر وشرک اورزندیقیت ہے۔
آخرمیں اللہ جلالہ سے دعاہے کہ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت اورصراط مستقیم
پرچلنے کی توفیق عطافرما۔(آمین)
اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارناالباطل باطلا وارزقنا
اجتنابہ.(آمین)
***
مراجع ومصادر:
(۱)مطالعہ تصوف قرآن وسنت کی روشنی میں ص:۱۳،۱۴(۲) لسان العرب لابن
منظور۹؍۲۰۰(۳) مطالعہ تصوف ازڈاکٹر غلام قادرلون ص:۱۸،کشف المحجوب
ازابوالحسن علی بن عثمان الجلا بی الہجویری
ص:۱۳۶(۴)اردوانسائیکلوپیڈیا۳؍۴۶،مطالعہ تصوف ازڈاکٹر غلام قادرلون
ص:۲۰(۵)تصوف ایک باطل مذہب ص:۳۰۳(۶) مطالعہ تصوف ازڈاکٹر غلام قادرلون
ص:۲۸(۷) مجموع الفتاوی ۱۰؍۳۶۹(۸) مطالعہ تصوف ازڈاکٹر غلام قادرلون
ص:۲۸،۲۹(۹) تصوف ایک تجزیاتی مطالعہ ازڈاکٹرعبیداللہ فراہی ،سن طبع
،۱۹۹۱ص:۲۰(۱۰) تصوف ایک باطل مذہب ص:۳۰۷(۱۱)تصوف اورسرّیت ازپروفیسر لطیف
اللہ سن طبع ۱۹۹۶ص:۴۰،۴۱،تصوف ایک باطل مذہب ص:۳۰۷(۱۲)تصوف اورسرّیت
ازپروفیسر لطیف اللہ سن طبع ۱۹۹۶ص:۴۳،تصوف ایک باطل مذہب ص:۳۰۷،۳۰۸(۱۳)
تصوف ایک باطل مذہب ص:۳۰۹(۱۴)رحمۃ للعالمین ازقاضی سلمان منصورپوری
۲؍۳۲۴(۱۵) شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص:۱۶۵(۱۶)لسان العرب ۱۰؍۲۵۲، تہذیب اللغۃ
۱؍۱۷۰(۱۷) مجموع الفتاویٰ ۱۰؍۱۳۱(۱۸) مجموع الفتاویٰ ۱۰؍۱۳۱(۱۹)تصوف ایک
باطل مذہب ص:۲۲۷(۲۰) شریعت وطریقت ازعبدالرحمن کیلانی ص:۱۹۸،تصوف ایک باطل
مذہب ص:۲۳۶(۲۱) تصوف ایک باطل مذہب ص:۲۳۸(۲۲) فصوص الحکم ازشیخ اکبرمحی
الدین ابن عربی ص:۲۱۷،تصوف ایک باطل مذہب ص:۲۳۸(۲۳) شریعت وطریقت ص:۲۰۰(۲۴)
شریعت وطریقت ص:۲۰۱(۲۵)تجدید تصوف ازعبدالباری ص:۱۳۷،شریعت وطریقت
ص:۲۰۱(۲۶) شریعت وطریقت ص:۲۰۰،۲۰۱(۲۷) خزینۃ الأولیاء ازمفتی محمودعالم
ہاشمی ص:۲۲۱، شریعت وطریقت ص:۲۰۴.(۲۸)شریعت وطریقت ص:۲۰۷(۲۹) صوفیائے
نقشبند ازسیدامین الدین ص:۳۶۵، شریعت وطریقت ص:۲۰۷ |
|