عدالت اعظمیٰ پاکستان نے دستور پاکستان کی
دفعہ ۱۵۱ (الف)پر عمل درآمد کے حوالے سے تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے حکومت
پاکستان کو پابند کیا کہ وفاق اور اس کے ماتحت تمام ادارے تین ماہ کے اند ر
اپنی پالیسیاں اردو میں منتقل کریں ، تمام قوانین کا اردو میں ترجمہ کیا
جائے، سرکاری ادارے عوام کے استعمال میں آنے والے تمام فارم بشمول پاسپورٹ،
انکم ٹیکس، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ اردو میں جاری کریں، ملک بھر میں
اطلاعاتی بورڈ اردو میں نصب کیے جائیں۔ سرکاری ادارے اپنی ویب سائٹس اردو
میں تیار کریں، سرکاری تقریبات میں اندرون ملک اور بیرون ملک اردو کو ذریعہ
اظہار بنا یا جائے، صدر مملکت اور وزیراعظم اردو میں خطاب کو رواج دیں،
تعلیمی نظام کو اردو میں منتقل کیا جائے اور سرکاری ملازمت بالخصوص سی ایس
ایس اور پبلک سروس کے دیگر امتحانات اردو زبان میں لیے جائیں۔ ان سارے امور
کی انجام دہی کے لیے عدالت نے حکومت کو تین ماہ کا وقت دیا تھا۔ اس کے ساتھ
ہی عدالتی فیصلے میں عوام کو یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ انگریزی زبان کے
استعمال کرنے کی وجہ سے ان کی حق تلفی ہو تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ترقی کے لیے قومی زبان ہی پہلا قدم ہے۔
ہمیں جاہل ، اجڈ اور پسماندہ رکھنے کے لیے ہی انگریزی کے چکر میں ڈال رکھا
ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی
میں بنگالی طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف اور تاریخی الفاظ ادا کیے تھے کہ
’’پاکستان کی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی، جو آپ کو گمراہ کررہا ہے وہ
پاکستان کا دشمن ہے‘‘۔ ۱۹۷۳ ء کے دستور میں قائداعظم کے فرمان کو دستوری
اور قانون شکل دی گئی۔ بھٹو دور میں ہی مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ قائم
کردیا گیا۔ جس نے اردو ٹائپ رائٹر اور کلیدی تختہ کی تیار کرلیا اور دفتری
ضروریات کے لیے بنیادی نوعیت کا کام شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں
نفاذ اردو کا کام تیز ہوا اور ہر شعبہ زندگی کے لیے اردو میں کتب کی تیاری،
طب (میڈیکل) اور انجنیئرنگ کے تعلیم کے لیے نصاب اردو میں تیار کیا گیا۔
یاد رہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی حکومتوں نے ۱۹۷۲ء میں ہی اردو
کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا لیکن بدقسمتی سے بعد میں آنے والی حکومتیں
اس پر کاربند نہ رہ سکیں۔ آزادکشمیر میں ۱۹۷۰ء سے اردو سرکاری اور دفتری
زبان ہے۔
حکومت پاکستان نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وفاقی وزیر عرفان صدیقی
کی سربراہی میں ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دی جونفاذ اردو کے لیے عدالتی فیصلے
کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔اس فیصلے کی روشنی میں حکومت نے
محکمہ مقتدرہ قومی زبان کو وزارت قومی ثقافت ، لوک ورثہ کے تحت منتقل کیا
گیا اور اس کا نام تبدیل کرکے ادارہ فروغ اردو رکھا گیا۔ ایک سال گزرنے کے
باوجود ابھی تک عدالتی فیصلے اور دستوری تقاضے (دفعہ ۲۵۱) پورے کرنے پر
کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ حکومتی روئیے سے دلبرداشتہ ہو کر اس
فیصلے پر عمل درآمد کروانے کے لیے توہین عدالت کی درخواست بھی زیر سماعت ہے،
جس کے ذریعے عدالت حکومت سے اس فیصلے پر عمل درآمد کی رپورٹ بھی طلب کرتی
رہتی ہے۔
اس انتہائی اہم اور قومی نوعیت کے معاملے پر عمل درآمد کے ذمہ دار وفاقی
وزیر فروغ اردو عرفان صدیقی نے گزشتہ دنوں قومی نفاذ اردو کانفرنس سے خطاب
میں کہا ہے کہ کچھ وزراء اور بیوروکریسی نفاذ اردو کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ان
سے کون پوچھے کہ وزراء اور بیوروکریسی حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند
ہوتے ہیں اور ان کی جرات نہیں کہ وہ کسی فیصلے پر عمل سے انکار کر سکیں۔
اگر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نفاذ اردو میں مخلص ہوں اور اس کا
کریڈٹ لینا چاہیں تو صرف پانچ لائنوں کے ایک حکم کے تحت نفاذ اردو کو یقینی
بنا سکتے ہیں۔ نواز حکومت کو اندازہ ہی نہیں کہ نفاذ اردو سے ان کی مقبولیت
میں کتنا اضافہ ہوگا اور ان کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
نواز شریف کے نالائق مشیر انہیں اس تاریخ اقدام سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔
قومی زبان کو فروغ دینا، اسے سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ دینا ہر
پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ حکومت کو عدالتی فیصلے پر عمل تو کرنا ہی پڑے
گا تاہم اگر میاں نواز شریف ان تاخیری حربوں کو مات دے کر قوم کی امنگوں کے
مطابق اردو کو فوری طور پر دفتری زبان بنانے کا اعلان کریں اور فوری عمل
درآمد کا حکم جاری کردیں تو کس کی مجال ہے کہ وہ رکاوٹ کھڑی کرسکے۔ وفاقی
وزرا کی ایک بڑی تعداد تو انگریزی کی الف ، ب نہیں جانتی۔ بیوروکریسی کی
انگریزی شناسی اسی حد تک ہے کہ وہ ایک نوٹ لکھنے کے لیے پورا ہفتہ مسودہ
تیار کرتے رہتے ہیں۔ افسروں کی ایک پوری فوج اس کام پر جتی رہتی ہے اور پھر
کہیں ایک سرکاری دستاویز تیار ہوتی ہے۔
قوم کو انگریزی سے نجات دلانا وقت کی ضرورت ہے، یہ کام حکمران خوش دلی
کرلیں تو اس کا کریڈٹ بھی لیں گے ، تاہم عدالتی فیصلے اور دستوری تقاضے کو
نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں۔ عوام میں شعور بڑھ رہا ہے اور وہ حکمرانوں کی
حرکات و سکنات کا بغور جائز ہ لیتے رہتے ہیں۔ عوام کو محروم رکھنے کا وقت
بیت چکا ہے، اس کی تازہ مثال آزادکشمیر میں حکمران جماعت کا حشر سب کے
سامنے ہے۔انگریزی دراصل ایک مخصوص طبقے کو عوام پر قابض رکھنے کی بیساکھی
ہے، جو زیادہ دیر کام نہیں آئے گی۔ کچھ بیوقوف یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ
انگریزی کو ترک کرکے ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے، ان کو بتلانے کی ضرورت
ہے کہ چین، جاپان، اسرائیل، فرانس ، کوریا اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک اپنی
قومی زبان میں پڑھ لکھ کر ترقی کررہے ہیں اور اردو جو دنیا کی دوسری بڑی
زبان ہے، اسے اپنا کر ہم کیسے پسماندہ رہیں گے۔ یہ اردو کا راستہ روکنے کی
آخری دلیل ہے جو انگریز کے غلام دئیے جارہے ہیں۔ ہمارے لوگ اردو اور
انگریزی میں پڑھ کر روس، چین اور سعودی عرب میں روسی، چینی اور عربی زبان
میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اردو اختیار کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ
ہم انگریزی کو سرے سے بھلا دیں گے، انگریزی کو اپنی ضرورت کے مطابق پڑھتے ،
پڑھاتے رہیں گے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی لازم ہے کہ
وہ نفاذ اردو کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں ، اس کے نفاذ کے لیے سرکاری
ایوانوں میں فروغ اردوکے لیے آواز اٹھائیں۔
اردو اہل قلم کی طرف سے بھی نفاذ اردو کے لیے وہ تحریک دیکھنے میں نہیں
آرہی ۔ بیورکریسی اور سیاست دان تو اپنی اگلی نسلوں کو عوام پر مسلط رکھنا
چاہتے ہیں۔ اس لیے ہر پاکستانی پر لازم ہے کہ وہ نفاذ اردو کے لیے آواز
بلند کرے، اپنی نسلوں کو انگریزی کی غلامی سے نجات دلائیں۔ |