یہ قوم پچھلے اڑسٹھ سالوں سے سو ہی تو رہی
ہے کے اس پرپرجتنا مرزی جبر کرلے اس کی ٰانکھ نہیں کھلتی۔
جبر یعنی ظلم، زیادتی اور ناانصافی۔
یہ سب چیزیں ہماری قوم کے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں بلکہ اگر میں یہ کہوں کے
یہ سب چیزیں اس قوم نے خود اپنا مقدر بنالی ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
پاکستانی قوم یہ سب سہنے اور برداشت کرنے میں اتنی ٓاگے نکل گئ ہے کے اپنے
تمام حقوق بھول چکی ہے۔ پاکستان کے قیام سے اب تک تقریباً ہر حکمران نے اس
قوم پرظلم، زیادتی اور نا انصافی کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ سب نے اس کو
نیک کام سمجھ کراپنا مکمل کردار ادا کیا اور ہم نے بھی اسے خوشی خوشی قبول
کیا۔ شائد ہم بھول چکے ہیں کے ہم انسان ہیں۔
ہم غفلت کی نیند میں اتنا گہرا سو چکے ہیں کے ناجانے کب جاگے؟ اور کبهی
جاگے بهی یا نہیں؟
ہمارا اصل قصور یہ ہے کے ہم نے کبهی اپنا قصور جاننے کی کوشش ہی نہیں کی
کاش کبهی کسی نے سوال کیا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے.
ہم وہ قوم ہیں جو پهل تو چن چن کے لیتی ہے پر حکمران چنتے ہوئے سو جاتی ہے
اور یہی سونا ہمیں لے بیٹهتا ہے
!
کیا ہم وہی قوم ہیں جس کے لیے قائد نے یہ وطن بنایا؟ کیا ہم واقعی قائد کی
قوم کہلانے کے لائق بهی ہیں؟
علمیہ یہ ہے کے ہم اپنی آواز صرف سوشل میڈیا پر ہی اٹها سکتے ہیں. مت
سمجهیں کے فیس بک پر استعفی مانگنے سے وزیراعظم گهر چلا جائے گا یا ٹویٹر
پر ٹرینڈ چلانے سے حکومت ٹوٹ جائے گی.
.ایسا صرف تب ہوگا جب آپ واقعی آواز اٹهائے گے. نا بهولیں کے آئس لینڑ کی
آبادی کا 1/10 حصہ سڑکوں پر آگیا تها تب جاکر وہاں کے وزیراعظم نے استعفی
دیا تها. اور یہاں کتنے لوگ باہر نکلے؟
جب جب بهی ہمیں پاکستان کی ضرورت پڑی تب تب اس ملک نے ہمارا ساته دیا، آج
اس پاک دهرتی کو ہماری ضرورت ہے کیا ہمیں اپنے پاکستان کا ساته نہیں دینا
چاہیئے؟
جبر کا موسم کب بدلے گا؟ ہم بدلہں گے تب بدلے گا!
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کے "مہں تب تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک
وہ خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے"
چلو آج ایک عہد کرتے ہیں کے مل کر ہارن بجائے گے اور تب تک بجاتے رہیں گے
جب تک سب جاگ نہ جائیں! تو ہارن بجائو قوم کو جگائو.
|