بچوں کے اغواء اور جنسی تشدد ،ان کی فروخت
،بچوں کے قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔کئی
ایک سوال جنم لیتے ہیں ۔بچوں کو اغوا ء کیوں کیا جاتا ہے؟ اس گھناؤنے فعل
کے کون مرتکب ہو رہے ہیں؟ ان مافیاز کا مقصد کیا ہے؟ ہم سب عوام ، حکومت
اورپولیس کا کیا کردار ہے؟ اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ سب سے اہم اور
بنیادی سوال یہ کہ بچوں کو اغوا ء کیوں کیا جاتا ہے؟ ہر روز ہمارے اخبارات
والیکٹرانک میڈیا میں بچوں کے اغواء اور جنسی حملہ کی خبریں شائع ہو رہی
ہیں۔ہمارا معاشرہ اپنی سمت کھو چکا ہے ۔ بگاڑ کی آخری سرحدوں کو چھو رہا ہے
۔کتنی افسوس ناک لیکن تلخ حقیقت ہے کہ بچوں کو جنسی ہوس کی تسکین کے لیے
بھی اغوا کیا جاتا ہے اور بعد ازاں راز کو چھپانے کے لیے انہیں قتل کر
دیاجاتا ہے ۔ بچوں کو اغوا ء کرنے کے بعد انہیں زبردستی جنسی عمل پر مجبور
کرتے ہیں اور اس دوران ان کی ویڈیوز اور تصاویر بنائی جاتی ہیں۔
گزشتہ دو ،تین ماہ کے دوران صرف لاہور میں تین سو سے زائد نابالغ بچوں کے
اغوا ء کی اطلاع ہے اور قریباً تین بچوں کی نعشیں مل چکی ہیں جن کو بدفعلی
کے بعد قتل کیا گیا۔ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے
والی غیر سرکاری تنظیم سپارک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 ء میں
روزانہ اوسطاََ دس بچوں کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔اس رپورٹ کے
مطابق ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے خبروں، حکومتی اداروں اور بچوں کے
حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ
سال 2015 ء میں 3,768 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ لاہور میں اغوا
ء ہونے والے بچوں کی تعداد گزشتہ سال سے بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ رپورٹ کے
مطابق صوبہ بھر میں جنوری تا جولائی تک 6 ماہ میں 652 بچوں کے اغواء اور
لاپتہ ہوئے ،سب سے زیادہ لاہور میں 312 بچے اغواء ہوئے ۔ راولپنڈی 62، فیصل
آباد 27، ملتان 25، سرگودھا میں 24 بچے اغواء ہوئے ۔
بچوں کے اغوا ء کا دوسرا مقصد جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہوتی ہیں کو
اغوا ء کر کے بیچ دیا جاتا ہے۔یعنی انسانی تجارت کے لیے اغوا ء کیا جاتا ہے
۔اس کاروبار میں بہت سی طاقت ور مافیاز ملوث ہیں ۔جو بچوں کو خریدتے ہیں وہ
اپنے مقاصد کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں ۔ یہ غلامی کے لیے خریدے جاتے
ہیں ۔ان سے مشقت لی جاتی ہے ۔جنسی ہوس پوری کی جاتی ہے ۔انہیں تربیت دے کر
کسی قوم و ملک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیاجاتا ہے ۔ایسا صدیوں سے ہوتا
آ رہا ہے ۔تاریخ بتاتی ہے ۔ایسے بچوں (لڑکیوں اور لڑکوں) کی باقاعدہ منڈیاں
لگتی تھیں جہاں ان کو بیچ دیا جاتا تھا ۔بولی لگائی جاتی تھی ۔آج بھی یہ
کام ہو رہا ہے ۔اسی مقصد کے لیے بچوں کو اغوا ء کیا جاتا ہے ۔
کتنے افسوس کی بات ہم جو مہذب معاشرہ کہلاتے ہیں اب بھی انسانوں کی تجارت
ہو رہی ہے ۔ انسانوں کی تجارت جدید دور میں غلامی کی ایک شکل ہے اور یہ
لعنت دنیا کے ہر علاقے میں،ہر ملک میں موجود ہے ۔محنت مشقت اور جنسی
استحصال کے لیے مردوں ، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ اور ان کی خرید و فروخت،
منظم گروہوں کے لیے پیسہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔
اس پر پوری دنیا میں تحقیقات کی جائیں تو حیرت انگیز انکشافات ہوں کہ اس
کاروبار میں کتنے معزز سیاست داں ملوث ہیں ۔اصل میں یہ تجارت جتنی زیادہ
ہے،جتنی منافع بخش ہے ۔اس بارے معلومات کم ہیں کیونکہ اس میں ملوث افراد
خود قانون ہیں ۔قانون بنانے والے ہیں ۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائیزیشن نے
اندازہ لگایا ہے کہ سات لاکھ سے 40 لاکھ تک انسان(جن میں اکثریت بچوں کی
ہوتی ہے ،بچوں میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل ہیں ) ہر سال بین الاقوامی
سرحدوں کے آر پار پہنچائے جاتے ہیں۔
زیادہ ترمظلوموں کو جنسی غلامی کے لیے بیچا اورخریداجاتا ہے ۔نیپالی، بنگلہ
دیشی ، ہندوستانی، ایرانی ، برمی، افغانی ، قازقستانی ، کرغزستانی ،
ترکمانستانی ، ازبکستانی عورتوں اور بچوں کو مشرق وسطٰی، یورپ اور امریکہ و
اسرائیل کو فروخت کیاجاتا ہے ۔
تیسری وجہ جس کے لیے بچوں کو اغوا ء کیا جاتا ہے وہ ہے بھیک مانگنا ۔پاکستان
میں بچوں کو اغوا ء کر کے ،انہیں معذور بنا کر چوکوں پر بھیک مانگنے کے لیے
چھوڑ دیئے جاتے ہیں ۔ان بچوں کی تربیت کی جاتی ہے پھر چوری ،ڈاکہ زنی کے
کام بھی لیے جاتے ہیں اور منشیات اور دیگر اشیاء کی اسملنگ کے لیے بھی
استعمال کیے جاتے ہیں ۔اغواء ہونے والے بچوں میں سے خوبصورت لڑکیاں الگ کر
کے ان سے جسم فروشی کا کام بھی لیاجاتا ہے ۔باقیوں سے مشقت کروائی جاتی ہے
۔بھیک مانگنے کا بھیانک روپ ہے کہ بچوں کو اغوا ء کر کے معذور بنا کر بھیک
منگوائی جاتی ہے ۔ ملک میں ہر قسم کے مافیا راج کر رہے ہیں ،وہیں گداگر
مافیا نے اپنے پاؤں پھلا رکھے ہیں ۔ گدا گری اب مجبوری کی بجائے منافع بخش
کاروبار بن چکی ہے ۔
بچوں کے اغواء کی ایک بڑی وجہ تاوان کا حصول بھی ہے جس میں اغوا کرنے والے
اغواء کنندہ،مغوی کی رہائی کے بدلے بھاری رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔اس میں
اغواء کار عام طور پر کسی مالدار آسامی کا شکار کرتے ہیں ۔
اغواء ایک مجرمانہ فعل ہے ، جس سے مر اد کسی بھی انسان کو زبردستی کہیں لے
جانا ، قید میں رکھنا ہے ۔بچے جو ہمارا مستقبل ہیں ان کو اغوا ء کیا جارہا
ہے ۔یعنی ہمارا مستقبل اغوا ء ہو رہا ہے ۔ہماری پولیس اس کو روکنے میں مکمل
طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ۔آئین
پاکستان کے آرٹیکل نمبر(3)11 کے مطابق ریاست چودہ برس سے کم عمر کے بچوں کو
تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی یعنی ہمارا معاشرہ بھی بے حسی کی وجہ سے اپنی
ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا ۔والدین اساتذہ ،پڑوسیوں کو آس پاس بسنے والے
تمام مشکوک افراد کے بارے میں آگاہ رہنا چاہئے ۔بچوں کو اکیلا بازار میں نہ
بھیجا جائے ۔بچے اغواء صرف وہی کر سکتا ہے یا کروا سکتا ہے جن پر بھروسہ
ہوتا ہے ۔مثلاََ ہمسایے ، دوست اور رشتے داروغیرہ ۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے بچوں کے اغو اء کے واقعات کاا نوٹس لیتے ہوئے
متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی
زیر صدارت یہاں اعلی سطح کا اجلاس منعقد ہوا ،وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز
شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ اولین
ترجیح ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے اغواء میں ملوث گروہ کا سراغ لگا کر
اسے نشان عبرت بنایا جائے ۔ اغوا ء کی وارداتوں کا تجزیہ کیا جائے اور ملوث
گروہ کا سراغ لگانے کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور سات روز کے اندر
کیسوں پر ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کیا جائے ۔
سپریم کورٹ نے بچوں کے اغوا ء پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 3 اگست تک ملتوی
کرتے ہوئے پولیس کو اغوا ء ہونے والے بچوں کی مکمل تحقیقات پیش کرنے کا حکم
دے دیا جبکہ عدالت عظمی نے اپنے ریما کس میں کہا ہے کہ بچوں کے اغوا ء کا
معاملہ انتہائی حساس ہے، حقائق کی تہہ تک جائیں گے اور اسے صرف پولیس کی
رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ،یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ والدین
کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگے ہیں۔ قا ئمقام چیف جسٹس میاں ثاقب
نثار اور جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے سپر یم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس کی
سماعت کی، ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے پراجیکٹر پر اغوا ء کی
تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 2015 سے لیکرجولائی 2016 تک پنجاب میں1808بچے
اغوا ء ہوئے جن میں سے1093 بچوں کو بازیاب کرایا گیا چھ سالوں میں 6793
بچوں کے اغواء کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے 6654 بچوں کو بازیاب کرا لیا
گیا اور 139 بچے اغواء کے کیسوں میں بازیاب نہیں ہو سکے جبکہ مجموعی طور پر
بچوں کے اغوا ء کے کیسوں میں سو میں سے 98 فیصد کی بازیابی ہوئی 2015 میں
1134 بچے اغواء اور 1093 بازیاب کرا لیے گے جبکہ 93 بچوں کی تلاش کے لیے
تفتیش کا عمل جاری ہے پولیس کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ 2016 کے پہلے سات
ماہ میں 767 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جن میں 715 کیسز تکمیل کے بعد کلوز کر دیئے
گئے جبکہ صرف 52 کیسز پر تفتیش جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے مجموعی طور پر
93 زیر تفتیش کیسز میں سے 10کیسز کی تفتیش آئندہ سماعت تک مکمل کرنے کا حکم
دیا ہے ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے بتایا کہ زیادہ تر بچے لاری
اڈا، ریلوے اسٹیشن اور پبلک مقامات سے ا غواء ہوئے ہیں جن کی عمریں 6 سے 15
سال تک ہیں، سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا اغوا ء ہونے والے بچوں کے
اعضا بھی نکالے جاتے ہیں جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ 6 سے 15 سال تک کے
بچوں کے اعضا نہیں نکالے جاتے تاہم 18 سال سے بڑے افراد کے اعضا نکال لیے
جاتے ہیں۔جہلم اور گجرات کے نواحی دیہاتوں میں موجود ہسپتالوں میں انسانی
اعضا نکالے جاتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔ |