ڈاکٹر نے نسخہ میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے
کہا ہے ان ہدایات کی روشنی میں بچے کا علاج جاری رکھیں۔ میں نے نسخے پر ایک
نظر ڈالی تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ سولہ سال تک تعلیم حاصل کرنے اور بیس سال
تک دفتر میں انگریزی لکھنے لکھانے کے باوجود میں ڈاکٹر صاحب کے لکھے ہوئے
نسخے اور طبی ہدایات کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ ڈاکٹر مریضوں کے جھرمٹ میں
الجھا ہوا تھا اور کام کے بوجھ کی وجہ سے موصوف کا لہجہ بھی خاصا تلخ تھا،
اس کے باوجود میں نے ہمت کرتے ہوئے ان سے پوچھ لیا کہ جناب علاج اور ہدایات
میں کیا تجویز کیا ہے، جواب میں یہی کہا کہ سب کچھ لکھ دیا ہے۔ میں نے
دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے ارشادات عالیہ پر غور کیا تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
ادویات کے نام تو عام آدمی کو سمجھنا مشکل ہوتے ہیں لیکن اضافی طور پر جو
طبی ہدایات تھیں وہ بھی ناقابل فہم تھیں۔ ڈاکٹروں کی لکھائی عام طور پر
پہلی جماعت کے طالب علم سے بھی زیادہ گئی گزری ہوتی ہے۔پھر زبان بھی بدیشی
ہوتو کون سمجھے گا۔
ایم اے پاس اور برسوں انگریزی زبان میں لکھنے پڑھنے والے پاکستانی شہری کو
اگر ڈاکٹر کی لکھی ہوئی انگریزی سمجھ نہیں آئی تو ۹۵ فیصد پاکستانی اپنا
اور اپنے گھرانے کا علاج ان ڈاکٹروں سے کیسے کرواتے ہوں گے، جو انگریزی
زبان کی اے بی سی سے بھی واقف نہیں۔ ہمارے ہاں صحت عامہ کی سہولتیں کتنی
ہیں ، یہ کسی وضاحت کا محتاج موضوع نہیں۔ جو کچھ میسر ہے وہ انگریزی میں
انٹ شنٹ لکھے گئے مخفف نسخے اور ادویات ساز کمپنیوں کی طرف سے جاری کردہ
مشکل تر انگریزی میں لکھے گئے دو تین صفحات پر مشتمل ادویات استعمال کرنے
کا طریقہ اور دوران علاج کی جانے والی احتیاطی تدابیر، پرہیز اور خوراک کی
تفصیل درج ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ کتنے فیصد پاکستانی پڑھ اور سمجھ سکتے
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم میسر سہولیات سے درست استفادہ نہیں کرپاتے اور مریض
صحت یابی کے بجائے دائمی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہماری حکومت اور سرکاری ادارے عوام دشمنی کی اس حد کو کیوں چھو رہے ہیں کہ
عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے درپے ہیں۔ہم اربوں روپے خرچ کرکے
ڈاکٹروں کو تعلیم دیتے ہیں اور کھربوں روپے صحت عامہ پر خرچ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، جو مریض سے معلومات تو اردو، پشتو،
پنجابی، سندھی اور بلوچی میں لیتے ہیں۔ اس کو ہدایات بھی انہی زبانوں میں
دیتے ہیں لیکن جب لکھ کر دینے کا مرحلہ آتا ہے تو اپنے دشمنوں کی زبان میں
شکستہ لکھائی میں وہ کچھ ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں جو ان کے علاوہ کوئی نہیں
سمجھ پاتا۔آخر انگریزی میں ایسی کیا خوبی ہے جو ہمارے ذہنوں سے صدیوں بعد
بھی نہیں نکل رہی، ہاں اگر انگریزی میں نسخے لکھنے اور طبی ہدایات جاری
کرنے میں کوئی فائدہ نظر آتا ہو تو اسے جاری رکھنا چاہیے لیکن اگر اس کے
نتیجے میں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا کام کیا جارہا ہوتو یہ سب
اقدام قتل کب تک جاری رہے گا۔بس کیجیے، عوام سے مذاق بہت ہوگیا۔ عوام
انگریز سے آزاد ہو چکے ہیں، انہیں مجبور نہ کریں کہ وہ موجودہ انگریزی
نوازوں سے بھی آزادی کی تحریک شروع کردیں۔ عوام نے انگریز سامراج کا ظلم
بہت سہہ لیا ہے۔ انہیں مزید ستم زدہ نہ کریں، عوام انگریزوں سے نفرت کرتے
ہیں اور انگریزی زبان بھی سامراجیت کی علامت ہے۔ خدا کا خوف کریں اور
سامراجیت کی علامتوں کو رواج نہ دیں۔ آخر یہ سب کچھ اردو میں لکھ دینے میں
کیا حرج ہے۔ عوام کا مزید امتحان نہ لیں ۔
دستور پاکستان میں تو ۱۹۷۳ء میں عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا
نظام اردو میں چلایا جائے گا۔ عوام نے انہیں برائیوں سے نجات پانے کے لیے
انگریز سامراج سے آزادی کے لیے لازوال قربانیاں دیں تھیں۔ پاکستان بن جانے
کے باوجود مقتدر طبقے کے دماغ سے انگریزی غلامی نہیں نکل سکی۔ یہ غلامانہ
ذہنیت ابھی تک آزاد نہیں ہوسکی۔ کوئی جاہل اگر ایسی حرکت کرجائے تو سمجھ
میں آتا ہے لیکن اگر پڑھ لکھ کر جو جاہلانہ حرکت کرے اور مسلسل کرتا چلا
جائے تو اسے کیا کہا جائے گا۔ وزیراعظم پاکستان کو اگر چینی زبان میں کوئی
طبی نسخہ لکھ کر دیا جائے تو وہ کیا کریں گے۔ جناب والا! یہ انگریزی عوام
کے لیے چینی، روسی اور ہندی زبان کے مترادف ہی ہے۔ ہم نے قوم کو ابھی اردو
نہیں پڑھائی تو پھر ہمیں موت کے پروانے انگریزی میں کیوں دئیے جارہے ہیں؟
جناب وزیراعظم اس قوم پر رحم کھائیں، آپ توعلاج کروانے برطانیہ اور امریکہ
چلے جائیں گے غریب پاکستانیوں نے انہیں ڈاکٹروں سے علاج کروانا ہے ، براہ
کرم قوم پر رحم کھاتے ہوئے ڈاکٹروں اور ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کو
اردو میں طبی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کیجیے، اس پر کوئی خرچ نہیں آئے
گا۔ اگر قومی خزانہ خالی ہے تو عوام چندہ کرکے یہ خرچ برداشت
کرلیں گے۔ |