نصابِ تعلیم پر سیاسی پارٹیوں کے مضّر اثرات
(Roshan Khattak, Peshawar)
بِلاشک و شبہ کسی بھی ملک یا معاشرے کی
تعمیر و ترقی میں جہاں والدین، معاشرہ اور استاد کردار ادا کرتے ہیں وہاں
نصابِ تعلیم کا کردار بھی غیر معمولی اہمیّت کا حامل ہوا کرتا ہے۔نصابِ
تعلیم ذہنی پرواخت اور فکری تشکیل کے ساتھ ساتھ شخصیّت کی تعمیر و ترقی میں
بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔بچے کے صاف اور نا پختہ ذہن میں جو تصویر
تعلیمی درسگاہ میں لگا دی جاتی ہے۔وہ تصویر اس حد تک پختہ ہو جاتی ہے کہ اس
کے نقوش کو پھر کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں با
لعموم اور صوبہ خیبر پختو نخوا میں با لخصوص سیا سی پارٹیوں کی یہ کو شش
رہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے’ خواہ وہ اسباق کے ذریعہ ہوں، تصویر کے
ذریعہ ہوں یا اپنے لیڈرز کے نام کے ذریعہ ہوں ‘ مگر تعلیمی اداروں کے ذریعے
افراد کے ذہنوں میں اپنا نظریہ اور فلسفہ داخل کرا سکیں۔تاکہ کل کو یہی
افراد ان کے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل میں ممدو معاون ثابت ہوسکیں۔قارئین
صوابی میں فضل حقانی پبلک سکول، بنوں میں قائم اکرم درانی پبلک سکول، باچا
خان پبلک سکول، باچا خان یو نیورسٹی، ولی خان یو نیورسٹی اور بے نظیر وومن
یو نیورسٹی جیسے نا موں سے بخوبی واقف ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نام صرف
طلباء کو نفسیاتی طور پر اثر انداز کرنے کی کو شش ہے کیونکہ نصاب یا تعلیمی
درسگا ہوں کے نام کا نفسیات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہو تا ہے۔نصابِ تعلیم
طلباء کے ذہنی نشو و نما میں اس طرح نفسیاتی طور پر ا ثر انداز ہو تا ہے کہ
ان کے ظاہری و باطنی شخصیت میں غیر محسوس طریقے سے ایک خاص نفسیاتی طرزِ
عمل غا لب آجاتا ہے اور اس نفسیاتی طرزِ عمل کا رنگ معمو لاتِ حیات میں
نمایاں طور پر جا بجا نظر آتا ہے۔
البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی نصابِ تعلیم میں مداخلت اور
دراندازی کی وجہ اگر ایک طرف ان کی اپنی خواہش اور اپنے نظریہ کی ترویج ہے
تو دوسری طرف سر کاری نظامِ تعلیم میں موجودمتعدد نقائص سیاسی پارٹیوں کو
انہیں تعلیمی اداروں میں مداخلت کا مو قعہ فراہم کر نے کا باعث بنتی ہیں،
کیونکہ انسان سازی کی یہ صنعت اپنی پیداواری لحاظ سے بانجھ پن کا شکا ر
ہے۔کہیں نہ کہیں ایسی کمی ضرور ہے۔جس کی وجہ سے تعلیمی ڈھانچہ ملکی و ملّی
تقاضوں اور معا شرتی اقدار سے ہم آہنگ افراد فراہم کر نے سے قاصر ہے، ہمارے
ہاں سرکاری تعلیمی ادارں سے نکلنے والے بیشتر افراد فکری و عملی طور پر
کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ مر عو بیت کا شکار ہو تے ہیں اور علمی بالغ نظری
کے فقدان کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے جذبہ ء مطلوبہ سے عاری ہو تے ہیں ۔عموما
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کالجوں اور یو نیور سٹیوں میں طلباء جس سیاسی پارٹی
کے زیرِ اثر یونین میں شامل ہو تے ہیں وہ ساری عمر اس پارٹی کے نظرئیے کے
تابع ہو تے ہیں ۔ایک تعلیم یافتہ شخص کو جس وسعت قلبی اور بالغ نظری کی
ضرورت ہو تی ہے ،وہ کم کم ہی پا ئی جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اعلیٰ درجہ
کے نجی تعلیمی درسگا ہوں سے فارغ التحصیل افراد چونکہ ایک خاص ماحول میں
تربیّت پاتے ہیں ۔وہ علمی طور پر مضبوط اور پر اعتماد تو ہو تے ہیں مگر
ملکی مفاد اور جذبہ حب الوطنی کے فقدان کا شکار ہو تے ہیں ۔عموما وطنِ عزیز
میں یہی لوگ بر سرِ اقتدار آتے ہیں اور بیرونی آقاوء ں کی خوشنودی کے لئے
ملکی مفاد اور خود مختاری تک کو داوٗ پر لگا دیتے ہیں ۔اول الذکر جو کام
مرعوبیّت کی وجہ سے کرتے ہیں، ثانی الذکر خوشنودی کے لئے کر گزرتے
ہیں۔الغرض نصابِ تعلیم میں موجود خا میوں کی وجہ سے دونوں ہی کی طرح افراد
ہمارے معاشرتی اور ملکی مزاجکے لئے سود مند ثابت نہیں ہو تے۔
دینی مدرسوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک اور
پہلو دامن میں لئے ہو ئے ہے، اپنے سوا کسی کو خاطر میں نہ لانا، اپنا کلام
پیش کرنا اور جواب آں غزل سننے کا روادار نہ ہو نا ، اسی کا نتیجہ ہے
حالانکہ ایسے معاملات ہیں جو افہام و تفہیم اور مذاکرے سے حل ہو سکتے ہیں
مگر افسوس کہ ان کی نو بت بھی دست و گریباں تک پہنچ جاتی ہے۔ قصہ مختصر
نصابِ تعلیم کی طرف حکومت کی عدم توجہ اور سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ
پورے نظامِ تعلیم کے لئے بربادی کا باعث بن رہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں
تحریکِ انصاف کی حکومت کے ساتھ جماعتِ اسلامی بھی شریکِ اقتدار ہے ، دونوں
کے نصابِ تعلیم اور نظریہء تعلیم میں زمین آسمان کا فرق ہے جس کی وجہ سے
صوبہ میں رائج نصابِ تعلیم فٹ بال کی مانند ٹھو کریں کھا رہا ہے اور اقتدار
میں ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود ایک متفقہ نصابِ تعلیم پر اتفاق نہیں
کیا جا سکا۔ |
|