بجرنگی بھائی جان
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی میں
انسان نے بے حد ترقی کی ہے‘ اپنے عقل وشعور کی وجہ سے دنیا سے آسمان پر
پہنچ گیا ہے ،سائنس وٹیکنالوجی کی وجہ سے آج وہ چیزیں بھی سامنے آرہی ہے جس
کی پچاس ، سوسال پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا ،جدید یت اور تر قی کا یہ سفر
تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے اور اس کا کریڈٹ غیرمسلموں کے ہاتھوں ہے جس نے
مسلمان سے علم لیا اور آج اسے بلند مقام پر پہنچایا جبکہ مسلم دنیا فساد
اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے جس میں ہمارا اپنا قصور زیادہ ہے ۔
سائنس وٹیکنالوجی کی اس دور میں جہاں انسان کو بے تحاشا فوائد دیے،سائنس
وٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان بنا دیا وہاں پر دنیاکی اس جدید دور میں
انسانیت بھی ختم ہوتی جارہی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسان اس
جدید دور میں قتل وغارت کو خیر آباد کہتا اوردنیا امن کی جگہ ہوتی لیکن
بدقسمتی سے جہاں پر سائنس و ٹیکنالوجی نے دوسرے میدانوں میں ترقی کی منزلے
طے کیے ہیں وہاں قتل وغارت کرنے اور خون بہانے کے بھی جدید ٹیکنالوجی ،بم
وبارو د ایجاد کیا ہے جس کی وجہ سے یہ کڑوا سچ ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس
جدیددور میں دنیا سے انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے اور انسان کا خون پہلے سے
آرزاں ہوگیا ہے۔آج اس جدید دور میں ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے جس
کی وجہ سے دنیا سے امن ومحبت ختم ہورہی ہے ، سہولتوں کے باوجود سکون رخصت
ہوتا جارہاہے ،سائنس وٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی انسان جہالت کی
بلندیوں پر ہے۔ جہالت کی ان بلند یوں اور انسانیت سے دور ہمارے پڑوسی ملک
بھارت جس کی آبادی ایک ارب بیس کروڑ ہے وہاں آج بھی ایسے ایسے واقعات رونما
ہورہے ہیں جو شاید اس جدید دور سے پہلے نہ تھے ، وہاں مسلمانوں کو اسلئے
بھی تنگ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں ،
آئے روز گائے گوشت کے معاملے پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے
یعنی انسان سے جانور کی قیمت زیادہ ہے ، بھارت میں آج اس جدید دور میں بھی
ایسے ایسے واقعات رونماہوتے ہیں جس سے اندازہ ہوتاہے کہ جہالت کادور بھارت
میں آج بھی ختم نہیں ہوا ، مسلمانوں کو تو گائے کے گوشت پر نشانہ بنایا
جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت دنیا کو سب سے زیادہ گائے کا
گوشت بیجنے والا ملک بن گیا ہے لیکن بھارتی حکومت کی دوغلا پالیسی اور عوام
کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنے کیلئے بھارتی حکومت عوام کی اس پرتشدد سوچ
کو ختم کرنے کیلئے تیار نہیں ، اسی طرح دیکھا جائے تو بھارت اپنی فلموں میں
توامن ومحبت اور بھائی چارے کادرس بھی دیتا ہے لیکن بھارتی حکومت کی سوچ ان
کی فلمی کہانیوں سے دور ہے ۔ حقیقی معنوں میں بھارتی حکومت اس جدید دور میں
بھی اندھیروں میں رہ رہی ہے ۔ بھارتی فلموں میں ایک فلم مسلمان ہیرو سلمان
خان کی بجرنگی بھائی جان بھی ہے جس نے ریکارڈ بزنس و کامیابی حاصل کی تھی‘
اس فلم میں ایک بچی کی کہانی بیان کی گئی ہے جو آزادکشمیر کی ایک خاتون ماں
سے دوران سفر گم ہوجاتی ہے جس کو پاکستان پہنچنے کیلئے ہیرو سلمان خان اپنی
جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان آزاد کشمیر پہنچا دیتا ہے ۔ اس فلم کی کہانی
انسانیت دوست ہیں جسے پاکستان و بھارت کے عوام کو ایک اچھا پیغام ملتا ہے
لیکن بدقسمتی سے یہ پیغام فلم میں تو ملتا ہے لیکن بھارتی حکومت اس کے
برعکس کام کرتی ہے ۔ آج بھی بہت سے بے گناہ افراد بھارتی جیلوں میں مسلمان
ہونے کے ناطے پڑے ہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ ان بے گناہ افراد میں کئی بچے بھی
شامل ہے جو بھارتی جیلوں میں زندگی کے خوبصورت دن کاٹ رہے ہیں ۔ان بھارتی
جیلوں میں ایک بچہ اسماعیل کے نام سے جس کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع
چارسدہ سے ہیں جو گزشتہ دو تین برس سے لاپتہ تھا جس کا چند ماہ پہلے معلوم
ہوا کہ وہ بھارتی جیل میں ہے۔اسماعیل گزشتہ دوتین سال سے لاپتہ تھا جو شاید
سیلاب میں لاپتہ ہوگیا اور چلتے چلتے بھارت جاپہنچا ، اب مبینہ طور پر کہا
جارہاہے کہ یہ بچہ بھارتی جیل میں ہے ۔ بچے کی عمر دس بارہ سال ہے لیکن
بدقسمتی سے بچے کو اب تک رہا نہیں کیا گیا ، بچے کا خاندان چونکہ انتہائی
غریب ہے ، کسی وزیر مشیر سے تعلق بھی نہیں رکھتا اس لئے بچے کی رپورٹیں
میڈیا میں چلنے کے سوا کوئی عملی کام جو پختون خوا یا وفاقی حکومت نے
اٹھائے ہوکہ جس سے بچے کی رہائی ممکن ہوجائے ‘ ابتک نظر نہیں آرہی ہے۔
بھارتی فلم بجرنگی بھائی جان میں تو ایک کہانی بیان کی گئی لیکن اس کو عملی
چامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے کہ ایسے بچوں کو بھارتی حکومت پاکستانی حکومت
کے حوالے کریں اور اس طرح کے بچوں کو جیلو ں سے رہاکیا جانا چاہیے ۔ دونوں
ممالک کو کم ازکم اس معاملے پر یک زبان ہونا چاہیے کہ جو بچے جیلوں میں ہے
، ان کو رہا کیا جائے اور آئندہ بچوں کو جیل کے بجائے ایک دوسرے کی حکومت
کو حوالے کرنا چاہیے ،تاکہ عام لوگ اس دردناک ازیت سے بچ سکیں بلکہ انسانیت
کے خاطرجو بھی معصوم اور بے گنا ہ افراد پاکستان اور بھارت کے جیلوں میں
صرف اسلئے سزا کاٹ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی یا بھارتی ہے ، ان کی رہائی کو
ممکن بنانا چاہیے ۔ حکومتوں کے سامنے اس طرح کے لوگوں کا جیلوں میں رہنا
کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن جن کے پیارے جیلوں میں ہوتے ہیں ان پر زندگی تنگ
ہوجاتی ہے وہ کس ازیت اور غم سے زندگی بسر کرتے ہیں،اس کااندازہ لگاناہی
مشکل و ناممکن ہے۔ اس درد ناک اور ازیت سے آج کل چارسدہ کے رہائشی اسماعیل
کے والدین اور گھروالے بھی گزر رہے ہیں جن کیلئے ہرروزمشکل اور غموں سے
بھرا ہے۔ میڈیا کو بھی اس پر بھر پور آواز بلند کرنا چاہیے جب تک ہمارے بے
حس حکمران اور سیاست دان جاگ نہ جائے ۔ امید ہے کہ بھارت میں کوئی حقیقی
معنوں میں بجرنگی بھائی جان پیدا ہوگا اور اسماعیل کو بھارتی جیل سے رہا
کرانے میں مدد دے گا۔ |
|