ملک بھرمیں تحفظِ گاؤکی تحریک کے نام
پرپہلے مسلمانوں اور اب دلتوں کاناطقہ بندکرنے کی پرزورمہم کے دوران ایک
تازہ رپورٹ بھی کم دلچسپ نہیں ہے،یہ رپورٹ ملک کے مسلمانوں سے ہی متعلق ہے
اور وہ بھی ان کی اقتصادیات سے۔ہندوستان کوآزادہوئے تقریباً ستر سال ہونے
کوہیں،اس طویل عرصے میں حکومتوں کی آواجاہی اورقومی سیاست میں تغیرات کے
مختلف اَدوارگزرچکے ہیں اورمسلمانوں کی خیرخواہی وفلاح وبہبودکے نام
پرسیاست بھی خوب کی گئی ہے؛لیکن ان کی حالت اب بھی یہ ہے کہ ہندوستان
کاہرچوتھابھکاری مسلمان ہے۔یہ رپورٹ29؍جولائی کوانگریزی روزنامہ’انڈین
ایکسپریس ‘ میں شائع ہوئی ہے اوروہاں سے متعددنیوزچینلوں اور اخباروں نے
اسے نقل کیاہے۔ اس کا تعلق2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان بھرمیں
پائے جانے والے ’نان ورکر‘یا’بے کار‘لوگوں سے ہے،ایسے لوگ پورے ہندوستان
میں بہترکروڑنواسی لاکھ ہیں،جبکہ ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار ’بھکاری ‘
ہیں،جن کاپچیس فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے،یعنی بانوے ہزارسات سوساٹھ
’بھکاری‘توصرف مسلمان ہیں۔اس رپورٹ میں ’نان ورکر‘کی تشریح ان لوگوں سے کی
گئی ہے،جو کسی بھی اقتصادی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے،چاہے وہ خانگی خدمات
کے ذریعے ہویاکاشت کاری کے ذریعے۔حالاں کہ کاسہ بدست ہندوستانیوں کی یہ
تعداد2001ء کے مقابلے میں کافی کم ہے ؛کیوں کہ تب ملک بھر میں’بھیک مانگنے
والوں‘کی مجموعی تعدادچھ لاکھ تیس ہزارتھی،یعنی دس سال میں 41فی صدکمی ہوئی
ہے؛لیکن مسلمانوں کی سطح پر دیکھیں تویہ تعدادبھی اندوہ ناک ہی ہے؛کیوں کہ
اس کے مطابق ملک کا ہر چوتھابھکاری مسلمان ہے۔اس ملک میں مسلمانوں کی
مجموعی آبادی14.23فیصدہے اوربھکاری ہندوستانیوں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق
مسلمانوں سے ہے،جبکہ ہندووں کی مجموعی آبادی79.8فیصدہے اوردولاکھ اڑسٹھ
ہزارہندوایسے ہیں،جوبھیک مانگتے ہیں اوریہ تعدادہندوستان کی ’بھکاری آبادی‘
کا 72.22 فیصد ہے،ان دونوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں میں بھیک
مانگنے والوں کی شرح ان کی آبادی کے تناسب سے کافی کم ہے؛چنانچہ ملک میں
عیسائیوں کی مجموعی آبادی2.3فیصدہے اوربھکاری آبادی میں اس کی
نمایندگی0.88فیصدہے یعنی کل تین ہزارتین سوتین بھکاری عیسائی طبقے سے تعلق
رکھتے ہیں،بدھسٹوں میں یہ شرح0.52فیصد،سکھوں میں 0.45فیصد،جینیوں
میں0.06فیصداوردوسرے طبقات میں مجموعی طور پر 0.30 فیصد بھکاریوں کی
تعدادہے۔
ویسے ایک ’مضحکہ خیز‘ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان بھر میں بھیک مانگناایک
مجرمانہ عمل ہے اورقانون کے تحت اس کی سزاتین سے دس سال تک قیدکی ہے،البتہ
جس ایکٹ(The Bombay Prevention of Begging Act 1959) کے تحت یہ قانون
بنایاگیاہے،اس میں بھکاری کی کٹیگری طے کرنے کے حوالے سے کوئی واضح
تصویرنہیں پیش کی گئی ہے،قانون کے ماہرین اور سماجی کارکنان مختلف وقتوں
میں اس پرسوال بھی اٹھاتے رہے ہیں،سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح ہمارے
ملک کے دستورکی بہت سی شقیں اب بھی انگریزی دورِحکومت کے دستورسے مستعارہیں
اورانہی پر عمل کیاجارہاہے ،اسی طرح یہ قانون بھی برٹش دورکی ہی
یادگارہے۔ماہرین کے مطابق اس قانون میں جومحلِ غورچیزہے،وہ یہ ہے کہ اس میں
ان لوگوں کوبھی ’بھکاریوں‘کے زمرے میں شامل کیاگیاہے،جوعوامی مقامات پرکرتب
دکھاکر،گانے گاکر،ڈانس کرکے یاآیندگاں کی خبردے کراپنی روزی حاصل کرتے
ہیں،اس قانون میں پولیس کویہ اختیاردیاگیاہے کہ وہ اپنی صواب دیدپرکسی بھی
ایسے شخص کواٹھاسکتی ہے،جس کے بارے میں اسے لگے کہ یہ بھکاری ہے اور اس شخص
کواپنے بچاؤکابھی اختیارنہیں ہوگا۔اس قانون کودیکھتے ہوئے تویہی
کہاجاسکتاہے کہ ریاست کو افلاس،بھوک،ناداری اور بھیک مانگنے جیسی چیزوں
کوختم کرنے سے زیادہ دلچسپی ان حالات کے شکارلوگوں کومجرموں کی فہرست میں
ڈالنے سے ہے ،گزشتہ دنوں بہارحکومت نے بھکاریوں کی باز آبادکاری کے حوالے
سے اقدامات کا عندیہ دیاتھا،جبکہ مہاراشٹراور مغربی بنگال وغیرہ میں اسی
قانون کے مطابق پولیس کبھی بھی کسی بھی بھکاری کوپکڑکرجیل میں ڈال دیتی
ہے۔2؍جولائی کوانگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘میں ایک خبرشائع ہوئی تھی کہ دہلی
کی سیاحتی اہمیت اور غیرملکی سیاحوں کوپیش آنے والی پریشانیوں کی وجہ سے
یہاں سے بھی بھیک مانگنے کے پیشے کوختم کیاجائے گا،اوراس کے لیے حکومت کے
سوشل ویلفیئرڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھکاریوں کی باز آبادکاری کاایک پلان
تیارکیاگیاہے، خبرکے مطابق دہلی حکومت اس کا آغازنئی دہلی اسمبلی حلقے سے
کرے گی۔اِس وقت دہلی میں کل پچہترہزاربھکاری ہیں، جن میں سے 30فیصداٹھارہ
سال سے بھی کم عمرکے ہیں،جبکہ مجموعی طورپرتقریباً چالیس فیصدخواتین
ہیں۔دہلی حکومت نے ان بھکاریوں کی بازآبادکاری کے لیے ایک منصوبہ
بنایاہے،جس کے مطابق انھیں پناہ دینے کے علاوہ ایسے مختلف ہنر بھی سکھائے
جائیں گے،جن کے ذریعے وہ اپناخرچ نکال سکیں۔ ریاستی سرکاروں کے علاوہ مرکزی
حکومت کوبھی اس بارے میں ایک منظم اور مضبوط منصوبہ بناناچاہیے؛کیوں کہ
بھیک مانگنابہت سے مصائب رسیدہ لوگوں کی مجبوری توہے ہی؛لیکن کتنے ہی ایسے
لوگ بھی ہیں،جواس کوبھی پیشہ بنائے ہوئے ہیں،انھیں کوئی کام کرنے کوکہاجائے
تووہ اس کے لیے تیارنہیں ہوں گے؛لیکن پورے دن مختلف چوک چوراہوں،گلیوں میں
پھرپھرکر،مختلف طبیعت کے افرادکی جھڑکیاں سن سن کرپیسے کماناانھیں
اچھالگتاہے؛بلکہ وقفے وقفے سے آنے والی خبروں سے توہمیں یہ بھی پتہ لگتاہے
کہ ایسے بہت سے لوگ جب مرتے ہیں،تواپنے پیچھے لاکھوں کروڑوں روپے یااتنی ہی
مالیت کے اسباب و جائیدادچھوڑجاتے ہیں۔
ویسے ہماری تحریرکااصل رخ مسلم آبادی اور مسلمان بھکاریوں کی طرف ہے،جیساکہ
مذکورہ رپورٹ کایہ حصہ حیرت انگیزہے کہ ہندوستان میں ہر چوتھا بھیک مانگنے
والامسلمان ہے،وہیں یہ بھی کم افسوس ناک حقیقت نہیں ہے کہ مسلمانوں میں
بھیک مانگنے والوں کی زیادہ تعدادعورتوں کی ہے۔قومی سطح پر بھیک مانگنے
والے مردوں کی شرح53.13فیصد،جبکہ عورتوں کی تعداد46.87فیصدہے اورمسلمانوں
کے درمیان یہ تعدادبالکل الٹی ہوئی ہے، یہاں مردبھیک مانگنے والے عورتوں کے
بالمقابل کم ہیں،مردوں کی تعداد43.61فیصدہے اور عورتوں کی تعداد53.13ہے
اوراس کا توہم بھی بآسانی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مختلف شہروں کی بڑی چھوٹی
مسجدوں اور مسلم محلوں کی گلیوں میں وقت بے وقت آوازلگاکربھیک مانگنے والی
زیادہ تر عورتیں ہی ہوتی ہیں۔
نان ورکریابھکاریوں کی حدبندی کے حوالے سے قانونی سقم کے باوجوداس رپورٹ سے
مجموعی طورپر یہ توثابت ہوہی رہاہے کہ مسلمانوں کی معاشی حالت بد نہیں؛بلکہ
بدترین ہے،اس پرتوماضی میں کئی سرکاری وغیرسرکاری رپورٹس بھی آچکی ہیں۔میں
نے اس خبراوراس کے تعلق سے مشاہدین و قارئین کی آرااور تبصروں کامعاینہ
کرنے کے لیے متعدداُن اخباروں اور نیوزچینلوں کی سائٹس کامعاینہ کیا،جہاں
یہ خبراوراس پرلوگوں کے کمینٹس درج تھے،تو دیکھا کہ زیادہ ترلوگ مسلمانوں
میں معاشی افلاس اوربھیک مانگنے کے رواج کواسلام سے وابستہ کرکے دیکھ رہے
ہیں،بعضوں کومسلمانوں پراس لیے غصہ آرہاہے کہ انھوں نے ہندوستان پر آٹھ
سوسال حکومت کی،اس کے باوجوداب تک بھیک ہی مانگ رہے ہیں،بعضوں نے اس کوراست
طورپراسلامی تعلیمات سے جوڑااورلکھاکہ ان کامذہب انھیں یہی سکھاتاہے،کسی نے
تویہ بھی لکھاتھاکہ ان کے مابین افلاس اوربھیک مانگنے کی وبااس لیے پائی
جاتی ہے کہ یہ لوگ کماناچھوڑکردن میں پانچ پانچ بار عبادت کرتے
ہیں(نعوذباﷲ)۔مجھے لگاکہ میڈیااس قسم کی خبریں اس لیے شائع نہیں کرتاکہ وہ
مسلمانوں کے حالات کو بہتر بنانے کی سمت میں واقعتاً لوگوں کی توجہ دلانا
چاہتاہے؛بلکہ وہ اس لیے ایسی خبروں کونمایاں کرنے میں دلچسپی دکھاتاہے کہ
دوسرے طبقوں کے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں تنفراور تحقیرکے جذبات
مسلسل پروان چڑھتے رہیں اوروہ اس میں کامیاب بھی ہے۔البتہ ہمارے معاشرے اور
قوم کی جوحقیقت ہے،وہ توہے ہی،ہرصاحبِ نظرانسان محسوس کرتاہے اور دیکھتاہے
کہ مجموعی طورپرمسلمانوں میں اقتصادی بدحالی عام ہے،بے کاروں کی تعدادزیادہ
ہے، بھیک مانگنے والے ہر گلی محلے کے نکڑپرمل جاتے ہیں،بعض لوگ اس لیے مفلس
ہوتے ہیں کہ وہ طاقت ووسعت ہونے کے باوجودکچھ کرنا نہیں چاہتے اور سوچتے
ہیں کہ بغیرمحنت کیے ہوئے دوچاردس لوگوں سے بھیک مانگ کراپنی ضرورت پوری کی
جائے،ایسے لوگوں کے تئیں معاشرے کی ذمے داری ہے کہ وہ انھیں کام پر
لگائے،اسے مجبورکیاجائے کہ وہ محنت کرے اور اپنے ہاتھ سے کماکرکھانے کی
عادت ڈالے،اس کی نظیرہمیں عہدِ نبویﷺمیں ملتی ہے کہ ایک شخص بھیک مانگنے
آیا،توآپؐنے اسے کام کرنے کی تلقین کی اوراتناہی نہیں؛ بلکہ آپؐ نے اپنے
ہاتھ سے اسے کلہاڑی بناکردی اورکہاکہ جنگل سے لکڑیاں کاٹواورانھیں بیچ
کراپنی اوراپنے اہل و عیال کی ضرورتیں پوری کرو،آپؐ نے فرمایاکہ بھیک
مانگنا ایک ذلت آمیزعمل ہے،آپؐ نے ایسے لوگوں کونہایت ہی خوفناک وعیدیں
سنائیں،جوبھیک مانگنے کوپیشہ بنالیتے ہیں۔البتہ کچھ لوگ واقعتاً مجبورہوتے
ہیں اورانھیں حاجت ہوتی ہے کہ صاحبِ وسعت مسلمان ان کی امدادکریں ،اس کے
لیے اسلام نے زکوۃ کاایک منظم سسٹم قائم کیاہے،اگر ہر مسلمان اپنے مال میں
سے پابندی کے ساتھ زکوۃنکالتاہے،توایساشایدہی ہوکہ معاشرے میں کوئی مسلمان
فاقہ مست رہ جائے یااسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت آئے،اس پر
مستزادیہ ہے کہ اسلامی لٹریچرمیں سیکڑوں مقامات پرالگ الگ مناسبت سے
مسلمانوں کوصدقہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے،صلہ رحمی کی تاکید کی گئی
ہے،لوگوں کے کام آنے کی باربارہدایت کی گئی ہے؛ان تعلیمات پراگرہرمسلمان
ذراسابھی عمل کرلیتاہے،تواس سے مجموعی طورپرپورے معاشرے کابھلاہوگا؛لیکن اس
دورمیں ایک نہیں،کئی ایک مسائل ہیں،اولاً تومسلمانوں میں ادائیگیِ زکوۃ
کاعمومی مزاج نہیں ہے،ثانیاً اگرزکوۃ نکالتے ہیں، توان کے مستحقین تک
پہنچنے کاکوئی قابلِ اعتمادذریعہ نہیں ہے،کسی کوہدفِ ملامت
بناناہرگزمقصودنہیں،مگریہ ایک بہت بڑاالمیہ ہے کہ (ہندوستانی)مسلمانوں کے
درمیان جوزکوۃ کی وصولی کاسسٹم رائج ہے،اس پرمکمل اعتمادنہیں کیا
جاسکتا،سماجی خدمت کے نام پر،یتیم،غریب بچوں کی تعلیم کے نام پر،آفات رسیدہ
مسلمانوں کی امدادکے نام پربے شماربڑے چھوٹے سماجی وتعلیمی ادارے وجودمیں
آچکے ہیں،جن میں سے بہت سے ہندوستان و بیرون ملک سے زکوۃ کی لمبی رقمیں
وصول کرلاتے ہیں اوراحساسِ ذمے داری کے بغیرانھیں من مانے طریقے سے خرچ
کرتے ہیں،یہ رقوم جن لوگوں کی زندگی سنوارنے کے نام پرحاصل کی جاتی ہیں،ان
تک تونہیں پہنچتیں،البتہ وصول کرلانے والے لوگ اپنی انفرادی زندگیاں نہایت
ہی پرتعیش بنالیتے ہیں۔ایسے ماحول میں مسلمانوں کے مجموعی معاشی انحطاط
کاعلاج کیسے ہوسکتاہے،یہ حقیقت ہے کہ اس کی بڑی وجہ سرکاروں کی بے توجہی
یامختلف سرکاری فنڈزسے ان کی ناشناسائی بھی ہے؛لیکن شرعی اعتبارسے مجموعی
طورپرتمام مسلمانوں کی بھی توذمے داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی خیرخواہی میں
حصہ لیں ،حقیقی ضرورت مندوں کی شناخت اوران کی امدادکاایک مضبوط،قابلِ
اعتمادسسٹم ہونانہایت ہی ضروری ہے، عورتوں کابھیک مانگناتواوربھی شرمناک ہے
اوراس سے پوری قوم کی ایک ’مسخ شدہ‘تصویرابھرکرسامنے آتی ہے،ان میں سے بہت
سی عورتیں توایسی ہوتی ہیں کہ ان کی گودمیں بچہ بھی ہوتاہے،آخروہ
کیسامردہوگا،جواپنی بیوی سے جنسی تسکین بھی حاصل کرتاہوگا اورپھراسے دنیاکی
نگاہوں میں ذلیل ہوکربھیک مانگنے پربھی مجبورکرتاہوگا!!ہم اپنی تمام حالتوں
کی ذمے داری سیاست یاحکومت پرڈال کربری الذمہ نہیں ہوسکتے،ہم جب تک اپنی
بدحالی کودورکرنے کے لیے خودمنظم کوشش نہیں کرتے،اس وقت تک ہمارے احوال
ایسے ہی رہیں گے!! |