ڈاکٹر بننا ہے یا ڈاکو
(Malik Muhammad Salman, )
طب کا پیشہ انتہائی متبرک اور قابل احترام
ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت دوست بھی تھا لیکن جیسے جیسے مال و زر کی ہوس
بڑھتی گئی مسیحائی کا پیشہ بھی اس سے متاثر ہوتا گیا۔ ہرایم بی بی ایس کی
ڈگری رکھنے والا’مسیحا‘ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ’خدمتِ خلق‘ مشروط
ہے۔اگرکسی کا جذبہ کھوٹا اور نیت میں فتور ہو تووہ چاہے طب کی کتنی ہیبڑی
سندیں رکھتا ہو، مسیحا نہیں بلکہ ڈاکو اور موت کا سوداگر ہے ۔
1970ء میں جب ڈاکٹر جمعہ پاکستان میں واحد نیورو سرجن تھے تو ایک دن ڈاکٹر
صاحب کا بیٹا عصمت موٹر سائیکل حادثے میں شدید زخمی ہوگیا۔ اسے فوری طور پر
جناح ہسپتال کراچی لایا گیا۔جہاں اس کے والد ڈاکٹر جمعہ آپریشن تھیٹر میں
ایک عام مریض کا آپریشن کر رہے تھے۔ ڈاکٹر جمعہ کو آپریشن تھیٹر میں ان کے
بیٹے کی حالت کے بارے میں بتایا گیا۔ ڈاکٹر نے آپریشن تھیٹر میں پڑے مریض
کو دیکھا تو ان کے ضمیر نے اسے موت کے منہ میں چھوڑ کر اپنے بیٹے کو دیکھنا
گوارا نہ کیا لہٰذا انہوں نے آپریشن جاری رکھا۔ آپریشن کامیابی سے ختم ہوا
تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا عزیز بیٹا عصمت انتقال کر چکا ہے!
ایک طرف طبی اخلاقیات کی یہ تابندہ مثال کہ زیر علاج عام مریض کی زندگی
بچانے کے لیے اپنے بیٹے کی قربانی دے دی گئی اور دوسری طرف آج اسی ملک میں
کچھ ڈاکٹرز اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتا ل کر رہے ہیں، ایمرجنسی اور
اوپی ڈی کو تالے لگا رہے ہیں ۔ جب کہ وہ جانتے بھی ہیں کہ اس کا خمیازہ
عوام کو کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت بھگتنا ہو گا۔گذشتہ برس کی ہڑتال
کی وجہ سے معصوم بچوں سمیت دو درجن سے زائد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ہسپتالوں کو تالے لگ گئے، جس کی وجہ سے جاں بلب مریض سڑکوں پر مرتے دکھائی
دیے۔ یہ منظر نامہ نہایت خطرناک اور افسوس ناک ہے جو مقدس سمجھے جانے والے
اس شعبہ کی ایسی نفرت انگیز تصویر کھینچ رہا ہے کہ لوگ برملا ان لوگوں کو
ڈاکٹر کی بجائے ڈاکو کہہ رہے ہیں۔یہ کیسی سنگ دلانہ حرکت ہے کہ کسی طبیب کے
سامنے ایک معصوم بچہ تڑپ تڑپ کر جان دے دے اور وہ تنخواہوں میں اضافہ اور
سروس اسٹرکچر کے بینر لیے اس کے سامنے بے نیازی سے کھڑے رہیں۔ ایک عام آدمی
بھی اس طرح نہیں کر سکتا تو پھر مسیحا کہلائے جانے والے ان سفیدکوٹوں والوں
کے دل اتنے سیاہ کیوں ہو گئے؟
ڈاکٹر ز کی اکثریت ان ہونہار ڈاکٹرز پر مشتمل ہے جنھوں نے سرکاری اداروں
میں محض چندہزار روپے ماہانہ فیس ادا کر کے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی ہے۔
جبکہ حکومت نے ان کی تعلیم میں صرف ہونے والے لاکھوں روپے خرچ کا بوجھ
برداشت کیا اوریہ اخراجات عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہوتے ہیں۔ افسوس صد افسو
س !جن غریبوں نے لاکھوں روپے ٹیکسوں کی مد میں خرچ کر کے ان مسیحاؤ ں کے
اخراجات برداشت کیے اور ان کو اس مقام تک پہنچایا آج وہی ڈاکٹر ان غر یبوں
کے علاج معالجے سے انکاری ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹروں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کی
جائے۔ ایسے ڈاکٹرز کو سرکاری ہسپتالوں میں تعینات کیا جائے جو خوف خدا بھی
رکھتے ہوں اور انسانیت کے لئے ہمدردی بھی۔تعجب ہے !ان مسیحاؤ ں کی سوچ اور
انداز پرکہ غریب ،نادار ،مفلس اور سسکتے مریضو ں کو چھوڑ کر اپنی خواہشات
اور مطالبات منو انے کے لیے ہسپتالوں کے تالے لگا کر سڑکوں پر احتجاج کر
رہے ہیں۔آخر مریضوں کو تڑپتے چھوڑ کر مسیحا کس راہ پر چل پڑے ہیں ؟کیا ان
کا پیشہ اس بات کی اجازت دیتاہے ؟پیشہ چھوڑئیے ،ذرا! اپنے ضمیر سے اس کا
فیصلہ کیجئے۔کیا آپ کا ضمیر آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے۔۔۔؟
ہم اخلاقی پستی میں شاید دنیا کی ساری اقوام کو ہی پیچھے چھوڑچکے ہیں،
ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک انسان ہمارے سامنے سسک سسک کے جان دے
رہا ہو تا ہے مگر ہمیں پرواہ نہیں ہوتی ، ذاتی مفادات اور دولت کے اندھے
تعاقب نے انسانی قدروں کو بری طرح پامال کر دیا ہے۔
محسن انسانیتﷺ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ لیکن
ہسپتالوں کے نام پر انسانی قتل گاہوں میں بے رحم ڈاکٹروں کے ہاتھوں بے موت
مارے جانے والے لاتعداد مظلوموں کو ابھی تک مقتول کے برابر نہیں سمجھا
جاتا۔وہ اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے محض قضائے الہی کہہ کر بے جان لاش
ورثاء کے سپرد کردیتے ہیں۔
کیا حکوت کا کام صرف ڈاکٹروں کی مراعات پوری کرنا ہے حکومت نوٹس کیوں نہیں
لیتی؟ ڈاکٹرز ،پیرا میڈیکل اسٹاف اپنے مطالبات کے لئے ہڑتالیں کر سکتے ہیں
تو حکومت اپنے مطالبات کیوں نہیں رکھ سکتی،عوام کی طبی سہولیات کو یقینی
بنانے کے لیئے ضروری ہے کہ سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی
لگائی جائے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ہسپتالوں میں ہمہ وقت
عملہ مہیا کیاجائے غفلت کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اور سستے
داموں علاج معالجے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
ڈاکٹروں اور دیگر محکموں کے سرکاری افسران کی تنخواہوں کا تقابل کیا جائے
تو معلوم ہوگاکہ دیگر سرکا ری محکموں کی بنسبت ان مسیحائی پیشہ وروں کا
کتنا خیا ل رکھا جاتا ہے۔ تمام مالی فوائد کے باوجود ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال
سمجھ سے بالا تر ہے۔ڈاکٹر اگرسمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور
یہ چاہتا ہے کہ اس کی خدمات کا ریٹرن اسے زیادہ ملنا چاہیے تووہ ہسپتالوں
کو تالے لگا نے کی بجائے اپنے مطالبات کے لیے پرامن مظاہرے کرے، میڈیا کے
ذریعے اپنی آواز بلند کرے، مریض کشی کی بجائے مریضوں کو اپنا ہم نوا بنائے
تویقیناً نیک نامی کے ساتھ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو جائیگی۔فیصلہ آپ
کا ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کر کے ڈاکٹر کہلوانا ہے یاہسپتالوں کی
تالابندی کر کے بیمار و لاچار مریضوں کی بدوائیں لیکر ڈاکو۔ |
|