ہم اور ہماری تاریخ

ہر مسلمان کلمہ گو ہونے کی حیثیت سے ایک طویل تاریخ سے منسلک ہے،یہ تاریخ ہماری اسلامی شناخت کا اہم حصہ ہے،خلق آدم سے آج تک تاریخ اسلامی نے جتنے عروج و زوال دیکھے ،سب ہماری تاریخ میں درج اور محفوظ ہے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پرتا ہے کہ اس عمیق تاریخ سے مسلمان دور ہے،اور اپنت اسلاف سے بے خبر ہے،بلکہ اب تو اسلامی تاریخ کوبگاڑنے اور نوجوانوں کے ذہنوں میں اسلامی شخصیات کی حقارت ڈالنے کی باقاعدہ محنت کی جارہی ہے،تاکہ ٓٓآج کے نوجوان کا اپنے ماضی سے تعلق ختم ہوجائے، نوجوان یہ سمجھنے لگے کہ شاید اسلامی تاریخ میں صرف ذلت اور رسوائی ہی ہے، اور اسلام دور جدید کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتا ، ان ساری غلط سوچوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان اغیار کی ثقافت کی طرف دیکھتا ہے ،اور اس کو اپنانے کی کوشش کرتاہے، حالانکہ حقیقیت یہ ہے کہ خلفاء راشد ین اور حضرت معاویہؓسے لیں کر عمر بن عبدالعزیز، محمود غزنوی،عبدالرحمن الناصر،نور الدین زنکی،سلطان قطز،محمد الفاتح ،اورنگ زیب اور عبدالکریم خطابی جیسے منصف ،بہادر اور حکیم قائٰدین کے علاوہ عباس بن فرناس،ابن الہیثم،جابر بن حیان، غزالیؒ اور ابن خلدون جیسے سایئٰنسدان،مفکر اور عصری علوم کے ماہر آج تک دنیا میں اسلام کی عظمت کے علامت ہے،لیکن ان کی سیرت سے فائٰدہ اٹھانا تو دور کی بات آج کے مسلمان اپنے ان ہیروز کے نام تک نہیں جانتے!!!

ان میں سے ایک عظیم شخصیت کا مختصر قصہ ادھر ذکر کیا جاتا ہے:
ساتویں صدی ہجری میں عالم اسلام مختلف ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا،خلافت عباسیہ کی رٹ صرف عراق تک محدود تھی،اسی طرح صلیبی دنیا بھی کمزوریوں کا شکار تھی،اس اثنا میں چین کی جانب سے ایک نئی طاقت سامنے آئی،یہ تتاریوں کی طاقت تھی جو کہ تعداد،اسلحہ اور قوت کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے،چنانچہ تتاری چین پر قبضہ کرکے مشرق اسلامی کی طرف بڑھے،۶۱۴ہجری میں تتاریوں کا مسلمانوں سے پہلا مقابلہ ہوا،اس مقابلہ میں مسلمانوں کی شکست کے بعد صرف تین سال میں تتاری ایران کی حدود تک پہنچ گئے،اور اس خونی سفر میں بلا مبالغہ لاکھوں مسلمان شہید ہوئے، بخاری،مرو او ر نیسابور جیسے بڑے شہر صفحہ ہستی سے مٹادیے گئے،اور بلآخر خلافت عباسیہ کا دار الحکومت بغداد بھی ۶۵۶ہجری میں تتاریوں کی ہاتھوں نیست و نابود ہوگیا،اور اس میں موجود کتابوں کے ذخیرہ کو دریائے فرات میں پھینک دیا گیا،تتاریوں کی اس قوت کو دیکھ کر مسلمانوں کو غالب گمان تھا کہ اب اسلام دنیا سے ختم ہوجائے گا اور قیامت قائٰم ہوجائٰیگی،بغداد کے بعد شام بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیااور تتاریوں نے مصر کا رخ کیا،مصر میں بھی مسلمان اندرونی خلفشار کا شکار تھے، حکمرانی کے ہوس میں آپس کی لڑائٰیاں جاری تھی،تتاریوں کی آمد کی خبر پر حکمرانوں نے سر جوڑ لیے،اور کچھ دیر کے لیے اپنے اختلافات بھلادئے،آپس میں صلاح و مشورہ ہوا،مصر کے مشہور عالم عز بن عبدالسلا م نے نہ صرف حکمرانوں کابلکہ عوام کابھی لہو گرمایا،حکومت نے ان سے درخواست کی کہ بیت المال میں اتنی گنجائٰش نہیں کے معرکہ کی تیاری کی جاسکے اس لیے آٓپ ٹیکس جمع کرنے کے جواز کا فتوی دے،عز بن عبدالسلام ؒنے فتوی سے انکار کردیا ،جب تک حکمران اپنا پیسہ خودخرچ نہیں کرتے۔یہ مثال ہے آج کل کے علماء کے لیے جو سیاست سے دور ہونے کو خوبی سمجھتے ہے ،حقانی علماء نہ سیاست سے دور ہوتے ہے نہ ہی حکمرانوں کے چمچہ گیر ہوتے ہیں ۔بہرحال وسط رمضان میں عین جالوت کے مقام پر فریقین میں گھمسان کی لڑائی ہوئی،تتاریوں کی فوج منتشر ہونے لگی،لیکن ان میں سے بہت تھوڑے ہی جان بچانے میں کامیاب ہوئے، مسلمانوں کو غیر یقینی فتح نصیب ہوئی،اور اس طرح دنیا میں اسلام کا وجود باقی رہا۔سلطان قطز اس فوج کے قائٗد تھے اور یہ فتح ان کا امت پر احسان ہے،لیکن اکثر لوگ ان کا نام بھی نہیں جانتے۔
یہ ہماری تاریخ کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جس میں ہزاروں فائٗدے چھپے ہوئے ہیں ،اور یہ اسلامی تاریخ کی لاکھوں شخصیات میں سے ایک شخصیت ہے جس کی زندگی سے سینکڑوں سبق سیکھے جاسکتے ہے ۔
ضرورت صرف سیکھنے کی طلب کی ہے۔
Osama Basheer
About the Author: Osama Basheer Read More Articles by Osama Basheer: 10 Articles with 7738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.