وہ خوددار بلوچ

کچھ واقعات زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جو ذہن پر گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ایک بلوچ کا رویہ اور خودداری آپ لوگوں کے علم میں لاؤں۔ مجھے ہمیشہ سے سیاحت کا بہت شوق رہا ہے۔ پرلطف سیاحت کا مزا ذاتی سواری میں دوبالا ہو جاتا ہے۔ یہ ۱۹۹۰ کے آس پاس کا واقعہ ہے ان دنوں میرے پاس سوزوکی جیپ تھی آپ کو تو معلوم ہے کہ ٹوٹے پھوٹے کچے پکے رستوں چھڑھائیوں اترائیوں میں بہترین قابل اعتماد ساتھی ہوتی ہے۔ ہم دوستوں نے منصوبہ بنایا کہ چلو اس بار بلوچستان کی سیر کرتے ہیں اسکا بنیادی مقصد تو گھومنے کا تھا دوسرا جیپ کی صلاحیت کو آزمانا بھی تھا۔ میرا اصول ہے کہ میں ٹورزم آفس سے مطلوبہ مقامات کے نقشے حاصل کر لیتا ہوں جس سے بڑی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں جو سفر میں بہت کام آتی ہیں۔

اپنے سفر کا تیسرا دن ہم نے زیارت جانے کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ہم ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر نکل پڑے اس علاقہ میں آپکو چاروں طرف مختلف رنگوں کے اونچے اونچے چٹیل پہاڑ نظر آتے ہیں ان میں سے کچھ کی چوٹیوں پر برف بھی دکھائی دے رہی تھی۔ ویسے تو تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی لیکن گاڑی سے باہر نکلیں تو سرد ہوائیں بدن پر کپکپی طاری کر دیتی تھیں۔ ہمیں چلتے ہوئے کئی گھنٹے ہو چکے تھے سوچا کہ کہیں رک کر چائے پی جائے۔

ایک جگہ ہمیں چھپر ہوٹل نظر آیا ہم نے گاڑی وہاں روک لی ہوٹل والا غریب سا آدمی تھا اسکے کپڑوں میں کئی جگہ پیوند لگے ہوئے تھے پیروں میں بان سے بنی ہوئی چپل پہن رکھی تھی۔ ہم گاڑی سے اتر کر وہاں اسکے ہوٹل میں بیٹھ گئے اور اسے کہا کہ اچھی سی چائے بنا کر پلائے اس نے کہا کہ وہ ہمیں دودھ پتی کی چائے بنا کر پلائے گا وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ گاڑی لاک کر دی تو ہوٹل والا فوراً بولا بھائی جان آپ بے فکر ہو جاؤ ادھر آپ کی گاڑی کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا آپ اس گاڑی کو ایک مہینہ بھی کھلا چھوڑ جاؤ آپ کی گاڑی کا کوئی دروازہ بھی نہیں کھولے گا۔ یہ کاکڑوں کا علاقہ ہے ادھر چوری نہیں ہوتی ہم اسکی بات سن کر حیران ہوئے۔ اتنے میں چائے آ گئی ہم نے کچھ بسکٹ وغیرہ بھی لیے جب اسے پیسے دئیے ان میں دو چار روپے بچ رہے تھے ہم نے اس سے کہا کہ وہ یہ پیسے رکھ لے۔ اس نے وہ پیسے لینے سے انکار کر دیا اور بولا کہ میرے لیے یہ پیسے لینا جائز نہیں ہے اس پر میرا حق نہیں ہے آپ اسکے بدلے کوئی چیز لے لو ورنہ یہ اپنے بقایا پیسے رکھ لو میں یہ پیسے نہیں لونگا۔ ہم نے بہت کہا کہ وہ یہ رکھ لے لیکن اسنے نہیں لیے۔ ہم اسکی غربت میں اسکی قناعت اور خودداری پر حیران رہ گئے اور اسکے معترف بھی ہوئے آج اس بات کو گزرے ۲۰ سال سے زائد سے ہو چلے ۔ وہ بلوچ آج بھی مجھے یاد ہے۔

میں تو اس بلوچستان سے واقف ہوں جس کے باسی غربت میں بھی ایمانداری اور خوداری کو شان سے اپنے سینوں سے لگائے رکھتے ہیں جو انکا خاصہ ہے۔ جب بھی بلوچستان کا زکر آتا ہے وہ خوددار بلوچ میرے لاشعور میں ایک مینار کی طرح کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اے مالک میرے غیور بلوچستان کے باسیوں کو اس پاکستان میں رہتے ہوئے جائز حقوق دلا جس سے انکی محرومیوں کا ازالہ ہو اور وہ اس ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75644 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More