لائسنس والے اسلحہ سے ڈاکو مارو؟

انسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ نے بدھ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ ان کے پاس جو لائیسنس والا اسلحہ ہے وہ شو کیس میں سجانے کے لئے نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ یہ اسلحہ استعمال کرنے کے لئے ہے۔ لائیسنس یافتہ اسلحہ اپنے دفاع کے لئے ہوتا ہے اور اسے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اے ڈی خواجہ نے یہ بھی کہا کہ اگر گزشتہ دنوں کراچی میں فوجیوں پر حملہ کرنے والوں پر عوام اپنے اسلحہ سے حملہ کرتے تو وہ کبھی فرار نہ ہوپاتے۔ عوام کو انعام لینے کی ترغیب دیتے ہوئے اے ڈی خواجہ نے کہا کہ عوام اپنے لائیسنس یافتہ اسلحہ سے ڈاکو ماریں اور حکومت کی طرف سے انعام بھی حاصل کریں۔آئی جی سندھ کی یہ باتیں شاید ہی دنیا کے کسی بنانا ری پبلک میں بھی آسانی سے ہضم کی جا سکیں نہ کہ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک پاکستان میں سرکاری سطح پر ایک انسپکٹر جنرل پولیس یہ مشورہ دے رہا ہو اور عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دے رہا ہو۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ کسی بنانا ری پبلک میں بھی کوئی پولیس افسر یا سرکاری افسر عوام کو اس طرح کا مشورہ دینے کی جرات نہیں کر سکتا ہمارے ملک خدا داد میں یہ کام میڈیا کے ذریعے کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں اونچی کرسیوں پر براجمان لوگ نہ تو قانون وا ٓ ئین کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت ہے۔اگر تھوڑی دیر کے لئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے اس مشورے کو مان لیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ شاید اے ڈی خواجہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کیونکہ وہ خود آسمان سے اتر اونچے محلوں میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے براہ راست پولیس افسر کی کرسی پر بیٹھنے والے شخص ہیں اور اب ترقی کرتے کرتے آئی سندھ کے عہدے تک جا پہنچے ہیں ۔ خواجہ صاحب کو اسٹریٹ کے مسائل اور کرمینل عناصر کی سوچ اور ان کے انداز فکر کا بالکل اندازہ نہیں ہے ورنہ وہ کبھی اس طرح کی بات نہیں کرتے ۔ معصوم خواجہ صاحب کو بالکل نہیں معلوم کہ قتل عام کرنے کے اس اجازت نامے کو کرمینل عناصر اور سیاسی و مذہبی جماعتیں کیسے استعمال کریں گی۔ اے ڈی خواجہ کے اس اجازت نامے کے تحت کسی بھی شہری پر ڈاکو ہونے یا دہشتگردی کا الزام لگا کر اسے مارا جا سکتا ہے۔ کسی کو بھی رہزن و قاتل ثابت کر کے اس سے ذاتی دشمنی نمٹائی جا سکتی ہے اور اگر لائیسنس یافتہ اسلحہ اسی لئے ہوتا ہے کہ اسے سر عام ، بھرے بازاروں میں کھلے عام استعال کیا جا سکتا ہے تو پھر ملک میں کسی بھی عدالت کی کیا ضرورت ہے ۔ ملک کے ہر شہری کو اسلحہ کا لائیسنس دے دیا جائے اور وہ اپنی حفاظت خود کرے۔ پھر بات یہاں پر ہی ختم نہ ہو بلکہ وہ جسے بھی اپنا مخالف سمجھے اس پر سیلف ڈیفنس کے نام پر فائر کھول دے اور اپنا حساب پورا کر لے۔ ایسی صورت میں پھر پولیس کی بھی کیا ضرورت رہتی ہے لہذا آئی جی صاحب اپنا دفتر بندکریں اور گھر جائیں۔ جب عوام کو اپنی حفاظت خو دہی کرنی ہے اور اپنے لائیسنس والے اسلحہ سے خود ہی ڈاکو اور دہشتگرد مارنے ہیں تو پھر آئی صاحب پولیس فورس ختم کرنے کا اعلان کریں، عوام خود ہی اپنا حساب کر لیں گے۔اے ڈی خواجہ صاحب ، ذرا یہ بھی فرما دیجئے کہ دنیا کے کس مہذب ملک میں ایسا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس طرح کی احکامات جاری کر کے ہمارے آئی جی صاحب اپنے ادارے کی ناکامیوں کا بھی اعتراف کر رہے ہیں۔ بین السطور دراصل وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ بھئی ہم سے اب عوام کی حفاظت کا کام نہیں ہوتا لہذا عوام خود ہی کمر بستہ ہو کر میدان میں آ جائیں اور اپنے لائیسنس یافتہ پستول سے ڈاکووں کا مارنا شروع کر دیں اور ڈاکو مارنے کا انعام بھی حکومت سے لیتے جائیں۔ایسے آئی جی سندھ کہ جن کو عہدہ سنبھالنے کے بعد میڈیا کی طرف سے بہت زیادہ داد و تحسین ملی تھی او ر انھیں سندھ پولیس میں ایک ایماندار اور بہترین افسرقرار دیا جا رہا تھا ، انھوں نے اپنی دانست میں انتہائی سمجھداری کا بیان دے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ کتنے کمپیٹنٹ پولیس افسر ہیں۔جو شخص کھلے عام عوام کو اسلحہ استعمال کرنے اور ڈاکو مارنے کی ترغیب دے رہا ہو کیا وہ قانون کا رکھوالا ہو سکتاہے؟سندھ پولیس کو اتنے زیادہ ایماندار افسر کی بھی ضرورت نہیں کہ جو ایماندار میں اتنا آگے بڑھ جائے کہ وہ پولیس کی صلاحتوں کا اصل چہرہ عوام کے سامنے پیش کر دے اور یہ اعتراف کر لے کہ عوام کی حفاظت اور ڈاکوؤں سے لڑنا اب پولیس کے بس کی بات نہیں لہذا عوام آئیں اور اپنا اسلحہ کو لائیسنس لے کر ڈاکوؤں سے خود مقابلہ کریں۔ چونکہ پولیس یہ کام نہیں کر سکتی لہذا پولیس کو اس کام سے فارغ سمجھا جائے۔ ایسا افسر اور ایمانداری کس کام کی کہ پولیس افسر خود ہی اپنا ڈیپارٹمنٹ بند کرانے پر تل جائے۔یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ جو پولیس افسر شہر کو جنگل بنانے پر تلا ہوا ہو اور عوام کو ملک اور صوبے میں بنانا اسٹیٹ سے بھی بد تر صورت حال پیدا کرنے کے لئے اکسائے تو پھر کیا ایسے کسی افسر کو اتنی حساس سیٹ پر بیٹھنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے؟ کیا اعلی حکام اور عدلیہ کے ذمہ داروں کو اس معاملے اور بیان کا سختی سے نوٹس نہیں لینا چاہیے؟
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.