عقلی قوتوں کوآزاد رہنا چاہئے

آج جن معاشروں میں زوال کی کیفیت ہے، اس کی سب سے اہم وجہ ان کے غیر سائنسی تعلیمی نظام ہیں جو انسانوں کی عقلی قوتوں کو بھر پور طریقے سے پرورش دینے اور استعمال کرنے سے قاصر ہیں، سوچنے کی آزادی نہیں، اظہار رائے پہ قدغنیں ہیں، عقل کی بجائے ، ان دیکھے تصورات پہ زیادہ یقین کیا جاتا ہے، جن حقیقتوں کا ادراک ہمارے حواس خمسہ کر سکتے ہیں ان پہ یقین کی بجائے ، دیومالائی دنیا پہ زیادہ یقین کیا جاتا ہے، حقیقی زندگی سے جڑنے کی بجائے غیبی ہوائی قلعے تعمیر کئے جاتے ہیں، سوچ و فکر کی حدیں متعین کر دی گئیں ہیں،سینکڑوں سال پہلے کے لکھی ہوئے فلسفوں کے دماغ قیدی بنا دئیے گئے ہیں، ماضی کی خوش فہمیوں کے نشے میں نوجوان نسلوں کو ڈبویا جا رہا ہے ،وقت اورتاریخ کے سمندر میں غرق پرانے تمدنوں کے تباہ شدہ جہازوں کے ملبے سے چمٹنے کی تلقین کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں، نوجوانوں کے ذہنوں کو عقلی استدلال اور عقلی تجربوں سے محروم رکھ کر ذہنی جبر کا شکار کیا جا رہا ہے۔ ذہنی نشوونما کے فطری عمل میں جمود نے زوال کے تمام راستوں کو ہموار کر دیا ہے، افراد معاشرہ کو عقل و شعور سے عاری فرسودہ تعلیمی، سیاسی ، معاشی نظاموں کے ذریعے’’ شاہ دولہ کے چوہے‘‘بنا دیا گیا ہے، کنوئیں کے مینڈک بن کر، کنوئیں کو ساری کائنات مان کر ایسے ایسے فلسفے گھڑے جا رہے ہیں جن کا حقیقی انسانی دنیا کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں۔درس وتدریس میں سمجھنے اور سمجھانے کی بجائے ذہنی جبر کا کلچر عام ہے،علمی سرمایہ داری اورپروہت ازم نے نوجوانوں سے جرات سوال کا حق بھی چھین لیا ہے۔عام طور پہ تو حالت یہ ہے بھینس کو عقل کے مقابلے میں بڑا قرار دیا جاتا ہے۔سائنس کی افادیت اور اہمیت پہ لیکچر تو دئیے جاتے ہیں لیکن تعلیمی نظام میں سائنسی طریقہ تعلیم کا سخت فقدان ہے۔یہی وجہ ہے کہ علمی، فکری و شعوری زوال کا کوڑا آج ہمارے معاشروں پہ برس رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے قدرت کا قانون اٹل ہوتا ہے اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی، جو بھی فطری قوانین کے مطابق زندگی کو ڈھالے گا وہی فطری ترقی کو پائے گا، جو بھی ان فطری اصولوں اور قوانین سے رو گردانی کرے گا وہ زوال سے ہمکنار ہو جائے گا۔
خالق کائنات نے انسان کو عقلی قوتوں کا بے بہا خزانہ عطا کیا جس کی بدولت ساری کائنات کو اس کے آگے گویامسخر کر دیا گیا، انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان نے اپنی عقلی صلاحیتوں کی بدولت تہذیبوں اور تمدنوں کو عصر حاضر تک پہنچایا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، ہر آنے والا دن گذشتہ سے مختلف اسی لئے ہو رہا ہے کہ انسانی ذہن شب وروز زندگی کی نئی راہیں تلاش کرنے میں سر گرداں ہے۔انسان کے اند چونکہ فطری طور پہ یہ وصف موجود ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے لہذا عقلی حرکت اور جستجو اس کی فطرت ہے، اگر اس کی اس عقلی و فکری حرکت پہ کسی قسم کی قدغن لگائی جائے تو وہ جمود کا شکار ہو جائے گا، اور یہ جمود اس کی سماجی موت کا دوسرا نام ہے۔

انسان آزاد پیدا ہوا اور فطرت نے اسے ایسی عقل و دانائی کی صلاحیتوں سے بہرہ مند کیا کہ وہ اپنی اس آزادی کو بروئے کار لا کر اپنی بقاء کا سامنا پیدا کرے،انسان کی حقیقی آزادی در اصل اس کے فکر اور عقل کی آزادی ہے، اس میں درپیش کسی بھی طرح کی رکاوٹ پیدا کی جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ انسان کی اس آزادی کو سلب کر دیا گیا، جو فطرت نے اسے عطا کی ہے۔

آج انسان نے جن معاشروں میں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدانوں میں جو حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کیں وہ دراصل ان کی فکری اور عقلی آزادی ہی کے مرہون منت ہے۔جن اقوام میں فکری اور عقلی آزادی کو تحقیق و تخلیق کے کلچر سے سینچا گیا، جہاں ڈائیلاگ کا ماحول پیدا کیا گیا، علم کو اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی نظاموں کی تخلیق کا ذریعہ بنایا گیا، علم دوستی کو معاشرے کی روح و رواں بنایا گیا،ان معاشروں میں ایجادات ہو رہی ہیں، نئے نئے علوم و فلسفے وجود میں آ رہے ہیں، دنیا جب سوتی ہے تو ان معاشروں کی لیبارٹریاں جاگ رہی ہوتی ہیں، ان اقوام کی اسی عقلی و فکری آزادی اور علم دوستی نے آج انہیں اتنا طاقتور بنا دیا کہ دنیا کی معاشی وتجارتی منڈیاں ان کی دسترس میں آ گئیں، دنیا ان کی ٹیکنالوجی کی محتاج ہے،معاشی طاقت سے انہوں نے سیاسی اثر رسوخ پیدا کیا اور دنیا کے اکثر ممالک کو جہاں عقلی قوتوں کو غلامی سے دوچار رکھا گیا انہیں اپنا دست نگر بنا دیا ہے۔گویا عقلی قوتوں کی آبیاری ہی انسانی معاشروں کے ارتقاء کے ذریعہ ہے۔اس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان مسابقت کے عمل میں وہی اقوام سر خرو ہو سکتی ہیں جو علم و عقل کے فروغ کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں یقینی بنائیں گی ۔
علم و عقل کا بنیادی جوہر کسی کی میراث نہیں، یہ تو ایسی فطری نعمت ہے جو سارے انسانوں کو بیک وقت عطا کی گئی، اس میں کسی کو محروم نہیں رکھا گیا، کسی کے ساتھ عدم مساوات نہیں برتی گئی، کسی کو زیادہ اور کسی کو کم کا مالک نہیں بنایا گیا، اس کی عطا میں کسی طبقاتی سلسلے کا وجود نہیں ہے۔ سب کو خالق کائنات نے پیدائش ہی سے دماغ کی صورت میں ایک سپریم کمپؤ ٹر کا مالک بنا دیا، اب اس نے اس کو کیسے استعمال میں لانا ہے، اس پہ چھوڑ دیا، اب ترقی و کمال کا سلسلہ ان ہی انسانی گروہوں میں ہونا تھا جو اس قدرت کے سپریم کمپیوٹر کو استعمال میں لاتے ، قدرت کے اس انمول عطیے کو جن اقوام نے استعمال کرنا سیکھا انہوں نے یقینی کامیابیاں حاصل کیں اور جنہوں نے اس کی قدر نہیں کی فقط دیو مالائی تصورات کو اوڑھنا بچھونا بنا کر عقلی قوتوں کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی آج وہ پسماندگی کی دلدل میں دھنسی نظر آ رہی ہیں۔
انسانی عقلی قوتیں ایسے ماحول میں پرورش پاتی ہیں جہاں ان کے لئے ساز گار ماحول ہو، جیسے پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح انسانی عقلی قوتوں کی آبیاری کے لئے بھی خاص ماحول درکار ہوتا ہے، اگر ہم اسے تھوڑا مزید واضح کریں تو ایسا تعلیمی نظام چاہئے جو افراد معاشرہ کو سوچنے، فکر کرنے اور تخلیق کا مادہ پیدا کرنے کے لئے مناسب مشقیں، بہتر سے بہتر سلیبس اور عملی تربیتی نظام مہیا کرے۔ہر ایسے حربے سے اس تعلیمی نظام کو پاک رکھے جس کی بدولت عقلی قوتوں کی ترقی کا سلسلہ رک جائے۔سائنس در اصل انسان کی انہی عقلی قوتوں کا کرشمہ ہے، انسان کے اسی سپر کمپؤٹر نے ان دیکھی دنیاؤں کو بے نقاب کر دیا، دماغ کی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائے بغیر کائنات کی گتھیوں کو سلجھانا مشکل ہے، قرآن حکیم نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے، اس نے عقلی قوتوں کو دعوت فکر وتدبر دی ہے، کہ اس کائنات کے ذرے ذرے پہ غور کریں، اس سے انسانیت کے لئے فائدے تلاش کریں، اور ان ساری نعمتوں تک رسائی حاصل کریں جو خالق نے اس کائنات میں رکھ دی ہیں۔

آج جن معاشروں میں زوال کی کیفیت ہے، اس کی سب سے اہم وجہ ان کے غیر سائنسی تعلیمی نظام ہیں جو انسانوں کی عقلی قوتوں کو بھر پور طریقے سے پرورش دینے اور استعمال کرنے سے قاصر ہیں، سوچنے کی آزادی نہیں، اظہار رائے پہ قدغنیں ہیں، عقل کی بجائے ، ان دیکھے تصورات پہ زیادہ یقین کیا جاتا ہے، جن حقیقتوں کا ادراک ہمارے حواس خمسہ کر سکتے ہیں ان پہ یقین کی بجائے ، دیومالائی دنیا پہ زیادہ یقین کیا جاتا ہے، حقیقی زندگی سے جڑنے کی بجائے غیبی ہوائی قلعے تعمیر کئے جاتے ہیں، سوچ و فکر کی حدیں متعین کر دی گئیں ہیں،سینکڑوں سال پہلے کے لکھی ہوئے فلسفوں کے دماغ قیدی بنا دئیے گئے ہیں، ماضی کی خوش فہمیوں کے نشے میں نوجوان نسلوں کو ڈبویا جا رہا ہے ،وقت اورتاریخ کے سمندر میں غرق پرانے تمدنوں کے تباہ شدہ جہازوں کے ملبے سے چمٹنے کی تلقین کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں، نوجوانوں کے ذہنوں کو عقلی استدلال اور عقلی تجربوں سے محروم رکھ کر ذہنی جبر کا شکار کیا جا رہا ہے۔ ذہنی نشوونما کے فطری عمل میں جمود نے زوال کے تمام راستوں کو ہموار کر دیا ہے، افراد معاشرہ کو عقل و شعور سے عاری فرسودہ تعلیمی، سیاسی ، معاشی نظاموں کے ذریعے’’ شاہ دولہ کے چوہے‘‘بنا دیا گیا ہے، کنوئیں کے مینڈک بن کر، کنوئیں کو ساری کائنات مان کر ایسے ایسے فلسفے گھڑے جا رہے ہیں جن کا حقیقی انسانی دنیا کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں۔درس وتدریس میں سمجھنے اور سمجھانے کی بجائے ذہنی جبر کا کلچر عام ہے،علمی سرمایہ داری اورپروہت ازم نے نوجوانوں سے جرات سوال کا حق بھی چھین لیا ہے۔عام طور پہ تو حالت یہ ہے بھینس کو عقل کے مقابلے میں بڑا قرار دیا جاتا ہے۔سائنس کی افادیت اور اہمیت پہ لیکچر تو دئیے جاتے ہیں لیکن تعلیمی نظام میں سائنسی طریقہ تعلیم کا سخت فقدان ہے۔یہی وجہ ہے کہ علمی، فکری و شعوری زوال کا کوڑا آج ہمارے معاشروں پہ برس رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہئے قدرت کا قانون اٹل ہوتا ہے اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی، جو بھی فطری قوانین کے مطابق زندگی کو ڈھالے گا وہی فطری ترقی کو پائے گا، جو بھی ان فطری اصولوں اور قوانین سے رو گردانی کرے گا وہ زوال سے ہمکنار ہو جائے گا۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 135975 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More