ام القری کی اہمیت

اللہ تعالیٰ اور نبی پاک ﷺ کو مکہ مکرمہ تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ مکہ کو قرآن پاک میں "اُمّ اُلقریٰ" کہا گیا ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر ۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:[ترجمہ] "یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تاکہ تم بستیوں کے مرکز [شہر مکہ] اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کردو۔"

یہ مسلمانوں کا قبلہ اور حج کا مرکز ہے۔ اوّل روز ہی سے اللہ تعالیٰ نے اس کی شان و شوکت اور تعظیم کے پیش نظر اس کو حرم قرار دیا تھا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر کعبہ اس کے جاہ و جلال اور فضل و کرم کا مرکز ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا جانے والا سب سے پہلا گھر ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
[ترجمہ] "بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لئے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔اس کو خیر و برکت دی گئی اور تمام جہانوں کے لئے مرکز ہدایت بنایا گیا۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقام عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا وہ مامون ہو گیا۔"[سورہ آل عمران۔۹۶۔۹۷]

یہاں کی ہر چیز کو امن و امان حاصل ہے، جانوروں، پرندوں اور نباتات کو بھی۔ یہاں کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ مثلاًٍ یہاں کی نماز ایک لاکھ نماز کا درجہ رکھتی ہے۔ اس شہر کی فضیلت کےلئے یہی کافی ہے کہ مسجد حرام کی نماز کا ثواب ہر جگہ سےبڑھ کر ہے۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
"میری اس مسجد[مسجد نبویﷺ] میں ایک نماز دیگر مسجدوں میں ایک ہزار نماز سے بہتر ہے۔ البتہ مسجد حرام کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں سے بھی بڑھ کر ہے۔"

مسجد حرام کی نماز کے ثواب کی اس قدر کثرت تقاضہ کرتی ہے کہ حرم کی ہر نیکی کا ثواب ایک لاکھ نیکی کے برابر ہوگا۔ اہل ایمان کے لئے احتیاط ضروری ہے کہ وہ اس جگہ ہر گناہ سے پرہیز کریں کیونکہ یہاں جس طرح نیکیوں کا ثواب بڑھتا ہے اسی طرح گناہ کا عذاب بھی بڑھتا ہے۔

خانہ کعبہ:
یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں نماز کے وقت کعبہ ہی کی طرف رخ کرتے ہیں۔ حضورﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ مگر حضور پاک ﷺ کی یہ شدید خواہش تھی کہ مسلمان حضرت ابراہیمؑ کے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔ہجرت مدینہ کے بعدٍ۲ہجری میں آخر کار تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا۔اس کا ذکر قرآن شریف میں سورہ البقر کی آیت ۱۴۴ میں ملتا ہے۔
[ترجمہ] "یہ تمہارے منہ کا باربار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اسی قبلہ کی طرف تمہیں پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام [خانہ کعبہ] کی طرف رخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔"

اس حکم کے فوری بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرآن پاک میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی تاکید بھی فرمائی۔ اس وقت سے قیامت تک دنیا کے تمام مسلمان کعبہ ہی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہیں گے، انشاءاللہ۔اس کا ذکر قرآن پاک میں تفصیل سے ملتا ہے:
[ترجمہ] "تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو، وہیں سے اپنا رخ [نماز کے وقت] مسجد الحرام کی طرف پھیر دو، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل برحق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رخ مسجد الحرام ہی کی طرف پھرا کرو اور جہاں بھی تم ہو اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے۔"[سورہ البقرہ ۱۴۹۔۱۵۰]

خانہ کعبہ کی تاریخ:
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،
[ترجمہ]"اللہ تعالیٰ نے حرمت والے گھر،کعبہ کو لوگوں کے لئے [اجتماعی زندگی کے] قیام کا ذریعہ بنایا۔"[سورہ المائدہ۔ ۹۷]

تعمیر کعبہ کے بارے میں کئی روایات ہیں۔ سب سے پہلے اسے فرشتوں نے تعمیر کیا، دوسری مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام نے، تیسری مرتبہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ از سر نو اس کو تعمیر کیا۔ ہزاروں سال کے حوادث نے زمانہ قدیم میں کعبہ کو بے نشان کر دیا تھا اور اس کے ابتدائی آثار مٹ چکے تھے۔ مگر فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو اس جگہ کی نشاندہی کر دی تھی، جہاں کعبہ تعمیر ہوا تھا۔ وہ بلند ٹیلے کی شکل میں موجود تھا۔انھوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے ساتھ اس جگہ کو کھودنا شروع کیا تو پچھلی تعمیر کی بنیادیں نظر آئیں، انھی بنیادوں پر پھر دونوں نے مل کر خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتےتھے اور حضرت ابراہیمؑ عمارت بناتے تھے۔یہاں تک کہ جب عمارت کافی اونچی ہو گئی توحضرت اسماعیلؑ ایک پتھر [مقام ابراہیم] لائے اور والد محترم کے پاس رکھ دیا تاکہ وہ اس پر چڑھ کر عمارت بنا سکیں۔حضرت اسماعیلؑ انھیں پتھر پکڑاتے تھے اور وہ دونوں تعمیر کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کے گرد گھومتے ہوئے یہ دعا پڑھتے جاتے تھے جس کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے:
[ترجمہ] اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے،تودعاکرتے تھے۔" اے ہمارے رب ،ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے تو سب کی سننےوالا، سب کچھ جاننے والاہے۔"[سورہ البقرہ۔۱۲۷]
قرآن پاک نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ حضرت ابراہیم سے کیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[ترجمہ] یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیمؑ کے لئے اس گھر[خانہ کعبہ] کی جگہ تجویز کی تھی[اس ہدایت کے ساتھ]کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے پاک رکھو اور لوگوں کو حج کے لئے اذن عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور دبلے پتلے اونٹوں پر سوارآئیں۔"[سورہ الحج۔ ۲۶۔۲۷]

ایک اور جگہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
[ترجمہ] اور یہ کہ ہم نے اس گھر [خانہ کعبہ] کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو اور ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو تاکید تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور رکوع اور سجدہ کرنے والے کےلئے پاک رکھو۔"[سورہ البقر۔۱۲۵]

۸ہجری میں رسول اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بغیر کشت و خون کئے مکہ مکرمہ فتح کرلیا اور کفر و شرک کے تمام انبار جو کعبہ کے گرد جمع تھے اب صاف کر دئے گئے۔ رسول اکرم ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار خانہ کعبہ تشریف لائے اور خانہ کعبہ کے سات چکر لگائے۔جب آپ حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو اسے چھو لیتے۔اس وقت کعبہ کے ارد گرد ۳۶۰ بت تھے جنھیں سیسے کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ انھیں اپنی چھڑی سے گراتے جاتے اور پڑھتے جاتے:
[ترجمہ]"حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔"[بنی اسرائیل۔۸۱]

آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو حقیقی معنیٰ میں سزا کے مستحق تھے، کھلے دل سے معاف کر دیا۔ پوری دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے عفو و در گزر کا اس قدر روشن باب اسلام کی تاریخ کے سوا کہیں نہیں ملتا اور یہ کس نے کیا ۔یہ مثال آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قائم کی۔ اس سے اسلام میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

۹ ہجری میں حج کے موقع پر مکہ مکرمہ پر رسول اکرمﷺ کا عملی اختیار پہلی دفعہ ہوا۔ حضرت علیؑ نے سورہ توبہ کی آیات پڑھ کر اعلان کیا" اس سال کے بعد مشرکین کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں کیونکہ وہ ناپاک[نجس] ہیں۔"[سورہ توبہ۔۲۸]

۱۰ ہجری میں حضور اکرم ﷺ نے خود حج کی قیادت فرمائی۔ یہی حجتہ الوداع تھا۔ اس موقع پر ایک بھی مشرک موجود نہ تھا۔ کعبہ بلا شرکت غیرے مسلمانوں کا مقدس حرم بن گیا۔