قرآن کریم کے تدریجی نزول کی حکمتیں
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
شیخ محمد علی صابونی کی کتاب’’التبیان فی
علوم القرآن‘‘ کی ایک فصل کا آسان اوردل چسپ اردو ترجمہ وتسہیل…… ٭
قرآن کریم کا نزول
اﷲ تعالیٰ نے اس امت محمدیہ پر اپنی معجز ( آسمانی کتابوں میں سے سب سے
آخری) کتاب نازل کرکے اسے عزت بخشی، تاکہ یہ اس کے لیے دستور حیات اس کے
مسائل کا حل اس کی بیماریوں اور امراض کے لیے شفا بخش مرہم اور اس امت کو
مقدس ترین پیغامات خداوندی کے تحمل کے لیے چننے اور منتخب کرنے پر عظمت
اورافتخار کی علامت ہو، جہاں اﷲ نے سب سے افضل کتاب نازل کرکے ان کو عزت
بخشی اور مخلوقات میں سے سب سے معزز ہستی (محمد (ابن عبداﷲ) صلی اﷲ علیہ
وسلم) کے ساتھ انہیں وابستہ کرکے ممتاز مقام عطا کیا۔
قرآن کے نزول کے ساتھ ہی پیغامات سماویہ کی لڑی مکمل ہوئی، اوراس نور نے
پوری کائنات پرضو افشانی کی، عالم پر اس کی روشنی چمک اٹھی اور اﷲ کی ہدایت
مخلوق تک جاپہنچی اور یہ نزول امین السماء جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے
ہوا، جو اسے لے کر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر اترتے تاکہ آپ علیہ
السلام کو پیغام خدا وندی پہنچا دیں اور اسی کے متعلق اﷲ جل جلالہ کا فرمان
ہے:( اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں
تاکہ آپ (بھی) منجملہ ڈرانے والوں کے ہوں)
نزولِ قرآن کی کیفیت
قرآن کریم کے دو نزول ہیں :
لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف( یکبارگی) شب قدر میں نازل ہونا۔
آسمان دنیا سے زمین کی طرف تیئس سال کے عرصہ میں ( کچھ کچھ) بتدریج نازل
ہونا۔
پہلا نزول
پہلی مرتبہ اس کا نزول زمانہ کی تمام راتوں میں سب سے مبارک رات میں ہوا،
(جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے) اس رات میں پورا قرآن آسمان دنیا میں (بیت
العزۃ) کی طرف نازل کیا گیا جس پر مندرجہ ذیل متعدد نصوص قرآنیہ دلالت کرتے
ہیں:
اﷲ کا ارشاد ﴿حم والکتاب المبین، إنا أنزلناہ في لیلۃ مبارکۃ……﴾ (سورۃ
دخان)․ اور قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے اس کو ( لوح محفوظ سے آسمان
دنیا پر) ایک برکت والی رات (یعنی شب قدر) میں اتارا ہے ہم آگاہ کرنے والے
تھے۔
اﷲ جل شانہ کا فرمان ہے: ( بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے( شوق
بڑھانے کے لیے فرمایا) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے؟)۔
اﷲ تعالی کا قول ہے: ﴿شھر رمضان الذی أنزل……﴾ ( ماہ رمضان ہے جس میں قرآن
مجید بھیجا گیا ہے جس کا ( ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ( ذریعہ) ہدایت
ہے اور (دوسرا وصف) واضح الدلالت ہے منجملہ ان کتب کے جو کہ ( ذریعہ) ہدایت
( بھی) ہیں ، اور ( حق وباطل میں) فیصلہ کرنے والی ( بھی) ہیں)
یہ تینوں آیات دلالت کرتی ہیں کہ قرآن ایک ہی رات میں نازل ہوا جسے مبارک
سے متصف کیا جاتا ہے اور جسے شب قدر کہا جاتا ہے اور یہ ماہِ رمضان کی
راتوں میں سے ایک رات ہے اور اس نزول کا نزول اول ہونا متعین ہو جاتا ہے جو
آسمان دنیا میں موجود بیت العزۃ کی طرف ہوا، کیوں کہ اگر اس سے نزول ثانی
جو کہ آپ علیہ السلام پر ہو ا مراد ہو تو یہ نزول ایک ہی رات اور ایک ہی
ماہ میں جو کہ ماہ رمضان ہے ہونا ٹھیک نہیں ہو گا کیوں کہ (آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم پر)قرآن ایک طویل عرصہ میں نازل ہوا اور وہ بعثت نبوی صلی اﷲ علیہ
وسلم کی تئیس سالہ مدت ہے نیز رمضان کے علاوہ بھی بلکہ تمام مہینوں میں
نازل ہوا، تو ثابت ہو گیا کہ اس سے مراد( نزول) اولی ہے اور احادیث صحیحہ
(بھی) اس کی تائید کرتی ہیں مثلاً:
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے انہوں نے فرمایا: ’’ قرآن کو ذکر (
لوح محفوظ) سے علیحدہ کرکے آسمانِ دنیا میں موجود بیت العزۃ میں رکھا گیا ۔
چناں چہ جبرئیل امین اسے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل کرتے
رہے‘‘۔(رواہ الحاکم)
اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما ہی سے روایت ہے، کہ انہوں نے فرمایا : ’’
قرآن کو یکبار گی آسمان دنیا کی طرف نازل کیا گیا، اور وہ نزولِ آیات کے
وقوع کے زمانوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اﷲ اسے اپنے رسول پرتھوڑا تھوڑا
کرکے نازل کرتے رہے‘‘۔(رواہ الحاکم والبیھقی)
اورحضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ( قرآن کو
ماہِ رمضان میں شب قدر میں یکبارگی آسمانِ دنیا کی طرف نازل کیا گیا، پھر
بتدریج اس کا نزول ہوا‘‘۔(رواہ الطبرانی)
(یہاں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے قول نجوماً کا معنی ہے: یعنی متفرق حصوں
میں)
ان تینوں روایتوں کو علامہ سیوطی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ’’ الإتقان فی علوم
القرآن‘‘ میں ذکر کیا ہے او رکہا ہے کہ یہ تمام صحیح روایات ہیں ، اسی طرح
علامہ سیوطی رحمہ اﷲنے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ روایت بھی نقل کی
ہے کہ عطیہ بن اسود نے اُن سے سؤال کیا او رکہا کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ﴿شھر
رمضان الذي أنزل فیہ القرآن﴾ اور اس کے فرمان ﴿إنا أنرلنٰہ في لیلۃ القدر﴾
نے میرے دل میں شک ڈال دیا ہے اس لیے کہ قرآن تو شوال، ذی القعدہ، ذی
الحجہ، محرم، صفر، ربیع الاول کے مہینوں میں ( بھی) نازل کیا گیا ہے توحضرت
ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: اسے رمضان المبارک میں شبِ قدر میں
یکبارگی نازل کیا گیا، پھر اسے قسطوں میں (مختلف مواقع میں) آرام آرام سے
دنوں اور مہینوں میں نازل کیا گیا۔
مواقع النجوم اور رسلاً سے مراد یہ ہے کہ: اسے متفرق طور پر تھوڑا تھوڑا
کرکے اتارا گیا، بعض حصہ بعض کے بعد آیا آہستگی اورآرام کے ساتھ۔ اور علامہ
سیوطی رحمہ اﷲ نے ذکر کیا ہے کہ : علامہ قرطبی رحمہ اﷲ نے قرآن کے لوح
محفوظ سے بیت العزۃ کی طرف ( جو آسمان دنیا میں ہے ) مکمل نازل ہونے پر
علما کا اجماع نقل کیا ہے، قرآن کریم کے اس نزول کی حکمت شاید قرآن اور جس
ہستی پر قرآن نازل ہوا ہے اس کی عظمت شان کو واضح کرنا مقصود ہے کہ ساتوں
آسمانوں کے باسیوں کو یہ بتائے ’’ کہ یہ آخری کتاب ہے جو آخری نبی پر
بہترین امت کے لیے ہم نے اسے ان کے قریب کر لیا ہے تاکہ ہم اس کتاب کو ان
پر نازل کریں‘‘
علامہ سیوطی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: اگر حکمتِ الہٰیہ اس کتاب کے لوگوں تک
تھوڑا تھوڑا کرکے احوالِ حوادث کے مطابق پہنچنے کا تقاضہ نہ کرتی تو اسے
پہلے نازل کی گئی کتابوں کی طرح ایک ہی مرتبہ اتار دیا جاتا، لیکن اﷲ نے اس
کے اور پہلی کتب سماویہ کے ( درمیان فرق کر دیا اور اس کے نزول کو دو حصوں
میں تقسیم کر دیا ۔ Œ کامل نزول پھر منزل علیہ ( محمد صلی اﷲ علیہ وسلم)
کے اعزازواکرام کی بناء پر متفرق طور پر نزول۔(الإتقان42)
دوسرا نزول
اور دوسری مرتبہ اس کا نزول آسمان دنیا سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے
قلب مبارک پر تئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ہوا اور یہ مدت بعثت
نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے لے کر آپ علیہ السلام کی وفات تک ہے اور اس نزول
اور اس کے متفرق طور پر نازل ہونے پر دلیل سورۂ اسراء میں اﷲ تعالیٰ کا
ارشاد ہے:
( اور قرآن میں ہم نے جابجا فصل رکھا، تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر
ٹھہر کرپڑھیں اور ہم نے اس کو تدریجاً اتارا‘‘
اور اﷲ تعالی کا فرمان سورہ فرقان میں ہے : ’’ اور کافر لوگ یوں کہتے ہیں
کہ ان ( پیغمبر) پر یہ قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا، (جواب یہ ہے
کہ) اس طرح (تدریجاً) اس لیے ( ہم نے نازل کیا) ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے
آپ کے دل کو قوی رکھیں اور ( اسی لیے) ہم نے اس کو بہت ٹھہر ٹھہر کر اُتارا
ہے‘‘۔
روایت میں آتا ہے کہ یہود اور مشرکین نے قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی
وجہ سے آپ علیہ ا لسلام کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ ایک ہی مرتبہ پورا
نازل کیا جائے، (یہاں تک کہ) یہود نے آپ علیہ السلام سے کہا: اے ابوالقاسم
! اس قرآن کو ایک ہی مرتبہ کیوں نازل نہیں کیا گیا جیسا کہ موسی ( علیہ
السلام) پر تورات کو نازل کیا گیا؟ تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے جواب اور رد میں
یہ دو آیتیں نازل کیں۔ اور یہ رد ( امام رزقانی رحمہ اﷲ کے قول کے مطابق)
دو امور پر دلالت کرتا ہے!
قرآن پاک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر تھوڑا تھوڑا کرکے ناز ل کیا گیا۔
اس سے پہلے کتب سماویہ پوری کی پوری یکبارگی نازل کی گئیں جیسا کہ یہ جمہور
علما کے درمیان اجماع کی حدتک مشہورومعروف ہے۔
ان دو امور پر دلالت کا مطلب یہ ہے کہ : اﷲ تعالیٰ نے کتب سماویہ کے ایک ہی
مرتبہ پورے نازل ہونے کے اس دعوے میں ان کی تکذیب نہیں کی، بلکہ انہیں قرآن
کے متفرق طور پر نازل ہونے کی حکمت کے بیان کے ساتھ جواب دیا اور اگر
آسمانی صیحفوں کا نزول متفرق طور پر ہوتا جیسا کہ قرآن کا ہوا تو اﷲ تعالی
جواب میں ان کی تکذیب فرماتے اور اعلان کرتے کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کرنا
اﷲ کی پہلے انبیاء پر نازل کیے گئے صحیفوں میں ( بھی عادت رہی ہے) جیسے کہ
اﷲ تعالیٰ نے ان پر رد کیا جب انہوں نے آپ علیہ السلام پر طنز اور اعتراض
کیا اور کہا ( ’’ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ ( ہماری طرح) کھانا کھاتا ہے
اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے‘‘؟) تو اﷲ نے انہیں جواب میں فرمایا: ( ’’
اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور
بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔‘‘(مناھل العرفان:46)
قرآن کریم کے قسط وار نازل کرنے کی حکمت
قرآن کریم کے قسط وار نازل ہونے کی بڑی بڑی حکمتیں اور متعدد سر بستہ راز
ہیں، جنہیں اہل علم جانتے ہیں اور اہل جہل ان سے نابلد ہیں اور ہم ان کا
خلاصہ اور نچوڑ درج ذیل الفاظ میں کرسکتے ہیں، اور وہ حکمتیں یہ ہیں:
مشرکین کی تکالیف کے سامنے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا
اور اطمینان دلانا۔
وحی کے نزول کے وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مہربانی اورنرمی
برتنا۔
أحکام سماویہ کی قانون سازی میں بتدریج آگے بڑھنا۔
قرآن کریم کے یاد کرنے اور سمجھنے کو مسلمانوں پر آسان کرنا۔
حادثات وواقعات کے ساتھ چلنا اور ان کے اوقات ہی میں ان پر متنبہ اور آگاہ
کرنا۔
قرآن کریم کے سر چشمہ اور اس کے حکیم اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل
ہونے کو بتانا۔
اور آئیے! ہم ان چند حکمتوں کی جن کاہم نے ابھی خلاصہ ذکر کیا ہے تفصیل
بیان کرتے ہیں۔
پس ہم کہتے ہیں اور اﷲ ہی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں:
پہلی حکمت( آپ علیہ السلام کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا) ، آیت کریمہ میں
مشرکین کے رد کے ذیل میں اس حکمت کو بیان کیا گیا ہے جب انہوں نے قرآن کے
ایک ہی دفعہ پورا نازل ہونے کا مطالبہ کیا جیسا کہ گزشتہ آسمانی کتابیں
نازل کی گئیں تھیں تو اﷲ نے ان کا جواب دیا اور فرمایا: (کذلک نثبت بہ
فؤادک ورتلناہ ترتیلاً) اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل کو مضبوط کرنا
اﷲ کی طرف سے خصوصی حمایت وتوجہ اور آپ کے دشمنوں کے آپ کو جُھٹلانے اور آپ
علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کو سخت تکلیف دینے والوں کے سامنے ،
اپنے پیغمبر کی تائید تھی۔
جب بھی مصیبتیں اور تکالیف پیش آتیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تسلی، دعوت
کے راستے میں آگے بڑھنے میں آپ کی ہمت کو ابھارنے اور آپ کے قلب مبارک کو
مضبوط کرنے کے لیے آیات کریمہ نازل کی جاتیں۔
لہٰذا اﷲ تعالی نے اُس چیز کے ذریعے آپ کی نگرانی اور حفاظت فرمائی، جو آپ
کے مصائب اور دکھوں کوہلکا کرے، چنانچہ جب بھی تکلیف آپ پر سخت ہو جاتی تو
آیات آپ علیہ السلام کی تسلی اور جو (غم) آپ کو لاحق ہوتا اس کو ہلکا کرنے
کے لیے آیتیں نازل ہو جاتیں۔
اور یہ تسلی کبھی رسولوں اور نبیوں کے واقعات کو ذکر کرکے دی جاتی تاکہ آپ
ان کے صبر اور مجاہدے میں ان کی پیروی کریں،جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اور بہت سے پیغمبر جو آپ سے پہلے ہوئے ہیں ، ان کی بھی تکذیب کی جاچکی
ہے سو انہوں نے صبر کیا ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں
یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی‘‘ اور اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’تو آپ
صبر کیجئے جیسے ہمت والے پیغمبروں نے کیا‘‘ اور اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’
اور آپ اپنے رب کی تجویز پر صبر سے بیٹھے رہیئے کہ آپ ہمار ی حفاظت میں
ہیں‘‘
اور باری تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کے واقعات کو بیان کرنے کی حکمت
بیان فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد پاک ہے اور وہ کہنے والوں میں سب سے سچے
ہیں:’’ اور پیغمبروں کے قصوں میں سے ہم یہ سارے قصے آپ سے بیان کرتے ہیں جن
کے ذریعے سے ہم آپ کے دل کو تقویت دیتے ہیں اور ان قصوں میں آپ کے پاس ایسا
مضمون پہنچا ہے جو خود بھی راست ہے اور مسلمانوں کے لیے نصیحت ہے اور
یاددہانی ہے‘‘ اور تسلی کبھی مدد کے وعدہ اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
تائید سے دی گئی، جیسا کہ اﷲ کا ارشاد ہے ( اور اﷲ آپ کو ایسا غلبہ دے گا
جس میں عزت ہی عزت ہو) اور اسی طرح فرمایا: ( اور ہمارے خاص بندوں
وپیغمبروں کے لیے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہو چکا ہے کہ بے شک وہی
غالب کئے جاویں گے اور ( ہمارا تو قاعدہ ہے کہ ) ہمارا ہی لشکر غالب رہتا
ہے‘‘) اور کبھی تسلی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کی شکست اور
ہارنے کی خبر دے کر ہوتی ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے: ( عنقریب (
ان کی) یہ جماعت شکست کھاوے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے‘‘) اور ان
کافرمان ہے: (’’ آپ ان کفر کرنے والوں سے فرما دیجئے کہ عنقریب تم (
مسلمانوں کے ہاتھ سے) مغلوب کئے جاؤ گے اور ( آخرت میں)جہنم کی طرف جمع
کرکے لیجائے جاؤ گے اور وہ ( جہنم) ہے برا ٹھکانہ‘‘ اس کے علاوہ بھی رسول
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو تسلی دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کے
طریقوں کے مختلف انداز ہیں۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نزول وحی کے متجدد ہونے اور جبرئیل امین علیہ
السلام کا ان واضح آیات کو جن میں آپ علیہ السلام کے لیے تسلی، مدد، حمایت
اور تائید کا ذکر ہے لے کر بار بار اترنے میں آپ علیہ السلام کی مضبوطی قلب
کے لیے دعوت کے تسلسل اور پیغام الہٰی کی تبلیغ کو جاری رکھنے کے واسطے بہت
بڑا اثر تھا، کیوں کہ اﷲ تعالی ان کے ساتھ ہے اور کیا وہ شخص ناکامی اور
اضمحلال محسوس کرسکتا ہے جس کا اﷲ کے لطف وکرم نے احاطہ کیا ہو اور اس کی
ذات ان کی نگہداشت کرتی ہو؟
دوسری حکمت نزول کے وقت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نرمی برتنا ہے۔
اور یہ قرآن کی شان وشوکت اور رعب کے سبب تھا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد
ہے: ( ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں ( مراد قرآن مجید ہے)۔ پس قرآن
(واقعی) اﷲ کا معجز کلام ہے ۔
وہ جس کا جلال ،وقار اور رعب وشان ہے اور یہ کتاب ہے اگر اسے پہاڑ پر نازل
کیا جاتا تو وہ اس کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے پھٹ جاتا اور ریزہ ریزہ ہو
جاتا جیسا کہ فرمانِ الہٰی ہے( اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو
(اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خوفِ خدا سے دب جاتا اور پھٹ جاتا)‘‘ تو پھر
کیا حال ہو گا آپ علیہ السلام کے نرم دل کا ؟ کیا ان کے لیے تمام قرآن کو
وصول کرنا بغیر تاثر کے، اضطراب کے اور قرآن کے رعب وجلال کے احساس کے ممکن
ہے؟
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نزول قرآن کے وقت
کی حالت اور جو وہ قرآن کے اثر کی وجہ سے خوف اور گھبراہٹ محسوس کرتے اس کو
وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں (جیسا کہ امام بخاری رحمہ
اﷲنے نقل کیا ہے) : اور میں نے سخت سردی کے دن میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر
وحی نازل ہوتے دیکھی ہے ( ایسی سردی میں بھی) جب وحی کا سلسلہ ختم ہو جاتا
تو آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہو چکی ہوتی
تھی‘‘ اور یہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی کی شدت اور بوجھ کی بناء پر ہوتا
تھا۔( یتفصد کا معنی ہے: پسینہ چھوٹ جانا)
تیسری حکمت:’’ أحکام کی قانون سازی میں بتدریج آگے بڑھنا‘‘ اور یہ حکمت ایک
ظاہر اور یقینی بات ہے، اس لیے کہ قرآن کریم انسانیت اور بالخصوص عربوں کو
حکمت کے ساتھ لے کر چلا، چناں چہ انہیں شرک سے چُھڑایا اور ان کے دلوں کو
ایمان کی روشنی کے ذریعے زندہ کیا اور ان کے سینوں میں اﷲ اور اس کے رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت، دوبارہ اٹھنے اور یوم جزاء پر ایمان کا بیج
بویا، پھر انہیں اس مرحلہ یعنی ایمان کے ستونوں کو مضبوط کرنے کے بعد عبادت
کی طرف پھیرا ہجرت سے پہلے ان سے نماز کا آغاز کروایا، پھر دوسری ہجری میں
روزہ اور زکوٰۃ دونوں کو ملادیا، پھرچھٹی ہجری میں حج کے حکم کے ساتھ ( اس
مرحلہ کو) مکمل کیا اور اسی طرح موروثی رسم ورواج میں بھی یہی طریقہ
اپنایا، پہلے انہیں کبا ئر سے روکا، پھر صغائر سے کچھ نرمی کے ساتھ منع کیا
اور شراب ، سود اور جوا وغیرہ جو ان کے دلوں میں جڑیں پکڑ چکے تھے، قرآن نے
انتہائی حکمت کے ساتھ آہستہ آہستہ اسے حرام کیا ، اس طرح قرآن کریم کے لیے
شروفساد کو بالکل جڑ سے اکھاڑنا ممکن ہوا۔
ہم ایک مثال اس دانش مندانہ قانون سازی پر ذکر کرتے ہیں ، جس کے اختیار
کرنے میں قرآن کریم کو کامیابی حاصل ہوئی اجتماعی بیماریوں کے علاج کرنے
میں ، وہ شراب کی تحریم ہے جوعربوں میں ایک عام اور سنگین بیماری تھی اسے
مٹانا اور ختم کرنا اسلام کے لیے کیسے ممکن ہوا؟
قرآن کریم نے اس کی تحریم کا نصاب چار مراحل میں مرتب کیا، جیسا کہ سود کے
حرام کرنے میں طریقہ اپنایا گیا۔ تو قرآن نے شراب کو ایک ہی مرتبہ میں حرام
نہیں کیا، کیوں کہ ان کے ہاں شراب نوشی کا معاملہ اسی طرح تھا، جیسا کہ ہم
میں سے ایک شخص صاف شفاف پانی پیتا ہے۔ تو حکمت اسی میں تھی کہ اسے ایک ہی
مرتبہ میں حرام نہ کیا جائے اسی لیے قرآن نے اسے بتدریج حرام کیا۔
پہلے قرآن نے اس سے بالواسطہ نفرت دلائی اور اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اترا:
’’ ومن ثمرات النخیل والأعناب تتخذون منہ سکراورزقاً حسناً‘‘ اور کھجور اور
انگور کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو‘‘
سو اﷲ نے بتایا کہ اس نے ان دو درختوں ( کھجور اور انگور) سے لوگوں پر
انعام کیا کہ وہ ان دونوں سے مُسکر یعنی نشہ آور شراب اور رزق حسن یعنی وہ
ماکولات ومشروبات جن سے لوگ نفع پاتے ہیں، حاصل کرتے ہیں۔ اﷲ نے دوسری شیٔ
کی مدح بیان کی اور کہا کہ وہ رزق حسن ہے اور پہلے کے بارے میں بتایا کہ وہ
سکر ہے یعنی ایسی چیز ہے جو نشہ آور اور انسان کی عقل کو خراب کرنے والی ہے
اور اسی تبائن کے بیان سے ہر عقل مند شخص کے سامنے دونوں چیزوں کے درمیان
ایک بڑی خلیج ظاہر ہو جاتی ہے۔
دوسرا مرحلہ: بلاواسطہ دو چیزوں کے درمیان عملی ملاپ کے ذریعے نفرت دلائی
گئی: ایک چیز جس میں معمولی دنیوی فائدہ ہے اور ایک شیٔ جس میں جسم ، صحت
اور عقل کا بہت بڑا نقصان ہے اور اس میں ان عظیم نقصانات کے ساتھ ساتھ مزید
انسان کا گناہ کبیرہ میں پڑ کر ہلاک ہونا ہے، اﷲ کے اس ارشاد کو غور سے
سینئے! ( لوگ آپ سے شراب اورقمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرمادیجئے کہ
ان دونوں ( کے استعمال) میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو (
بعضے) فائدے بھی ہیں اور ( وہ) گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی
ہیں۔
آیت میں منافع سے مراد: وہ مادی منافع ہیں جو عرب لوگ شراب فروشی اور اس کی
تجارت سے حاصل کرتے تھے اور تجارت نفع بخش رہتی جیسا کہ وہ قمار اور جوء ے
کے ذریعے نفع کماتے، اور قرآن نے اس آیت میں شرا ب اور جوئے کوجمع کیا ہے
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جوئے میں نفع صرف مادی اور دنیوی تھا کہ بعض
جوئے باز اس سے نفع پاتے اور یہی بات شراب میں بھی تھی۔
علامہ قرطبی رحمہ اﷲ نے اپنی تفسیر میں اﷲ کے ارشاد: ( ومنافع للناس) کی
تفسیر کے ذیل میں ذکر کیا ہے کہ ’’ شراب میں تجارت کا نفع تھا، اس لیے کہ
وہ لوگ شراب کو شام سے سستے داموں لے کر آتے اور پھر حجاز میں اسے نفع کے
ساتھ بیچتے‘‘ اور یہ قول شراب کے نفع کے بارے میں سب سے صحیح ہے۔
اور ان دو چیزوں کے درمیان موازنہ سے ظاہر ہوا کہ اسلام نے شراب سے اس کے
عظیم جسمانی نقصانات بیان کرکے نفرت دلائی، لیکن اسے حرام نہیں کیا۔
اس آیت کے سبب نزول کے متعلق منقول ہے: مسلمانوں کی ایک جماعت جس میں عمر
بن خطاب رضی اﷲ عنہ بھی تھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
یا رسول اﷲ! ہمیں شراب کے حکم کے بارے میں بتائیے؟ کیوں کہ وہ عقل کو لے
جانے والا مال کو ضائع کرنے والا، جسم کو کمزور ولاغر کرنے والا ہے؟ تو اﷲ
نے یہ آیت ( یسئلونک عن الخمر والمیسر…… الخ) نازل کی۔
تیسرا مرحلہ: اﷲ کے فرمان ( اے ایمان والو تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت
میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو کہ منہ سے کیا کہتے
ہو‘‘ کے نازل ہونے سے شراب حرام ہو گئی لیکن یہ تحریم جزئی تھی، اﷲ نے ان
پر شراب کو صرف نماز کے وقت حرام کردیا، تاکہ وہ نشہ میں مدہوش نہ ہوں اور
نماز کے اوقات میں بیدار رہیں، تو مسلمان رات کو اور نماز کے اوقات کے
علاوہ شراب پیتے تھے۔ اور اس آیت کے سبب نزول کے متعلق روایت ہے کہ حضرت
عبدالرحمان بن عوف رضی اﷲ عنہ نے ولیمہ کی دعوت کی، بعض صحابہ کو بلایا،
علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن ؓ نے ہماری دعوت
کی اور ہمیں شراب پلائی، جس نے ہمیں مدہوش کر دیا جب نماز کا وقت ہوا تو وہ
مجھے آگے کیاگیا تاکہ میں ان کی امامت کروں ۔ تو میں نے پڑھا : ’’ قل یا
أیھا الکافرون أعبد ماتعبدون ونحن نعبد ماعبدتم……‘‘․
یعنی انہوں نے نشہ کی وجہ سے آیت میں تبدیلی کر دی تو یہ آیت کریمہ نازل
ہوئی۔
چوتھا مرحلہ: اس آخری مرحلہ میں جب اﷲ کا ارشاد’’ اے (ایمان والو! بات یہی
ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اورقرعہ اندازی کے تیر یہ سب گندی باتیں
شیطانی کام ہیں ، سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح حاصل ہو۔ شیطان تو
یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال
دے اور اﷲ تعالی کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے، سو اب باز آؤگے؟
نازل ہوا تو یہ تحریم کلی، قطعی اور مانع ہو گئی۔ ان آیات مبارکہ کا سبب
نزول جو مفسرین نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے : کہ بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم نے
نماز عشاء کے بعد ( ایک مرتبہ) شراب پی اور بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، جب کہ
شراب نے ان کے سروں میں اپنا کام شروع کر دیا اور ان میں آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ بھی موجود تھے اور ایک
چھوٹی بچی انہیں اشعار اور غزلیں سنارہی تھی، تو اس نے اپنے ترانے کے
درمیان (ایک شعر) کہا
ألایا حمز للشرف النواء
وھن معقلات بالفناء
’’ اے حمزہ! ان عمر رسیدہ اور لاغر اونٹنیوں کی طرف دیکھیے جو صحن میں
بندھی ہوئی ہیں‘‘
حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ گھر کے قریب بندھی ہوئی اونٹنیوں پر برافروختہ ہوئے
آپ رضی اﷲ عنہ۔ اٹھے اور علی رضی اﷲ عنہ کی دو اونٹنیوں کے کوہانوں کو کاٹ
ڈالا اور ان کے کولہوں کو چیر ڈالا اور وہ نشہ کی حالت میں تھے علی رضی اﷲ
عنہ کو اس بات کی خبر دی گئی تو انہیں بہت سخت تکلیف ہوئی اور نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے پاس گئے اورحضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے فعل کی شکایت کی تو آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم حمزہ رضی اﷲ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ان کے اس فعل پر
انہیں ملامت کی اور غصہ ہوئے جب کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ ان کی طرف نامانوس
نگاہ سے دیکھنے لگے، کبھی نگاہ اوپر کرتے اور کبھی اس کو نیچے کرتے پھر نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء سے مخاطب ہوئے اور کہا: اور کیا تم
سب میرے باپ کے غلام نہیں ہو؟
تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ ان کے چچا مدہوش یعنی نشہ میں ہیں ، ان
کی گرفت نہیں کی ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس وقت کہا: یا اﷲ! ہمارے لیے
شراب کے بارے میں واضح حکم بیان فرما تو اﷲ نے یہ آیت نازل کی ﴿ إنما الخمر
والمیسر والأنصاب والأزلام رجس﴾ الخ․
اور اس طرح بتدریج شراب مکمل طور پر حرام ہوئی اور اس میں ایک عظیم الشان
حکمت تھی جسے اسلام نے ان اجتماعی بیماریوں کے علاج کے لیے اختیار کیا۔
علامہ زرقانی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ’’مناہل العرفان‘‘ میں صراحت کے ساتھ
ذکر کیا ہے : ’’ اسلام نے ان چیزوں کو جوان کے دلوں میں جڑیں پکڑ چکی تھیں
جیسے شراب نوشی انتہائی حکمت کے ساتھ بتدریج حرام کی (جس کے نتیجہ میں )
اسلام کی مراد برآئی اور آخر کار شراب نوشی کے بھوت سے انہیں نجات دلائی
اور اسلام اس شان دار پالیسی کے اپنانے میں انتہائی دور اندیش سیدھے راستہ
پر گامزن قانون سازی میں کام یاب اور سیاست میں فائدہ مند ثابت ہوا، ان
متمدن اور مہذب قوموں کے مقابلہ میں جو اپنی عوام پر شراب کی پابندی میں
بری طرح ناکام ہوئی ہیں اور انہیں شکست کے سخت کڑوے گھونٹ پینا پڑے ہیں
امریکا کا شراب پر پابندی کا غیر سنجیدہ انداز زیادہ دور کی بات نہیں۔کیا
یہ ( شراب کا حرام کرنا) قوموں کی سیاست اورجماعتوں کے سنوارنے میں اسلام
کا معجزہ نہیں! کیوں نہیں! اور تاریخ اس پر گواہ ہے۔ قسط اول ربیع الأول
۱۴۲۶ھ․
چوتھی حکمت: ’’ قرآن کریم کے حفظ کرنے، سمجھنے اور اس میں غوروفکر کرنے کو
مسلمانوں کے لیے سہل اور آسان بنا دینا ‘‘ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عرب
امی تھے یعنی پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے متعلق
امی ہونے کو اﷲ کے فرمان: ’’ وہی ہے جس نے (عرب کے) ناخواندہ لوگوں میں ان
ہی ( کی قوم) میں سے ( یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اﷲ کی
آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں) میں محفوظ کر دیا ہے۔
اسی طرح آپ علیہ السلام بھی امی تھے، ارشاد پاک ہے: ( الذین یتبعون الرسول
النبي الأمي……)’’ جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں……‘‘ پس اﷲ کی
حکمت متقاضی تھی کہ ان پر اپنی بزرگ وبرترکتاب کو بتدریج نازل کیا جائے،
تاکہ مسلمانوں پر اس کا یادکرنا آسان اور سہل ہو کیوں کہ وہ لوگ اپنے حافظہ
پر اعتماد کرتے تھے۔ پس ان کے سینے ان کے صحیفے ہو تے تھے، جیسا کہ امت
محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں وارد ہوا ہے۔ اور کاتبوں کے کمیاب ہونے
کے ساتھ ساتھ کتابت کے آلات بھی انہیں میسر نہ تھے، اگر قرآن ایک ہی مرتبہ
اتار دیا جاتا تو اس کے یاد کرنے سے عاجز آجاتے نیز اس میں غوروفکر کرنے
اور سمجھنے میں بھی بے بس ہو جاتے۔
پانچویں حکمت:’’ حادثات اور واقعات کے ساتھ چلنا اور ان کے وقوع پذیر ہونے
کے زمانے میں ان کی غلطیوں پر آگاہ کرنا ‘‘ ہے، اس لیے کہ یہ نفس انسانی
میں زیادہ مؤثر اور اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے میں بطور درس عملی
زیادہ داعی ہے۔ پس جب بھی کوئی نیا معاملہ پیش آتا تو اس کے موافق قرآن کی
آیات اتر جاتیں اور جب بھی اصلاح کی ضرورت ہوتی تو قرآن نازل ہو جاتا جو
انہیں بتاتا اور آگاہ کرتا کہ کس چیز سے بچنا مناسب اور کس کام کا طلب کرنا
ضروری ہے ، ان کی نشاندہی کرتا اور ان پر متنبہ کرتا۔
آپ غزوہ حنین کی مثال لے لیجئے! (اس غزوہ میں مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے)
مسلمانوں کے دلوں میں کچھ بڑائی کا خیال آگیا او رجب انہوں نے دیکھا کہ ان
کی تعداد مشرکین سے زیادہ ہے توبڑائی والی باتیں کرنے لگے، اس وقت ان میں
عُجب پیدا ہوا اور انہوں نے کہا : کہ آج ہم قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں
گے نتیجۃً انہوں نے میدان جنگ سے پیٹھ پھیرلی اور شکست وعزیمت سے دو چار
ہوئے اور اسی بارے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے:
’’( تم کو بہت سے مواقع میں غلبہ دیا) اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنے
مجمع کی کثرت کی وجہ سے غرور ہو گیا تھا ، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ
آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی پھر (آخر کار) تم پیٹھ
دے کر بھاگ کھڑے ہوئے‘‘۔
اور اگر قرآن ایک ہی مرتبہ پورا نازل ہو جاتا تو اصلاح پر اس کے وقت میں
تنبیہ ممکن نہ ہوتی، اس لیے کہ مؤمنین اور ان کے عجب کے متعلق آیات کے نزول
کا تصور کیسے ممکن ہو سکتا ہے جبکہ غزوہ یا وہ واقعہ ابھی تک رونما نہ ہوا
ہو۔
اور یہی حال جنگ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کے متعلق بھی ہوا کہ ان کے
بارے میں بہترین آسمانی نصیحت اتری: ﴿ وماکان لنبي أن یکون لہ أسری حتی
یثخن في الأرض…………﴾․ ’’ نبی کی شان کے لائق نہیں ، کہ ان کے قیدی باقی رہیں
( بلکہ قتل کر دیئے جائیں ) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح ( کفار کی)
خونریزی نہ کریں‘‘ ۔
چھٹی حکمت: ’’ قرآن کریم کے سرچشمہ اور اس کے حکیم اور قابل ستائش ہستی کی
طرف سے نازل ہونے کے متعلق بتانا‘‘ ہے اور اس جلیل القدر حکمت کے متعلق
علامہ محمد عبدالعظیم الزرقانی رحمہ اﷲ نے جو عمدہ اور شان دار کلام اپنی
کتاب ’’ مناھل العرفان‘‘ میں کیا ہے اس کا نقل کرنا ہمارے لیے انتہائی
مناسب ہے ۔ وہ فرماتے ہیں ’’ ( قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی حکمت)
قرآن کے مأخذ اور اس کا صرف اﷲ تعالی کے کلام ہونے کے متعلق بتانا ہے اور
اس کا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے علاوہ مخلوق میں سے کسی کا
کلام ہونا ممکن نہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ : ہم قرآن کریم کو شروع سے
آخر تک پڑھتے ہیں ، تو وہ مستحکم ترتیب ، دقیق بناوٹ، قوی أسلوب، مضبوط
ربط، اپنی سورتوں، آیتوں اور جملوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ( دلچسپ) ملاپ
میں ( نظر آتا) ہے الف سے یاء تک مکمل قرآن میں إعجاز رواں ہے ، گویا کہ وہ
ایک ہی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اس کے اجزاء کے درمیان پھوٹ اور رخنہ ممکن
نہیں، گویا وہ یکتا لڑی اور منفرد ہار ہے جو آنکھوں کی بینائی اچک لیتاہے،
اس کے حروف اور کلمات منظم اور اس کے جملے اور آیتیں مربوط ہیں اور یہاں ہم
پوچھتے ہیں کہ : قرآن کی یہ معجز تالیف کیسے پوری ہوئی؟ اور یہ حیرت انگیر
یکسانیت کیوں کر ممکن ہوئی؟ حالاں کہ وہ ایک ساتھ پورا نازل ہوا، بلکہ بیس
سال سے زائد عرصہ میں واقعات اور حوادث کے متفرق ہونے کی وجہ سے علیحدہ
علیحدہ اور متفرق طور پر نازل ہوا؟
جواب یہ ہے کہ ہم یہاں اعجاز کے رازوں میں سے ایک نیا راز دیکھتے ہیں اور
ربوبیت کی نشانیوں میں سے ایک نادر نشانی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن کے
ماخذ اور جزا وسزا کے مالک اور اکیلے اﷲ کے کلام ہونے پر روشن دلیل پڑھتے
ہیں : ( اور اگر یہ اﷲ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بکثرت
تفاوت پاتے) اور اگر یہ بات نہیں تو خدارا مجھے بتائیے کہ آپ میں اتنی سکت
ہے؟ یا تمام مخلوق میں اتنی استطاعت ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آجائے جو
(باہمی) ربط وتعلق میں مضبوط، آراستگی اور ترتیب میں قوی، ابتداء اور
اختتام میں متناسب ہو: نیز وہ تألیف میں ایسے خارجی عوامل واسباب کے ماتحت
وپابند ہو جو انسان کی قدرت سے باہر ہوتے ہیں اور وہ زمانہ کے واقعات اور
حوادث ہیں ، جن کے مطابق اس کتاب کا ہر جز نازل ہوتا اور ان کے متعلق بتاتا
ہے او ران کے یکے بعد دیگرے اسباب اور پے در پے دواعی وعوامل کی خبر دیتا
ہے، باجود اس اختلاف کے جوان عوامل کے درمیان اور اس تغایر کے جواُن اسباب
کے درمیان پایا جاتا ہے، نیز باوجود اس کتاب کی تالیف کے وقفے اور قرآن ہی
کے اجزاء کی مدت کے بیس سال سے زیادہ طویل ہونے کے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انفصال زمانی اور ان دواعی کے درمیان وہ قابل
توجہ اختلاف عام طور پر رخنہ اور پھوٹ کو مستلزم ہوتے ہیں اور یہ دونوں اس
کلام کے اجزاء کے درمیان کوئی ربط واتصال کا راستہ نہیں چھوڑتے۔
اور قرآن کریم نے اس پہلو سے بھی عادت کو توڑ ڈالا، جدا جدا ، قسطوں میں
نازل ہوتا رہا لیکن اس کی تکمیل ایک مضبوط ومربوط کلام کی صورت میں ہوئی،
کیا یہ روشن دلیل نہیں ہے کہ وہ قوتوں اور قدرتوں کے پیدا کرنے والے، اسباب
کے مالک، خلق وکائنات کے منتظم، زمین وآسمان کے محافظ، ماضی ومستقبل پر علم
رکھنے والے اور زمانہ اور اس میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر ذات کا
کلام ہے؟
ہمارے مذکورہ کلام کے علاوہ یہ بھی سمجھ لیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
پر جب کوئی ایک آیت یا چند آیتیں نازل ہوتیں تو آپ علیہ السلام فرماتے کہ
’’ اسے فلاں سورت میں فلاں مقام پر رکھ دو‘‘ اور وہ انسان تھے طبعی طور پر
وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ ایام کیا لے کر آتے ہیں ؟ اور وہ نہیں جانتے
تھے کہ زمانہ مستقبل میں کیا ہو گیا؟ کیا حوادث وواقعات رونما ہوں گے؟ چہ
جائیکہ انہیں ان واقعات کے متعلق کہ اﷲ کیانازل کرے گا اس کا علم ہو اور
اسی طرح ایک لمبی عمر گزر گئی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اسی حالت پر
رہے جبرئیل امین علیہ السلام ان کے پاس قرآن تھوڑا تھوڑا لاتے رہے، حتی کہ
اس لمبی عمر کے بعد پورا قرآن مکمل وتمام ہوا اور وہ منظوم ومربوط، متناسب
اور ملا ہوا اور اس میں تھوڑا سا بھی رخنہ اور تفاوت نہ تھا، بلکہ اس نے
تمام مخلوق کو اپنی ہم آہنگی، یکسانیت اورتال میل کی وجہ سے عاجز کر دیا:
’’ یہ (قرآن) ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں ( دلائل سے) محکم کی گئی ہیں
، پھر ( اس کے ساتھ ) صاف صاف ( بھی) بیان کی گئی ہیں( وہ کتاب ایسی ہے کہ
) ایک حکیم باخبر( یعنی اﷲ تعالیٰ ) کی طرف سے(ہے)‘‘ جب آپ سمجھ لو گے کہ
اس طرح کی ترتیب ویکسانیت کی کوشش رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام میں
اور نہ ہی فصیح وبلیغ لوگوں کے کلام میں اس اسلوب وانداز پر جس پر قرآن
نازل کیا گیا ہے یا اس اسلوب کے قریب ہونا ہر گز ممکن نہیں ہے ، تو آپ پر
اس اعجاز کا راز منکشف ہو جائے گا مثال کے طور پر آپ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم کے اقوال کو لے لیجئے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مختلف مواقع
میں متبائن اسباب کی وجہ سے طویل عرصہ میں صادر ہوئے اور جو اپنی شان
وشوکت، فصاحت ، نکھار اور بلندی میں ہونے کے باوجود کیا آپ اور پوری
انسانیت مل کر اتنی استطاعت رکھتی ہے کہ اس ٹکڑوں میں بٹے ہوئے کلام اور
بیان کو اس میں نقصان وزیادتی اور تصرف کے بغیر ایک ایسی کتاب میں مرتب
کرسکیں جو تسہیل اور ہم آہنگی سے آراستہ ہو؟ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ
ہی ایسا ہونا ممکن ہے۔ اور جو اس کا ارادہ کرے گا تویقیناً ایک لایعنی اور
عبث کام کرے گا اور لوگوں کے لیے پیوندزدہ لباس اور ایسا من گھڑت کلام لائے
گا جو باہم ربط ویکسانیت میں معیوب اور وحدت وتسہیل میں ناپید اور کانوں
اور ذہنوں پر ناگوار ہو گا۔
تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کا قسط وار نازل ہونا دلالت کرتا ہے کہ وہ تنہا
اﷲ کا کلام ہے۔ اور وہ جلیل القدر حکمت ہے جو قرآن کے منبع کے بارے میں
مخلوق کی صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے !! ’’آپ کہہ دیجئے کہ اس
(قرآن) کو تو اس ذات نے اتارا ہے جس کو سب چھپی باتوں کی خواہ وہ آسمانوں
میں ہوں یا زمین میں خبر ہے، واقعی اﷲ تعالیٰ غفور رحیم ہے‘‘۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کو کیسے حاصل کیا؟
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کو امین الوحی جبرئیل علیہ السلام کے
توسط سے حاصل کیا اور جبرئیل علیہ السلام نے اسے رب العزت( جل جلالہ) سے
حاصل کیا اور جبرئیل امین علیہ السلام کا اﷲ کے کلام کو پہنچانے اور اسے
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف وحی کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہ تھا۔
پس اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب کو اپنے آخری نبی(محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم) پر امین الوحی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے نازل کیا، اور جبرئیل
علیہ السلام نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی تعلیم دی اور رسول صلی
اﷲ علیہ وسلم نے اسے اپنی امت تک پہنچایا اور اﷲ نے جبرئیل کے متعلق فرمایا
کہ وہ وحی پرامین ہے اور اسے (رسول علیہ السلام تک ) پہنچاتا ہے جیسا کہ اس
نے اﷲ سے سنا ہے :’’واقعی یہ قرآن (اﷲ کا) کلام ہے۔ ایک معزز فرشتہ ( یعنی
جبرئیل علیہ السلام) کالا یا ہوا۔جو قوت والا ہے( اور) مالکِ عرش کے نزدیک
ذی رتبہ ہے( اور) وہاں ( یعنی آسمانوں میں ) اس کا کہنا ماناجاتا ہے‘‘اور
اس کے متعلق اﷲ نے یہ بھی فرمایا: ’’ اس کو امانتدار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ
کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ بھی ( منجملہ) ڈرانے والوں کے ہوں‘‘
بہر حال قرآن وکلام کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اﷲ کا کلام ا اور رب العالمین کا
نازل کردہ ہے ، جیسا کہ اﷲ کا فرمان ہے’’ اور آپ کو بالیقین ایک بڑی حکمت
والے علم والے کی جانب سے قرآن دیاجارہا ہے ‘‘ اور آپ علیہ السلام نزول
قرآن کے وقت بہت سختی برداشت کرتے اور اپنے آپ کو قرآن کے یاد کرنے کے لیے
مشقت میں ڈالتے اور جبرئیل علیہ السلام جب ان پر قرآن پڑھتے تو وہ ان کے
ساتھ ساتھ دہراتے رہتے تاکہ بھول نہ جائیں یا اس میں سے کچھ ضائع نہ ہو
جائے،تو اﷲ نے انہیں جبرئیل علیہ السلام کے پڑھنے کے وقت خاموش رہنے اور
غور سے سننے کا حکم دیا اور انہیں اطمینان دلایا کہ وہ اس قرآن کو آپ کے
سینے میں محفوظ کر دیں گے ،آپ اس بارے میں جلدی نہ کریں اور اپنے نفس کو اس
کے وصول کرنے میں مشقت میں نہ ڈالیں : ’’اور قرآن ( پڑھنے) میں قبل اس کے
کہ آپ پر اس کی وحی پوری نازل ہو چکے عجلت نہ کیا کیجئے اور آپ یہ دعا
کیجئے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھا دیجئے‘‘ اور رہا یہ کہ اﷲ نے آپ علیہ
السلام کو یاد کروانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی، تو اس کے متعلق اﷲ کا
ارشاد ہے:’’ (اور) اے پیغمبر آپ(قبل وحی کے ختم ہو چکنے کے) قرآن پر اپنی
زبان نہ ہلایا کیجئے تاکہ آپ اس کو جلدی جلدی لیں ( کیوں کہ) ہمارے ذمہ ہے
( آپ کے قلب میں ) اس کا جمع کر دینا (اور آپ کی زبان سے) اس کا پڑھوا
دینا۔ ( جب یہ ہمارے ذمہ ہے) تو جب ہم اس کو پڑھنے لگا کریں ( یعنی ہمارا
فرشتہ پڑھنے لگا کرے) تو آپ اس کے تابع ہو جایا کیجیئے پھر اس کا بیان
کرادینا(بھی) ہمارا ذمہ ہے‘‘۔ اور جبرئیل علیہ السلام ماہ ِ رمضان میں نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دور کرتے، پس جبرئیل علیہ السلام
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آتے اور ان سے قرآن سنتے، تو رسول علیہ
السلام ان کے سامنے قرآن سنتے اور وہ سناتے اور (پھر) جبرئیل علیہ السلام
پڑھتے تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سنتے اور اسی طرح جبرئیل علیہ السلام ہر
رمضان میں جو قرآن میں سے نازل ہوچکا ہوتا ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کے
ساتھ اس کا دور کرتے اور آپ علیہ السلام کی وفات سے پہلے جبرئیل علیہ
السلام رمضان میں دو مرتبہ (خلافِ معمول) آئے اور آپ علیہ السلام سے قرآن
کا دور ومذاکرہ کیا، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے جبرئیل کے ( اس مرتبہ)
دوبار نازل ہونے کی وجہ سے اپنے انتقال کے قریب آنے کومحسوس کر لیا تھا اور
عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا:’’ جبرئیل مجھ پررمضان میں اترتے اور ایک
مرتبہ مجھ سے قرآن کا دور کرتے اور اس سال وہ دو مرتبہ آئے ہیں اور میں
سمجھتا ہوں کہ میرے انتقال کا وقت قریب آچکا ہے‘‘۔
اور یہی ہوا اور اسی سال آپ علیہ السلام اپنے رب کے جوارِ رحمت کی طرف کوچ
کر گئے ۔ ( صلی اﷲ علیہ وسلم) اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
اور رہا یہ کہ حضرت جبرئیل نے اﷲ تعالیٰ سے قرآن کو کیسے حاصل کیا؟ تو
ماقبل میں ہمارے سامنے یہ آچکا ہے کہ یہ سماعاً تھا کہ حضرت جبرئیل نے
اﷲتبارک وتعالیٰ سے ان آیات کو سنا پھر اسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر لے
کر نازل ہوئے۔
علامہ بیہقی رحمہ اﷲ سورۃ القدر کی آیت کریمہ ﴿إنا أنزلناہ في لیلۃ
القدر……﴾ کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں کہ : مراد یہ ہے کہ ( واﷲ اعلم) ہم نے
فرشتہ کو سنایا اور اسے یہ سمجھایا اور اسے جو کچھ اس نے سنا تھا اس کے
ساتھ ہم نے اتارا…… انتہی۔
معنی یہ ہے کہ: جبرئیل علیہ السلام نے اﷲ سے قرآن سن کر حاصل کیا اور اس کی
تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے: جب اﷲ تعالی وحی میں کلام فرماتے ہیں تو
آسمانوں پر اﷲ کے خوف سے سخت کپکپی طاری ہو جاتی ہے او رجب آسمان کے باسی
یہ سنتے ہیں تو بے ہوش ہوکر سجدہ میں گرپڑتے ہیں سب سے پہلے سر اٹھانے والے
جبرئیل ہوتے ہیں ، چنانچہ اﷲ تعالی جوچاہتے ہیں اپنے امر کی وحی میں ان سے
کلام فرماتے ہیں تو وہ اسے فرشتوں کے پاس لے کر آتے ہیں پھر جس آسمان سے
بھی ان کا گزر ہوتا ہے تو اس آسمان کے رہنے والے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ
ہمارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ تو جبرئیل فرماتے ہیں: حق فرمایا، پھر اسے
جسے حکم دیا گیا ہے پہنچادیتے ہیں‘‘ ۔
علامہ زرقانی رحمہ اﷲ اپنی کتاب ‘‘مناھل العرفان‘‘ میں رقم طراز ہیں:
تو انہوں نے یہ خیال کیاکہ حضرت جبرئیل نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر قرآن
کے معانی لے کر اترتے اور رسول ( صلی اﷲ علیہ وسلم) اسے عربی زبان میں بیان
کرتے اور بعض دوسروں نے یہ گمان کیاکہ لفظ توجبرئیل کا ہوتا اور اﷲ اس کی
طرف فقط معنی کی وحی والقاء کرتے اور یہ دونوں قول باطل اور سراسر غلط ہیں
اور کتاب اﷲ سنت رسول علیہ السلام اور اجماع کے نص سے متصادم ہیں اور اس
سیاہی کے برابر بھی نہیں جس سے لکھا جاتا ہے۔
اور میرا عقیدہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی کتابوں میں ایک سازش کے تحت داخل کیا
گیا ہے۔ ورنہ قرآن کیسے اس وقت معجز ہو سکتا ہے جبکہ لفظ محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم یا جبرئیل کا ہو؟ پھر اس کی نسبت اﷲ کی جانب کیسے صحیح ہوسکتی ہے جب
کہ لفظ اﷲ کا نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ اﷲ کا فرمان ہے ﴿حتی یسمع کلام
اﷲ﴾الآیۃ․
اس کے علاوہ بھی یہاں کئی باتیں ہیں جو ہم سے ایک لمبی تفصیل کا تقاضا کرتی
ہیں۔
کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال اﷲ کی جانب سے وحی تھے؟
ماقبل میں ہمارے سامنے ( یہ بات تفصیل سے) آگئی کہ قرآن کریم اﷲ کا کلام ہے
اور اس کا معنی یہ ہے کہ لفظ اور معنیٰ دونوں اﷲ کی جانب سے ہیں اس میں
جبرئیل یا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا سوائے کلام اﷲ کی تبلیغ کے اور کوئی
دخل نہیں۔ اور آپ علیہ السلام کے اقوال بھی اسی طرح اﷲ کی جانب سے وحی تھے،
لیکن لفظ رسول علیہ السلام کے اور معنی اﷲ کی طرف سے تھا، کیوں کہ اﷲ
تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور نہ آپ اپنی خواہش نفسانی سے باتیں بتاتے ہیں، ان
کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے‘‘
اور علامہ سیوطی رحمہ اﷲ نے جوینی رحمہ اﷲ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
منزل کلام اﷲ کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: اﷲ تعالی جبرئیل ( علیہ السلام)
سے فرماتے:’’ اس نبی سے کہہ دیجئے جس کی جانب تمہیں بھیجا جارہا ہے کہ اﷲ
فرماتے ہیں! فلاں فلاں کام کرو اور فلاں فلاں حکم کرو‘‘ تو جبرئیل علیہ
السلام اﷲ کے فرمانے کو سمجھ لیتے، پھر اس نبی پر نازل ہوتے اور اسے جو کچھ
اﷲ نے فرمایا ہے کہتے اور لفظ وہ نہ ہوتا ( یہ اسی طرح ہے) جیسا کہ ایک
بادشاہ اپنے معتمد خاص سے کہتا ہے:’’ فلاں سے کہہ دو کہ بادشاہ تمہیں کہتا
ہے کہ :’’ خدمت میں محنت کرو اور اپنے لشکر کو قتال کے لیے اکٹھا کرو۔‘‘
پھر اگر قاصد اس سے کہے کہ: ’’ بادشاہ آپ سے کہتا ہے کہ ’’ میری خدمت میں
سستی نہ کرو، لشکر کو منتشر نہ ہونے دو اور انہیں قتال پربرانگیختہ کرتے
رہو‘‘ تو اسے جھوٹا اورسسُت نہیں کہا جائے گا۔
دوسری قسم: اﷲ تعالی جبرئیل( علیہ السلام) سے فرماتے:’’ نبی پر یہ کتاب پڑھ
لو‘‘ تو جبرئیل( علیہ السلام) اسے بغیر کسی تبدیلی کے من وعن اﷲ کی طرف سے
نازل کر دیتے جیسا کہ بادشاہ ایک خط لکھتا ہے اور اسے معتمد خاص کے حوالہ
کرتا ہے اور کہتا ہے کہ:’’ اسے فلاں کو سنادو‘‘
علامہ سیوطی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں قرآن دوسری قسم سے ہے اور پہلی قسم سنت
کہلاتی ہے اور اسی بناء پر روایت السنہ بالمعنی کی اجازت دی گئی ہے برخلاف
قرآن کے۔
(الفاروق ربیع الاول، ربیع الثانی ۱۴۲۶ھ) |
|