14 اگست 1947 پاکستان دنیا کے خطے میں ایک
آزاد مملکت کےطور پر معروض وجود میں آیا مگر بدنصیبی کہ چند سالوں ہی میں
کرپٹ اور ضمیر فروشوں حکمرانوں اور انگریزوں کی گود میں پروان چڑھنے والی
اس فوج نے اس ملک کی دولت کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کردونوں ہاتھوں لوٹنا
شروع کر دیا جسکا سلسلہ آج تک جاری ہے -
زرا تصور تو کریں اس مملکت پاکستان کو اللہ نے کتنی دولت سے مالا مال کیا
ہے 66 سال سے یہ کرپٹ حکمراں اس ملک کو دولت کو دونوں ہاتوں سے لوُٹ رہے
ہیں مگر دولت ہےکہہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور نہ ان کمبختوں کے پیٹ
بھرتے ہیں اور اُس پر غریب عوام ان کرپٹ حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے کے
بجایے جشنِ آزادی منانے میں مصروف ہے ، حکمراں منایئں جشنِ آزادی ، فوج
منائے ،سیاست داں منائیں ،رشوت خور سرکاری افسر منائیں ،بیورو کریسی منایں
، ہم کیوں منائیں جو اس ملک کو لوُٹ رہے ہیں وہ منائیں –
میں یہ بات دعوہ سے کہ سکتا ہوں کہ اس ملک میں 80 فیصد عوام ایسی ہے جو
اپنے ملک کے صدر کے نام سے بھی ناواقف ہے اور چلے ہیں جشنِ آزادی منانے-
1-جس ملک کا وزیر آعظم کرپٹ ہو اور اپنے ملک کی اربوں کھربوں دولت لوٹ کر
بیرونی میں اپنے اثاثے بناتا ہو اور اپنی اولاد کو امریکہ اور لندن کی
پُرفزا مقام پر رکھتا ہو
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
2- 2 بار وزیر آعظم رینے والا حکمراں ایک ایسا ہسپتال بھی نہ بنا سکا جس
میں وہ اپنا علاج تو در کنار اپنا ٹیسٹ بھی نہ کرا سکے اوراُسے قومی خزانے
سے لاکھوں روپے خرچ کر کے بیرونی ملک اعلاج کرانے کیلے لندن جانا پڑے -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
3- جس ملک میں 2 کڑوڑ سے زیادہ لوگ 3 وقت کا کھانا کھاے بغیر سو جا تے ہوں
اور حکمراں سُوٹ اور ٹائی ہر وقت زیب تن کیے ہوتے ہیں اور سب ٹھیک ہے کا
نعرہ لگا رکھتے ہیں
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
4-جس ملک کی تقدیر کا ٖ فیصلہ حکمراں لندن اور دوبئی میں بیٹھ کر کرتے ہوں
-
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
5- جس ملک میں گائے کے گوشت کے نام پر گدھے کا گوشت عوام کو کھلایا جا رہا
ہو -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
6- یا جس ملک میں عورتوں کی عزت غیر محفوظ ہو گئیں ہو -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
7-جس ملک میں سرکاری اداروں میں رشوت کا بازار کھلا ہوا ہے کوئی ان کو
پوچھنے والا نہ ہو -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
8-شہر کراچی میں روزانہ 15 سے 20 لاشوں کا گرنا نہ مرنے والے کو پتہ کیوں
مر گیا نہ مارنے والے کو پتہ اُس نے کیوں مارا -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
9-بھتہ خوری - زکواۃ اور فطرہ کے نام پر بھتہ خوری اور انکا ر پر جان کی
بازی –موبایل فون اور رقم چھینے کی عام واردتیں اس شہر کا معمول بن گیا ہو
-
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں
10- علمہ کرام کا سفاکانہ قتل اس شہر کا معمول بن گیا ہے –
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں
11-جس ملک کا میڈیا مادر پدر آزاد ہو چند لا کھ روپوں کے خاطر ایسے ایسے
اشتہار چلا رہا ہے جسے دیکھ کر نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
12-جس اسلامی ملک میں جنید جمشید اور عامر لیاقت جیسے مذہبی اسکالر ربن کر
دین کا سبق پڑھاہیں اللہ فہی اماں-
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
13-سرکاری ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر 2 اور کہیں 3 مریض ہیں جن کو جگہ نہ مل
سکی وہ فرش پر زندگی کی سانسیں پوری کر رہا ہے دوایوں کا ہسپتال میں دور
دور پتہ نہیں –
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
14-جس ملک کے 8 ہزار لوگ سعودی عرب میں بے یاررمددگار بیٹھیں ہوں ان کی داد
راسی کرنے والا اس حکومت میں کوئی نہ ہو کل تک جو اپنی محنت کی کمائی بھیج
کر اس ملک کی معیشیت کو پروان چڑھا رہے تھے آج ایک ایک وقت کے کھانے کیلے
وہ اور ان کی اولاد دست سوالی بنیں ہیں مگر کسی کے کان پر جویئں نہیں
رینگتی –
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
15-آج پورا کراچی کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے گلی کوچوں میں کچرے کا انبار ہے
برساتی نالے اُبل رہے ہیں ہر علاقے میں تعفن پھیلا ہوا ہے -
تو کیا ہم اس لیے جشنِ آزادی منائیں-
16-12 گھنٹے کی لوڈ شیدنگ اس کراچی شہر میں روز کا معمول ہے رمضان المبارک
میں ایک ایک بوند پانی کو یہ عوام ترستی رہی اور پھر بھی چلی ہے 14 اگست
منانے-
کیا اپ پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ میں جشنِ آزادی مناؤں
تو پھر مجھے کوئی ایک بات تو بتاو جس بات پر میں خوش ہو کر جشنِ آزادی
مناؤں –
منیر نیازی کا پنجابی شعر یاد اگیا
کچھ شہر دے لوگ وی ظالم ساں
کچھ سانوں مرن دا شوق وی سی
بابر فاروقی
|