اسلام پورہ کے علاقے میں ایک خاتون کو
لوگوں نے صرف اس لیے مارا کہ اس نے وہاں موجود ایک بارہ سالہ لڑکی کی طرف
دیکھا تھا،،،لڑکی نے لوگوں کو بتایا کہ یہ میری طرف دیکھ رہی ہے ،اسکے بعد
کیا ہونا تھا،اس ذہنی معذور عورت پر اغوا کار کا الزام لگ گیا اور ا س کو
مردوں نے بھی اس قدر مارا کہ شائد ہی کوئی مرد کسی دوسرے مرد کو اس طرح
مارے،،لوگوں کو پتہ نہیں کیا ہوتا جارہا ہے،،،اغوا کے واقعات ہو ضرور ہو
رہے ہیں مگر عام لوگوں کوبھی اغوا کار بنا کر انکی تذلیل کی جارہی ہے،پہلے
مردوں پر مردوں کا زورچل رہا تھا مگر آج ایک عورت پر بھی مردوں کا زور چل
گیا،،اس سے پہلے50سال کے ایک غبارے فروخت کرنے والے کو بھی لوگوں نے اغوا
کار بنایا اور اسکو مارنا شروع کردیا،،،اس عورت کا صرف اتنا قصور ہے کہ اس
نے ایک بچی کی طرف دیکھا مگر لوگوں نے اسکو وہ سزا نہیں دی جو اسکو دینی
چاہیے تھی،،،لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس عورت کی آنکھیں نکال لیتے جن
آنکھوں سے اس نے بچی کی طرف دیکھا ،کم ازکم مردوں کی مار سے تو بچی
جاتی۔۔صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس واقعہ کے پیچھے پاکستان میں اچانک
بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ اس کے پیچھے کیا سازش ہے یا کس کا
ہاتھ ہے، فی الحال کچھ بھی منظر عام پر نہیں آرہا۔ یہاں تک کہ طبقہ امراء و
حکام کی جانب سے کوئی تسلی و تشفی کا بیان تک بھی سامنے نہیں آیا۔
یہ اغوا کے واقعات صرف چھوٹے بچوں کے ساتھ ہی نہیں ہو رہے بلکہ اس میں چودہ
، پندرہ سال کے اوپر کے بچے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حالات اس حد تک بگڑ
چکے ہیں کہ اب والدین بچوں کو سکول بھیجنے کو تیار نہیں۔ بازار بھیجتے ہوئے
بھی ان کو ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ شہر کے کس کونے میں کون کیا
ہے؟ بہت سے اجنبی افراد ہمارے ارد گرد گھوم رہے ہوتے ہیں لیکن نفسا نفسی کا
زمانہ ہو گیا ہے۔ ہمیں صرف اپنا احساس رہتا ہے کہ ہمیں کچھ نہ ہو، سب کچھ
ہمارے لیے خیر ہو، باقی سب کی اﷲ جانے۔ جب ہم یہ سوچ رکھیں گے، تو ظاہر ہے
ہمیں دوسروں کا کیا علم ہو گا۔ اگر کوئی اجنبی کسی کو کچھ کہہ بھی جائے گا
تو ہم ایک ترچھی نظر ڈال کر ہونہہ کہہ کر کٹ مار لیں گے۔ ہمارے محلے میں
کوئی بھی گاڑی والا چکر لگاتا ہے۔ ایک نہیں دو تین۔ یہ اندازہ کرتا ہے کہ
کون سا بچہ کدھر ہے اور اسکے ساتھ کون ہے۔ کس حد تک داؤ لگ سکتا ہے کہ جھٹ
سے اسکے چہرے پر ایک سپرے کیا اور بیہوش ہونے سے پہلے گاڑی میں ڈالا، پھر
یہ جا اور وہ جا۔ یا پھر کسی بچے کو اکیلا دیکھا یا دو کی صورت میں۔ ان کو
ٹافی بسکٹ کا لالچ دیا، اپنی جیب سے نکال کر دیا، بچے بے ہوش، بندہ ان سمیت
غائب۔ کوئی پوچھے گا بھی نہیں کہ بھئی تم کون ہو، اس بچے کو کہاں سے لا رہے
ہو، کہاں لے جا رہے ہو۔ کیوں کہ جان نہ پہچان میں تیرا مہمان والا حساب ہے۔
وہ کہے گا کہ اس بچے کا ماما ہوں۔ ہم کہیں گے اچھا ٹھیک ہے۔ بات ختم۔
بچے دھڑا دھڑ اغوا ہو رہے ہیں۔ لاہور سے اب تک کی رپورٹ کے مطابق چودہ سو
کے لگ بھگ بچے جن کی عمریں پانچ سے پندرہ سال کے برابرہیں اغواہو چکے ہیں
اور یہ تعداد گزشتہ تین ماہ میں اغوا ہونے کی ہے۔ پشاور سے اغوا ہونے والے
بچوں کی تعداد آٹھ سو کے لگ بھگ ہے۔ مانسہرہ سے سات سو کے قریب اغوا ہوئے
ہیں۔ فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی سے بھی فی شہر ڈیڑھ دو سو بچے اغوا ہوئے
ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا پاکستان کے خلاف ایک سازش نہیں ہے۔ یقینا ہے۔
کیونکہ اس طرح پاکستان میں ایک افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ حکومت پر عوام کا
اعتماد اٹھ جاتا ہے (جو کہ اکثریت کو پہلے ہی نہیں ہے)۔ عوام کی توجہ بٹ
جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے پیچھے کیا ہے؟ عوام میں افراتفری کیوں پھیلائی
جارہی ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ عوام کی توجہ کن مسائل سے ہٹائی جا رہی
ہے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالا ت بہت سے اذہان میں گونجتے ہیں۔ ابھی
ابھی خبر ملی ہے کہ ملتان کے کسی پیر کالونی سے ایک ہی دن میں تین بچے اغوا
ہو چکے ہیں۔ اﷲ معافی۔۔
درحقیقت ہم میں وہ حق ہمسائیگی کا جو درد تھا، وہ ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے
ہمسائے میں، محلے میں کیا ہو رہا ہے، کون رہ رہا ہے، کس گھر میں کس قسم کے
حالات ہے کہ اگر ان کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے، تو ان کی جائے، یہ
احساسات عنقا ہو چکے ہیں۔پہلے آپ کے گھر سے دور دسویں گھر میں کون بیمار
ہوتا تھا، آپ کو علم ہوتا تھا اور آپ دیگر اہلِ محلہ کے ساتھ نہ صرف اس کی
تیمارداری کرتے تھے، بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کے علاج معالجے میں مدد
بھی فراہم کرتے تھے۔ آپ کے محلے میں کوئی نیا گھر آباد ہوتا تھا تو شاید
تین چار دن تک ان کو کھانا پکانے کی اجازت ہی نہ ملتی تھی۔ ان چار دنوں میں
خواتین آپس میں یوں گل مل جاتی تھیں جیسے ان میں برسوں کی جان پہچان ہو۔
ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت ہو جاتی تھی۔کتنے مرد ہیں، بچے ہیں ؟ کیا کچھ
کرتے ہیں کہاں ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ساری معلومات ایک ہمسائے کوملتے ہی دس
گھروں تک پہنچ جاتی تھیں۔ یہ نہیں کہ اس میں کوئی جاسوسی پہلو یا تجسس کی
بات تھی۔ بس یہ درحقیقت ایک قسم کی معلومات ہوتی تھیں۔ اور ہر گھر کی اس
طرح معلومات دوسروں کے گھروں میں پہنچ جاتی تھیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا
کہ اس محلے میں جو اجنبی اگر کسی کے گھر میں دروازے کوکھٹکھٹا کر مالک مکان
کی اجازت سے اندر جاتا تھا تو سمجھا جاتا تھا کہ ان کے گھر کا ہی کو ئی فرد
ہے ، کوئی رشتہ دار ہے۔ اور اگر کوئی اجنبی محلے میں چلتا نظرآتا تھا جو
کسی نے کسی بھی گھر سے نکلتے یا داخل ہوتے نہیں دیکھا ہوتاتھا تو اس کی
باقاعدہ تین چار بندے مل کر تفتیش کرتے تھے۔ جب تک مکمل تسلی نہ ہو جاتی
تھی تب تک اس کی جان نہیں چھوٹتی تھی۔ آج کل کی صورتحال اس کے بالکل بالعکس
ہے۔ محلے میں ایک چھوڑ ، دس بارہ اجنبی آجائیں، کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ یہی
سوچ کر ہوگا محلے کے کسی گھر کا، ہم نظر پھیر کر چل پڑتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بچے اغوا ہونے لگے ہیں۔ چوریاں ڈکیتیاں
بڑھ گئی ہیں۔ایک دوسرے سے دوریاں ہو گئی ہیں۔اور یہ دوریاں ہونے کی ایک سب
سے بڑی وجہ ہمارا ہمہ وقت وقت کی کمی کا گلہ کرنا ہے۔ اس میں بھی وقت کا
کوئی قصورت نہیں ہے۔ ہم خودہی اپنے مسائل میں اس طرح الجھ گئے ہیں کہ
دوسروں کی طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہیں مل رہا۔ بلکہ مسائل میں الجھا دیا
گیا ہے۔ مہنگائی کا مسلہ، بچوں کی تعلیم کا مسلہ، روزگار کا مسلہ، صحت و
صفائی کا مسلہ وغیرہ۔ مسائل ہزاروں، وسائل محدود۔ ایسے میں اگر بندہ دوسروں
کی طرف بھی توجہ دے، یا دوسرے لفظوں میں دوسروں کے پھڈے میں بھی ٹانگ اڑائے
تو نقصان کس کا۔۔ اپنی ٹانگ کا۔ درحقیقت سب کچھ ممکن ہے، بہت آسانی سے۔ ہم
اگر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو مضبوطی سے اپنی زندگی کا، اپنی
روزمرہ کے معاملات کا حصہ بنا لیں۔ اگر ہم بیشتر معاملات میں قناعت پسندی و
اعتدال پسندی سے کام لیں تو وقت کی بہت بچت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم انفرادیت کو
اجتماعیت پر ترجیح دیں۔ انفرادی مطلب ذاتی مفاد کو دوسروں کے مفاد سے ہمیشہ
پیچھے رکھیں، سوائے نیکی کے کاموں کے۔ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے گلے محلے
گاؤں شہر کے مسائل حل نہ ہوں۔ بات اگر ہے تو صرف اتنی سی کہ ہم اپنے ارد
گرد کے بدلتے ماحول پر نظر رکھیں۔ کسی اجنبی شخص یا گاڑی کو اپنے علاقے میں
دیکھیں تو اس کو نظروں ہی نظروں میں کھانے کا پروگرام بنائیں۔تب تک اس کی
جان نہ چھوڑیں جب تک یا تو وہ شرمندہ وہ کر وہ علاقہ چھوڑے، یا پھر وہ اپنی
باقاعدہ جان پہچان کرائے۔ اﷲ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ |