خوش شکل‘ لباس پہننے کا ڈھنگ‘ انگریزی لب و
لہجہ اور بارعب انداز قدرت نے یہ تمام خوبیاں سر احمد رضا میں ایک ساتھ
رکھی تھیں۔سر ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں
انگریزی لٹریچر کے پروفیسرتھے میری پہلی ملاقات اُن سے گونمنٹ کالج لاہور
کے اوپن کیفے میں ہوئی جہاں سر اپنے مخصوص انداز میں اکثر چائے پینے آتے۔
جب وہ خاص انداز میں کپ اُٹھاتے تودیکھنے والے ان کی شخصیت کے سحر میں
گرفتار ہو جاتے۔
میں ان چند خوش نصیب راوین میں سے ہوں جنہیں سر احمد رضا کے ساتھ ایک لمبا
عرصہ گزارنے کا موقع ملا ان کے ساتھ گزارا ہر اک لمحہ علم و حکمت سے بھرپور
تھا سردیو ں کے دنوں میں سر احمدرضا اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ اور چائے
کے کپ کے ساتھ دِکھے تو میں بھی علم کے انمول موتی سمیٹنے بیٹھ گیا باتوں
باتوں میں وہاں بیٹھے تمام طالب علم میں تبدیلی کے موضوع پہ بحث چھڑ گئی
اور ہم سب سر احمد رضا کی طرف متوجہ ہوئے کہ ان کا اس موضوع پہ کیا کہنا ہے
۔ سر نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور خاموشی اختیار کی جس کی وجہ سے ہم سب
کو تھوڑی سی پریشانی ہوئی ابھی ہم سر سے کچھ پوچھتے کہ وہاں ان کا پسندیدہ
سٹوڈنٹ اخلاق اﷲ تارڑ آیا اور سلام لیکر شاملِ محفل ہو گیا سر نے اپنے خاص
انداز میں پوچھا کہ بچوکہا ں گم رہے اتنے دن ؟ اخلاق بولا کہ سر میں CSSکے
امتحان کی تیاری میں مصروف تھا (اخلاق اﷲ تارڑ حال ہی میں ہوئے CSS کے
امتحان میں پاکستان بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کر کے پولیس کے محکمے میں
اپنے فرائض سر انجام دے رہیں ہیں) کچھ دیر بحث یوں ہی جاری رہی اور میں
ذہنی طور پہ اس تمام بحث کے دوران اسی الجھن میں گم رہا کہ تبدیلی آخر کس
بلا کا نام ہے ،ہمارے معاشرے میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہی سالوں سے وہی
پرانی سیاست،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں‘ سرکاری محکموں میں ذلیل ہوتی عوام اور نہ
جانے کیا‘ کیا یہ سب کب بدلے گا ؟ تبدیلی کب آئے گی ؟ہمیں تبدیلی صرف عمران
خان کے جلسوں میں نعروں کی شکل میں سننے کو ملتی ہے میں ابھی یہ باتیں سوچ
رہا تھا کہ سر نے تبدیلی کے بارے میں کچھ ایسا کہا کہ جس نے مجھے سر سے
پاؤں تلک ہلا کے رکھ دیا سر نے کہابچو ’’تبدیلی موت کی طرح ایک حقیقت ہے‘‘
اور تب مجھے سمجھ آیاکہ تبدیلی ہر وقت ہر لمحہ ہو رہی ہے مگر ہمیں نظر نہیں
آ رہی ہوتی پاکستان میں تبدیلی زیادہ ترمنفی ہے جسے مثبت ہونا چاہئے اور ہم
جسے تلاش کر رہے ہیں وہ تبدیلی نہیں بلکہ مثبت تبدیلی ہے |