ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاہیئے ؟
(Roshan Khattak, Peshawar)
وہ زبان جس کے ذریعے طلباء کو کسی
علم کی تعلیم دی جائے یا جسے بطورِ درس و تدریس استعمال کیا جائے ،ذریعہ
تعلیم کہلاتی ہے۔درس و تدریس اور تعلیم کے لئے ’’ذریعہ ‘‘ بنیادی حیثیت
رکھتا ہے۔ ذریعہ اگر چہ مقصد نہیں، مقصد تو حصول علم ہے لیکن یہ مقصد بغیر
ذریعہ کے حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے ذریعہ ذیلی حیثیت رکھنے کے با وجود
بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔باایں وجہ کسی بھی قوم کی تعلیمی نظام میں تدریسی
زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔وطنِ عزیز میں ایک طویل عرصہ سے
یہ بحث چلی آرہی ہے کہ ہمارے ہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہو ،یا اردو ؟ کو ئی
انگریزی کے حق میں دلائل پیش کرتا ہے تو کوئی اپنی قومی زبان ’ اردو‘ کے حق
میں دلائل کا انبار لگا دیتا ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں قائم پاکستان تحریکِ
انصاف کی حکومت نے سرکاری اسکولوں میں ابتدائی جماعت سے انگریزی پڑھانے اور
اسے تدریسی زبان بنانے کا فیصلہ کیا تو ایک دفعہ پھر یہ بحث زبانِ زدِ عام
ہو گئی کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے طلباء کو فائدہ ہو گا یا نقصان
؟ حکومت کا یہ فیصلہ درست ہے یا غلط؟ آئیے،آج اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ
نہ صرف خیبر پختونخوا میں بلکہ پورے ملک میں ذریعہ تعلیم یعنی تدریسی زبان
کیا ہو نی چا ہیئے ؟
اس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ تدریسی زبان جتنی قابلِ فہم اور فطری ہو گی ،
اتنی ہی طلبا ء نہ صرف زیرِ نظر مضمون کو سمجھ سکیں گے بلکہ اس حوالے سے وہ
ا پنے خیالات و تصورات کو بہتر انداز میں پیش بھی کر سکیں گے اگر زریعہ
تعلیم بدیسی زبان ہو گی تو کوئی اصول، کو ئی نظریہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو
؟ طلباء اس کی گہرائی میں نہیں اتر سکیں گے اور نہ ہی اس سے مستفید ہو سکیں
گے۔یہی وجہ ہے کہ اگر ہم اقوامِ عالم کے نظامِ تعلیم اور ان کے ہاں
رائج ذریعہ تعلیم پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے تقریبا تمام
ممالک میں اپنی قومی زبان ہی میں تعلیم دی جا تی ہے۔اگر کہیں انگریزی
پڑھائی بھی جاتی ہے تو اس کی حیثیت ثانوی ہو تی ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کی
تہذیبی اور ثقافتی پہچان بھی اس کی قومی زبان ہی ہو تی ہے اور اس ملک و قوم
کی معاشی، صنعتی اور سماجی ترقی کا دار و مدار بھی اس کی اپنی قومی زبان کے
ہر میدانِ عمل میں استعمال پر ہو تا ہے۔مگر ہمارے ہاں بد قسمتی سے پاکستان
بننے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کا رجحان بڑھتا رہا اعلیٰ ملازمت کے لئے
امتحانات انگریزی زبان میں لئے جانے لگے، اردو بولنے والے کو ان پڑھ سمجھا
جانے لگا، انگریزی بولنے والے کو پڑھا لکھا اور لائق سمجھا جانے
لگا۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں انگریزی کو اہمیت دی جانے لگی ، آج حالت یہ
ہے کہ ہر بچے کے والدین اپنے بچے کو انگلش میڈیم سکول میں پڑھانا چاہتا ہے
کیونکہ بہتر ملازمت کے لئے انگریزی سمجھنا اوربولنا لازمی ہے۔پاکستانی
معاشرہ چونکہ دو طبقاتی معاشرہ ہے۔ امراء اور غرباء دو طبقوں میں بٹا ہوا
ہوا ہے ۔امراء انگلش میڈیم اپنا کر غرباء پر اپنا دستِ فضیلت قائم رکھنا
چاہتا ہے لہذا انگریزی زبان کو بھی فضیلت عطا کی گئی اور پھر معیاری انگلش
میڈیم کی تعلیمی اداروں کی فیسیں اتنی زیادہ رکھی گئیں ہیں کہ غریب کا بچہ
وہاں پڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ غریب کا بچہ انگریزی سیکھتے سیکھتے اپنی
قومی زبان بھی بھول جاتا ہے اور وہ بات ہو جاتی ہے کہ ’’کو اّ مور چال
سیکھنے گیا ، اپنی بھی بھلا بیٹھا ‘‘
خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت شاید یہ سوچ کر انگریزی زبان کو
سرکاری اسکولوں میں ذریعہ تعلیم بنا رہی ہے کہ تعلیم میں یکسانیت آجائے یا
یہ کہ غریب کا بچہ بھی انگریزی پڑھ کر ترقی کر لے اور احساسِ کمتری کا شکار
نہ ہو۔ لیکن انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے سے جو نقصان ہو گا ،شاید اس کا
نہیں سوچا گیا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری ستّر فی صد آبادی دیہاتوں میں
آباد ہے اور دیہاتی اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام خود انگریزی نہیں
جانتے وہ طلباء کو کیا پڑھائیں گے، زبان ایک خاص ماحول کی محتاج ہو تی ہے
اور دیہاتوں کا ماحول انگریزی مخالف ماحول ہے ، وہاں انگریزی زبان کسی صورت
میں پنپ نہیں سکتی۔اسکولوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم ہو گی تو طلبا ء میں
رہہا سہا اعتماد بھی متزلزل ہو جائے گا۔قومی زبان اعتماد کا مظہر ہو تی
ہے۔اعتماد طالبعلم کے اندر تب پیدا ہو تا ہے، جب وہ اپنی بات اور اپنا ما
فی الضمیر کھل کر بیان کر سکے اور بولتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ
کرے۔انگریزی زبان کے حق میں بولنے والے عموما یہ دلیل دیتے ہیں کہ انگریزی
بین الاقوامی زبان ہے اور ملک میں بین الاقوامی زبان پڑھانا ضرورت ہو تی ہے
یایہ کہ بعض مضامین صرف انگریزی میں پڑھائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں
بودی دلائل ہیں، ضرورت کس لئے ؟ صرف اس لئے، کہ دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی
و تجارتی روابط کی ضرورت ہو تی ہے ورنہ اندرونِ ملک تمام ادارے تو
پاکستانیوں کے ہیں جن کی زبان اردو ہے، ان کی شناخت اردو ہے،کسی بھی قوم کا
فرد آپ دیکھیں، وہ جو زبان بولتا ہے اسی سے اس کی شناخت ہو تی ہے،ہم کسی کی
گفتگو سنتے ہین تو فورا اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کون ہے ، اسی طرح زبان کے
ساتھ اس قوم کی تہذیب و ثقافت بھی منسلک ہو تی ہے تو ہم کیونکر اپنی قومی
زبان کو کو چھوڑ کر انگریزی کو ذریعہ تعلیم بطورِ تدریسی زبان اپنا کر تیتر
بنیں نہ بٹیر۔کیوں نہ ہم اپنے بچون کو اس زبان میں تعلیم دیں جو وہ سمجھ
سکتے ہوں ، ہمارا تو مذہب بھی ہمیں یہی سکھلاتا ہے کہ جب کسی کو سمجھانا ہو
تو اس کو اپنی زبان میں سمجھایا جائے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے (ترجمہ) ’’ہم
جب بھی کو ئی رسول بھیجتے ہیں تو اس قوم ہی کی زبان میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ
وضاحت کے ساتھ اﷲ کا پیغام ان تک پہنچائے ‘‘ گویا دین اور دنیا دونوں اس
بات کے متقاضی ہیں کہ طلباء کو اس زبان میں تعلیم دی جائے جو اسے آسانی سے
سمجھتا ہو۔68سال گزرنے کے باوجود ہمارا تعلیمی معیار کیوں پست ہے؟ اس کی
وجہ یہی ہے کہ ہم نے ذریعہ تعلیم کے حوالہ سے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور
نہیں کیا ،اگر کیا بھی ہے تو طبقاتی مفادات کے پیش نظر حق و انصاف کا فیصلہ
نہیں کیا ۔ہماری ساری تعلیم اس لئے ناقص ہے کہ وہ طالب علم کے ذہن میں
اترنے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے۔دنیا کی
کسی قوم کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی جس نے اپنی زبان کے علاوہ کسی اور
زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر حقیقی معنوں میں ترقی ی ہو یا جہاں شرح خواندگی
سو فیصد ہو ۔بین الاقومی زبان یعنی انگریزی کو سیکھنا،اس پر عبور حاصل کرنا
کو ئی بری بات نہیں مگر اسے ذریعہ تعلیم بنانا ایک تباہ کن اور منفی عمل
ہے۔لہذا مناسب ہو گا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور دیگر تمام صوبے انگریزی کو
’’ذریعہ تعلیم ‘‘ بنانے کے بجائے اپنی قومی زبان اردو کو ذریعہ تعلیم
بنائیں۔کیونکہ اپنی زبان کو چھوڑنا اور دوسروں کے زبان پر فریفتہ ہونا قومی
غیرت و حمیت سے عاری ہو نے کے مترادف ہے۔ |
|