پاکستانی ڈراموں میں ریپ کے مناظر
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
ایک سال کے عرصے میں ایک کے بعد ایک کم و بیش چار ایسے ٹی وی ڈرامے پیش کیے گئے ہیں جن میں ریپ کے مناظر شامل تھے۔
نام نہاد تفریحی چینلز جس طرح شرم و حیا کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ مارننگ شوز کے نام پر بے ہودگی کا بازار گرم کردیا جاتا ہے۔ |
|
|
پاکستان میں پرائیوٹ چینلز کے آنے کے بعد
ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کو ئی موثر نظام نہیں ہے۔ چاہے وہ نیوز چینل ہوں
یا تفریحی چینلز۔ صورتحال یہ ہے جس کا جو دل چاہتا ہے وہ بلا روک ٹوک اس پر
پروگرام بنا کر دکھا دیتا ہے۔ نیوز چینلز جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں، کسی
بھی غیر اہم واقعے کو اہم ترین بنا دیں اور کسی اہم ترین واقعے کو سرے سے
گول کردیں، کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ اسی طرح نام نہاد تفریحی چینلز
جس طرح شرم و حیا کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
مارننگ شوز کے نام پر بے ہودگی کا بازار گرم کردیا جاتا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ تھیں اب قوم کو ایک اور چیز کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
وہ ہے پاکستانی ڈراموں میں بڑھتے ہوئے زیادتی RAPE کے مناظر۔ ایک سال کے
عرصے میں ایک کے بعد ایک کم و بیش چار ایسے ٹی وی ڈرامے پیش کیے گئے ہیں جن
میں ریپ کے مناظر شامل تھے۔ ان میں سے دو ختم ہوچکے ہیں جب کہ دو ڈرامے
ابھی جارہی ہیں۔ جو ختم ہوچکے ہیں ان میں ’’ چپ رہو‘‘ اور ’’عشق پرست ‘‘
شامل ہیں۔جو ڈرامے اس وقت آن ائر ہیں ان کا نام میں قصداً نہیں لکھ رہا
۔اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے ڈرامے ایک ہی چینل پر پیش کیے گئے ہیں، جس کے
باعث ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ چینل باقاعدہ کسی ایجنڈے کے تحت
ایسے ڈرامے بنا رہا ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسی چینل پر انتہائی بے ہودہ
اور لچر ڈرامے پیش کیے جاچکے ہیں جن میں ’’قدوسی صاحب کی بیوہ ‘‘ ’’برنس
روڈ کی نیلو فر‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ مذکورہ بالا ڈراموں میں بظاہر تو انتہائی
تہذیب و شرافت دکھائی گئی ہے لیکن در حقیقت معاشرے میں لچر پن کو فروغ دیا
گیا ہے۔
میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان ڈراموں کا مقصد کیا ہے؟
ایک ہی چینل ایسے مسلسل ایسے ڈرامے کیوں پیش کررہا ہے؟ اس کے پیچھے کیا سوچ
کارفرما ہے؟ اگر ذہن پر ذرا سا زور دیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ جی ہاں
ان تمام ڈراموں کا مقصد میری اور آپ کی ، میرے اور آپ کے گھر والوں کی،
میری اور آپ کی بہنوں، بیٹیوں اور گھر کی عفت ماب بیٹیوں کی شرم و حیا کو
ختم کرنا ہے۔ معاشرے میں بے شرمی اور بے حیائی کو اتنا عام کرنا ہے کہ لوگ
اس کو کوئی بہت بری چیز سمجھنے کے بجائے ایک معمول کی چیز سمجھیں ۔میں اپنی
بات کو ایک اور طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
بر صغیر میں جب فلم سازی کا آغاز ہوا تو کچھ عرصے تک تو یہ صورتحال تھی کہ
کوئی خاتون فلم انڈسٹری میں آنے کے لیے تیار نہ ہوتی تھی، اس لیےفلموں میں
عورت کا کردار بھی مرد ہی ادا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ خواتین کا اس
طرف رجحان ہوا لیکن ابتدا میں فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے والی خواتین ایک
مخصوص پس منظر سے تعلق رکھتی تھیں۔ عام گھرانوں کی خواتین اس میں کام کرنا
انتہائی معیوب سمجھتی تھیں۔پھر آہستہ آہستہ عام گھرانوں کی خواتین نے بھی
اس جانب رخ کیا۔ ابتدا میں جب فلمیں بنائی جاتی تھیں تو ان میں سماجی مسائل
اور گھریلو کہانیوں کو استعمال کیا جاتا تھا، ان میں عشق و محبت ایک ثانوی
حیثیت رکھتا تھا، بنیادی طور پر کسی سماجی یا گھریلو مسئلے پر فلم بنائی
جاتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ سماجی موضوعات پس منظر میں چلے گئے اور محض
عشق و محبت ، تفریح اور لچر پن پر مبنی فلمیں بنائی جانے لگیں۔ ابتدا میں
فلموں میں دکھائی جانے والی خواتین نہ صرف مکمل لباس بلکہ سر پر دوپٹہ اور
گھونگٹ وغیرہ بھی دکھا یا جاتا تھا، پھر پہلے دوپٹہ غائب ہوا، اس کے بعد
کپڑوں کا سائز کم ہوتا گیا، ہیروئن شلوار قمیص، ساڑھی سے ہٹ کر پینٹ شرٹ،
پھر سکرٹ اور ٹی شرٹ، اس کے بعد منی اسکرٹ اور اب صورتحال یہ ہے کہ مختصر
بلائوز اور انڈر وئیر میں ملبوس ہیروئن سکرین پر ہیرو کے ساتھ بوس و کنار
میں مشغول یا سڑکوں اور کلبوں میں رقص کررہی ہوتی ہے۔
ابتدا میں جب کسی فلم میں ہیروئن کی شلوار پنڈلی تک پہنچتی تھی یا اس کا
لباس چست ہوتا تھا، تو لوگ ایسی فلمیں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے
ہوئے شرماتے تھے، لوگ فلم منگوانے سے پہلے ویڈیو سینٹر والے سے پوچھا کرتے
تھے کہ ’’ بھائی اس میں کوئی ایسا ویسا سین تو نہیں ہے؟ گھر والوں کے ساتھ
بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں نا!‘‘ لیکن اب مختصر بلائوز اور انڈروئیر میں ملبوس
ہیروئن ، خواب گاہ کے مناظر، بوس کنار اور شہوت انگیز مناظر سے بھر پور
فلمیں کیبل کے ذریعے دکھائی جارہی ہیں اور تمام گھر والے ساتھ بیٹھ کر نہ
صرف ایسی فلمیں دیکھ رہے ہیں بلکہ ان پر تبصرہ بھی کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ
ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے مناظر دکھا کر لوگوں کو عادی بنا لیا گیا ہے۔
اب یہی کام ٹی وی چینلز بھی کررہے ہیں۔وہ ایسے مناظر دکھا دکھا کر لوگوں کو
عادی بنا رہے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ لوگ سمجھیں گے یہ کوئی ایسی بری بات
نہیں ہے۔ شرم و حیا کا پردہ چاک کیا جارہا ہے۔ رشتو ں تقدس پامال کیا جارہا
ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پیمرا کو خط لکھیے۔ اخبارات کو
مراسلے بھیجیں، بلاگز لکھیں، جہاں جہاں آ پ کی رسائی ہے، وہاں اس کے خلاف
آواز اٹھائیں تاکہ اس سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکے۔۔ |
|