بہت اہم معاملہ ہے کہ بھارتی فلموں کی
پاکستان میں درآمد پر پابندی ہے تاہم حکومت ایک خاص قانون کے تحت کچھ فلموں
کی درآمد کی اجازت دے دیتی ہے ۔ اس کے لئے وزارت اطلاعات و نشریات ، منسٹری
آف کامرس کو ایک خط لکھتی ہے اور اس خط میں منسٹری آف کامرس سے درخواست کی
جاتی ہے کہ درآمد کندہ کو فلاں فلم امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی جائے ۔ اس
طرح بھارتی فلموں کی ملک میں درآمد پر عائد پابندی عارضی طور پر نرم کرکے
درآمد کندگان کو فلم بھارت سے پاکستان لانے کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس کام
میں اب چونکہ بڑے بڑے میڈیا گروپس اپنے قدم جما چکے ہیں لہذا اب بھارت سے
مجموعی طور پر سال میں 25سے 30فلمیں درآمد کی جانے لگیں ہیں جو یقینا
کروڑوں روپے کا بزنس کرتی ہیں۔جبکہ دوسری طرف امریکہ ، انگلینڈ، آسٹریلیا ،
جاپان اور دیگر ممالک سے بھی فلمیں پاکستان درآمد کی جاتی ہیں تاہم اردو یا
ہندی کے علاوہ کسی بھی زبان کی فلم پاکستان درآمد کرنے پر کوئی پابندی نہیں
بشرطیکہ اس میں پاکستان مخالف یا اسلام مخالف کوئی مٹیریل نہ ہو۔ مجموعی
طور پر اردو یا ہندی کے علاوہ پاکستان میں درآمد کی جانے والی فلموں کی
تعداد سالانہ 70سے 80کے درمیان ہے۔میرے لئے یہ انکشاف بہت زیادہ حیر ت کا
باعث تھا کہ بھارت سمیت بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی فلموں پر فی میٹر
کے کسٹم ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے اور فلم کے مجموعی میٹر کا اندازہ فلم کے
دورانیہ سے کیا جاتا ہے۔ یہ انکشاف میرے بزنس پلس کے پروگرام دی پلس میں
فلم ’’مالک ‘‘کے ڈائریکٹر ، رائٹر آشیر عظیم نے کیا کہ جن کی فلم ’’ مالک‘‘
پر ریلیز کے کچھ ہی عرصے بعد پابندی عائد کر دی گئی ، معاملہ عدالت میں گیا
اور اب عدالت نے چند ماہ سے اس حوالے سے فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے۔ آشیر عظیم
نے اس سے بھی زیادہ حیرت ناک بات یہ بتائی کہ بھارت سمیت دنیا کے دیگر
ممالک سے درآمد کی جانے والی ان فلموں پر فی میٹر کسٹم ڈیوٹی صرف پانچ روپے
) Rs 5 only ( وصول کی جاتی ہے۔یعنی اگر کسی فلم کا دورانیہ ایک گھنٹہ
چالیس منٹ ہے تو اس پر صرف 7سے 8ہزار روپے کسٹم ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔ اگر
فلم کا دورانیہ تین گھنٹہ تک ہے تو پھر اس پر کسٹم ڈیوٹی تقریباً 15ہزار
روپے ادا کی جاتی ہے ۔ یہ قانون 2012میں بنایا گیا۔ بھارت سمیت دیگر ممالک
سے درآمد کی گئی فلموں پر عام طور سے درآمد کندگان کروڑوں روپے کماتے
ہیں۔یہ تو بہت واضح ہے کہ یہ غیر منطقی قانون ہے کہ جس کے تحت فلموں کی
پیمائش ممکن ہی نہیں، کیونکہ اب فلمیں 35mm پر یا16mmپر امپورٹ نہیں کی جا
رہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ایک خاص منصوبے کے تحت کیا گیا تاکہ فلموں کے
درآمد کندگان زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ عام طور پر ملک میں درآمد کی
جانے والی اشیا پر اس کی قیمت کے حساب سے کسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے لیکن
فلم کی پروڈکشن کاسٹ کے بجائے کسٹم ڈیوٹی صرف پانچ روپے میڑ وصول کر کے
ملکی خزانے کو کرڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔مثال کے طور پر اگر
ایک بھارتی فلم کی پروڈکشن پر 50کروڑ روپے لاگت آئی ہے توپھر اس پر اسی
اعتبار سے کسٹم ڈیوٹی عائد کی جانی چاہیے کیونکہ ملک میں ایک گاڑی ، کپڑا
یا دیگر اشیاء درآمد کرتے وقت ان کے وزن یا لمبائی کے اعتبار سے ان پر کسٹم
ڈیوٹی وصول نہیں کی جاتی بلکہ کسٹم ڈیوٹی لگاتے وقت ان اشیا کی قیمت کو پیش
نظر رکھا جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح فلموں کی درآمد پر بھی فلم کی پروڈکشن
کاسٹ کے حساب سے کسٹم ڈیوٹی عائد ہونی چاہیے تاکہ ملکی معیشت کی بہتری میں
فلم انڈسٹری اپنا حصہ ڈال سکے۔ 50کروڑ کی فلم پر اگر پانچ فیصد بھی کسٹم
ڈیوٹی عائد کی جائے تو یہ رقم25لاکھ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے اس کا مطلب یہ
ہے کہ سال میں تقریباً 80فلموں کی درآمد پر ملکی خزانے میں 20کروڑ روپے کا
اضافہ ہو سکتا ہے اور غیر ملکی فلموں کے درآمد کندگان ملکی معیشت کی بہتری
میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔یہاں ایک اور اہم معاملہ جو میں اپنے قارئین کے
سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ غیر ملکی فلموں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی نہ ہونے
کے برابر ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی فلمی صنعت کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا
ہے۔ مقامی انوسٹر چار پانچ کروڑ روپے لگا کر فلم بنا تا ہے لیکن اس سے
زیادہ بزنس پانچ روپے میٹر کے حساب سے بھارتی فلم امپورٹ کرنے والا کر
جاتاہے۔ ایسے ماحول میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ یہ
بھی ایک قابل غور بات ہے کہ پاکستان میں تو بھارت کی فلمیں کھلے عام
سینماؤں پر دکھائی جاتی ہیں لیکن بھارت کی حکومت کی طرف سے اجازت کے باوجود
انڈیا میں کوئی بھی سینما گھر پاکستانی فلموں کی نمائش کرنے کے لئے تیار
نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی سینما گھروں کے مالکان کو خوف ہوتا ہے کہ اگر
بھارتی سینماؤں میں پاکستان کی فلم لگی تو سینما جلا دیا جائے گا۔ یہ الگ
بحث ہے کہ آیا یہ بھارتی حکومت کی دانستہ حکمت عملی ہے کہ ایک طرف تو
پاکستان کی فلمیں بھارت میں دکھانے کی اجازت دو اور دوسری طرف ایسے حالات
برقرار رکھو کہ پاکستان کی فلمیں بھارت میں نہ دکھائی جا سکیں، لیکن اس بحث
کے باوجود کیا یہ صورت حال پاکستان کی حکومت اور عوام کے لئے لمحہ فکریہ
نہیں؟ |