سماجی شعور کی کمی

پاکستانی قوم لاتعداد مسائل کا شکار ہے۔قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک اس قوم کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ ہر مسلہ کئی مسائل کو جنم دیتا ہے۔مسائل کا ادراک نہ کرنا اور پھر ان کے حل کے لیے کوششیں نہ کرنا بھی مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس وقت دہشت گردی اس قوم کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔تونائی بحران،تعلیم و صحت کے مسائل،خوراک و رہائش کی سہولتوں کا فقدان،امن و امان کی مخدوش صورتِ حال ،غیر ریاستی عناصر کی فتنہ انگیزیاں،بیرونی دنیاکا ملک کے اندر خلفشار پھیلانا ،انصاف کی عدم فراہمی اور نااہل قیادت اس قوم کے بڑے مسائل میں شامل ہیں۔ان وجوہات کو تلاش کرنا بھی ضروری ہے جن کی بدولت یہ مسائل پیدا ہوئے۔

1947میں برصغیر کی تقسیم ہوئی اور ایک نیا ملک پاکستان بنا۔اس وقت ہر چیز کا بٹوارا ہوا۔ علاقہ، صنعتیں،فوجی ساز وسامان،خزانہ ،مال اسباب اور لوگ جو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آئے۔لیکن ایک چیزجو تقسیم نہ ہوسکی وہ تاریخ ہے۔آپ تاریخ کو تقسیم نہیں کر سکتے ہیں۔کیونکہ تاریخ نام کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔اس کا تعلق تہذیب و تمدن سے بھی ہوتا ہے۔تقسیم کے وقت ایک ہی نیا ملک بنا اور وہ پاکستان تھا۔بھارت صدیوں سے موجود تھا لہذا تاریخ اور تاریخی ورثہ اس کے ہی حصہ میں آیا ۔ بھارت کی تاریخ حملہ آوروں کی تاریخ ہے۔وہ ان ہی حملہ آوروں کی تاریخ کے ساتھ جڑا رہا ہے۔ہم بھی اسے اپنی ہی تاریخ سمجھتے رہے اور اب تک خود کو اسی تاریخ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے قوموں کی شناخت جغرافیائی ہوا کرتی ہے اور ہر جغرافیہ کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔ہم نے اپنی تہذیب کو نہ پڑھا ہے اور نہ ہی اس سے کچھ حاصل کیا ہے۔ہڑپہ،موہنجوداڑو اور سندھی تہذیب کے اعتبار سے یہ الگ خطہ رہا ہے۔ہم نے کبھی بھی ان تہذیبوں کے ساتھ خود کو منسلک نہیں کیا ہے۔جب ہم اپنی تہذیب اور تاریخ کے ساتھ متمسک نہیں رہے تو ہماری اپنی سوچ اور فکر پیدا ہی نہ ہو سکی اور نہ ہی بطورِ پاکستانی قوم ہمارا اپنا کوئی نظریہ پروان چڑھ سکا اور نہ ہی سماجی شعور میں پختگی نظر آئی۔سماجی شعور میں کمی نے قوم کو مختلف حصوں میں بانٹ دیا اور کئی سوچوں کو پروان چڑھایا۔قوم میں فکری اور نظریاتی تقسیم نے مسائل کو جنم دیا۔سماجی شعور میں کمی کی بدولت جب قوم مختلف افکار میں تقسیم ہوئی تو اس کے حق و باطل کے معیار میں بھی تضاد آگیا۔قوم کا ایک طبقہ جسے اچھائی سمجھنے لگا دوسرے کے نزدیک وہی چیز بری قرار دی جانے لگی۔اچھے اور برے طالبان کی بحث بھی سماجی شعور کی کمی کا نتیجہ ہے۔

اب تک پاکستانی ریاست یہ طے ہی نہیں کر پائی کہ اسے کیسا ہونا ہے۔11اگست 1947کی قائداعظم کی تقریر نے پاکستانی ریاست کے خدو خال کو واضح کر دیا تھا۔ وہ اسے جدید فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔بدقسمتی سے شروع دن سے ہی پاکستانی مقتدرہ نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے جمہوری افکار اور روایات کو پامال کیا ہے۔انہوں نے اپنے مقاصد کے لیے مذہبی افکار کا غلط استعمال کیا۔قوم کو مذہب کے نام پر تقسیم کیا۔فرقہ واریت کو ہوا دی۔جب اندر کے لوگوں نے یہ کام کیا تو باہر کا دشمن بھی سرگرم ہوا۔اس نے بھی اپنے مقاصد کے لیے اسی طرح کے عوامل کو ہوا دی۔1979کی افغان جنگ نے پاکستانی قوم کے اجتماعی شعور کو بھی بہت نقصان پہنچایا ۔ملک میں اسلام کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا گیا ساتھ ہی فرقہ واریت کو بھی ہوا دی گئی۔قوم کو تقسیم کرنے اور آمریت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ سب منظم انداز میں کیا گیا۔مذہب اور جمہوریت کو مقابل لا کر کھڑا کر دیا گیا۔اپنی تاریخ اور تہذیب کو غلط انداز میں کہیں اور جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ریاستی اداروں میں سوچ کی تقسیم اب بھی موجود ہے۔ ایک طرف مولانا طارق جمیل کے خطابات پر مخصوص مقامات پر پابندی لگائی جاتی ہے اور دوسری طرف دفاعِ پاکستان کونسل میں شامل تمام جماعتوں کو جلسے جلوس منعقد کرنے کی کھلی اجازت دی جاتی ہے۔ریاست ضربِ عضب میں اپنی تمام تر توانیاں اور وسائل بھی صرف کرتی ہے اور حقانی نیٹ ورک کا دفاع بھی کرتی ہے۔

بطورِ قوم ہمیں اپنے اندر سماجی شعور پیدا کرنا ہو گا اور ایک منظم سوچ پر اکٹھا ہونا ہوگا۔جب قوم کی سوچ اور فکر ایک ہو گی تب ریاست بھی ایک جانب سفر کر پائے گی اور اس کے ادارے بھی اس قوم کی سوچ کے مطابق پالیسیاں بنا پائیں گے۔ہم اپنے مسائل پر اسی ذریعے سے قابو پا سکتے ہیں۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61611 views i am columnist and write on national and international issues... View More