باہمی اختلاف و انتشار
(Syed Muhammad Ishtiaq, Karachi)
حدیث مبارکہ ہے کہ اس امّت کا اوّل
حصّہ بہترین لوگوں کا ہے اور پچھلا حصہ بدترین لوگوں کا ہوگا جن کے درمیان
باہمی اختلاف و انتشار کار فرماہوگاپس جو شخص اﷲ تعالی اور آخرت کے دن پر
یقین رکھتا ہواس کی موت اس حالت پر آنی چاہئے کہ وہ لوگوں سے وہی سلوک کرتا
ہو جسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ فی زمانہ باہمی اختلاف و انتشار ہر طبقے
اور ہر سطح پر پایا جاتا ہے۔اگر ہم گھریلو معاشرت کا ہی جائزہ لیں تو یہ
حقیقت سامنے آتی ہے کہ ماں باپ، میاں بیوی ،بیٹی بیٹے اوربھائی بہن میں وہ
پہلی سی محبت و الفت مفقود ہے جو دین اسلام کاتقاضا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ
انا پرستی اور بڑے چھوٹے کے فرق کی تمیز کا ختم ہوجانا ہے۔ماں باپ معاشی
مجبوریوں اور ذمہ داریوں کے باعث بچوں کی وہ تربیت کرنے سے قاصر ہیں جس کی
ابتدائی طور پر بچوں کو ضرورت ہوتی ہے۔مدرسے ، اسکول،کالج یایونیورسٹی سے
تعلیم تو حاصل کرلیتا ہے جو اس کو روزگار کے مواقع تو فراہم کرتی ہے
لیکن اس دوڑ میں بچے کے دل سے ماں باپ کی محبت و اہمیت کم ہو جاتی ہے
کیونکہ اس کا مطمع نظر اعلی تعلیم حاصل کرکے اچھا روزگارہوتا ہے۔بچے جب
زندگی کی اس دوڑ میں ماں باپ کو وقت نہیں دے پاتے تو اختلافات جنم پاتے ہیں
انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اکثر ان حالات میں کنبے کا شیرازہ بکھر
جاتا ہے۔ماں باپ اور بچے اناپرستی کے خول میں مقید ہوکر ان خوبصورت رشتوں
کو تہہ وبالا کردیتے ہیں ۔جب بچوں کے دل سے ماں باپ کی قدر نکل جاتی ہے تو
اس کا اثر دیگر رشتوں پر بھی پڑتا ہے ۔میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیوں
کی مانند ہوتے ہیں ان کے آپس کے اختلافات بھی بچوں کی نشونما اور تربیت پر
اثر انداز ہوتے ہیں بچے جب یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپس میں بہن
بھائی بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں۔بڑے ہوکر یہ
اختلافات بعض دفعہ شدید نوعیت کے بھی ہوجاتے ہیں اور گھریلو اختلافات اور
تباہی کے اثرات مجموعی معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کیونکہ معاشرہ فرد سے
جنم لیتا ہے اس لئے جس شخص کے دل میں سے مقدس رشتوں کی حرمت نکل گئی ہو وہ
معاشرے کے لئے کارآمد شہری کیسے ثابت ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ چاہے پڑوس
ہو،محلہ ہو،دفتر ہو یا کاروباری مراکزذرا سے اختلاف پر لوگ ایک دوسرے کو
برداشت نہں کرپاتے اور اختلاف ذرا سا بڑھ جائے تو باہم دست و گریبان ہونے
میں بھی دیر نہیں لگاتے اور بعض دفعہ تو نوبت قتل و غارت گری تک جا پہنچتی
ہے۔ہمارے حکمراں بھی کیونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں اس لئے میدان سیاست میں
بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔اختلاف برائے اختلاف اور تنقید برائے تنقید کو
سیاست کا حسن سمجھتے ہیں اور ساری توانائیاں اسی پر خرچ کردیتے ہیں اس لئے
عوام کے مسائل حل کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔عوام اپنے انفرادی
اور اجتماعی مسائل میں اس قدر گھرے ہوئے ہیں کہ حکمرانوں کے احتساب سے غافل
ہیں۔اختلافات چاہے گھریلو سطح پر ہوں ،عام معاشرے میں پائے جانے والے ہوں
یا سیاسی اس کی اصل وجہ انا پرستی کا وہ خول ہے جو ہم نے دانستہ اپنے اوپر
چڑھایا ہواہے اور اس سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ
اختلاف و انتشار کا شکار ہے۔اس کا سدباب اسی طرح ممکن ہے جیسا کے حدیث میں
بتلایا گیا ہے کہ ہم لوگوں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا کے اپنے لئے پسند
کرتے ہیں۔ |
|