محبت کیا ہے؟ایسا ہی سوال ہے جیسے کو ئی
پوچھ لے کائنات کیا ہے؟محبت پہ بولنا یا لکھنا آسان نہیں معذرت میں اپنے
الفاط واپس لیتی ہوں محبت پہ محض بولنا اور لکھنا بات کر لینا ہی آسان ہے
محبت کو سمجھنا اور سمجھاناآسان نہیں محبت کی معرفت حاصل کرنا کسی معراج پہ
پہنچنے کے مترادف ہے۔ لفظ محبت ایک سمندر ہے اور اس کاہر اک حرف ایک الگ ہی
سمندر ہے۔م،ح،ب،ت کیا ہیں ؟دیکھیں تو حروف مگر ہر ایک حرف الگ دنیا الگ
جہان اور ہر حرف کی ایک الگ ہی تفسیرلئے ہے ۔محبت کی م معرفت ، ح میں حقیقت
،ب میں بشارت اور ت ایک تہذیب کا نام ہے۔ محبت کی پہلی سیڑھی کا نام ہی
معرفت ہے اور معرفت کو پا لینا کوئی آسان کام نہیں یہ معرفت انھی لوگوں پر
عیاں ہوتی ہے جہنیں اللہ تعالیٰ بزرگ و بر تر نے اس نعمت کے عرفان کو پانے
کا ظرف بخشا ہوتا ہے۔میرے جیسی عام سی کوئی گنہگار اگراس کی معرفت کی
متلاشی ہو جائے تو ممکن ہے وہ اسکا عرفان برداشت نہ کر پائے پاگل ہو جائے ۔مگر
معرفت محبت کی تلاش میں نکلنا بھی اک عنائیت ہے،اک نعمت ہے،اک عطا ہے جس کے
قابل ہم ہرگز نہ تھے ۔مگر یہ تو اُس کی نعمت جو ہوئی، جس طرح بہت سی ان گنت
نعمتیں ہیں سوچا جائے تو ہم تو کسی ایک کے قابل بھی نہیں۔ حقیقی معرفت
انھیں پہ عیاں ہوتی ہے جہنیں خدا کی ذات سے محبت ہو جائے،جی خدا کی ذات سے
محبت گو کے ہر محبت کی حقیقت کا تعلق اس نعمت کبریٰ کے خالق، خالقِ کبریاسے
ہے مگر ذاتِ خدا کی محبت اُس کی عطاؤں کی انتہا ہے جسکی کوئی انتہا
نہیں۔اسکی تخلیقات سے محبت بھی اُسی سے محبت کا نام ہے ۔وہ لامحدود ہے اس
کی صفات ان گنت ہیں اس طرح دنیا میں عطاء محبت کی بھی بے شمار اقسام ہیں
مگر یاد رہے خالق کے سامنے سر تسلیم کئے بغیر تخلیق سے محبت یونہی ہے جیسے
رازق کو مانے بغیر رزق سے محبت مگر وہ محبت نہیں وہ لالچ ہے ،حرس ہے ہوس ہے
یہ سب گناہ ہیں اور محبت عبادت کا نام ہے۔
میں نے سوچا تو خود کو بے بس پایا ،کیونکہ میری سوچ انتہائی محدود اور یہ
ایک لامحدود سفر کا نام ہے ،،لاحاصل سفر،بے منزل سفر، محبت کسی حصول کا نام
نہیں مگر حصول محبت کے بعد گویا سب کچھ ہی حاصل ہو جاتا ہے پھر کوئی تمنا ،کوئی
خواہش کوئی حسرت ،کوئی آرزو باقی نہیں رہتی۔یہ ایک سفر ہے ریاضت ہے بس صرف
چلنا ہے کو ئی انتہا کوئی منزل نہیں مگر پھر بھی جس کو محبت عطاء ہو جائے
وہ ایسی منزل پہ پہنچ جاتا ہے جہاں وہ منزل سے بے نیاز ہو جاتا ہے وہ مقام
جہاں انسان شعورِ بندگی حاصل کر لیتا ہے ۔ بندگی کے اس مقام پر پہنچنا بڑے
ہی مقام کی بات ہے۔
جیسے انسان محبت کے معاملے میں بے بس اور بے اختیار ہوتا ہے اسی طرح اسے
جاننے کو کوشش کرنے پر بھی انسان خود کو بے بس و بے اختیار پاتاہے۔میرے
نزدیک خود کو بیچ دینے کا نام بلکہ یوں کہوں کے کسی ہاتھ بک جانے کا نام
محبت ہے ۔کیسا ہی پاگل ہے وہ انسان جو کوئی شے کسی کے ہاتھ بیچ دے اور پھر
اُسے اس شے کی فکر کرنے کی درخواستیں کرتا پھرے ۔کوئی شے جب بک جاتی ہے تو
اس پہ اختیارباقی نہیں رہتا پھر خریدنے والا چاہے تو اسکی فکر کرے اور چاہے
تو اسے غرق کرے یہ اس کا معاملہ ہے وہ جیسا چاہے ،جو چاہے سب اختیار اس کے
ہیں ۔وہ مالک جو ہوا ۔جس سے محبت ہو جائے وہ مالک ہو تا ہے ،حاکم ہوتاہے،
انسان بے اختیارو محکوم ہوتاہے ۔مالک وحاکم تو صرف اللہ پاک کی ذات ہی ہے
مگر اس کی تخلیقات سے محبت اسی کی محبت کا نام ہے ۔یہ سب مراحل ہیں ،مقام
ہیں ،مراتب ہیں پھر جا کے اسکی ذات سے محبت کا مقام آتا ہے۔وہ ایک بلند
مقام ہے مگر وہ انتہا نہیں ہے- کیونکہ محبت کی کوئی انتہا نہیں- جس طرح
اللہ پاک کی ذات کبریا انتہا سے مبراء ہے یونہی اس کی محبت بھی ۔گو کہ میں
اس کی ایک صفت خالق کے ایک مظہر سے محبت کے قابل بھی نہیں ہوں مگر پھر بھی
اللہ سے دعا ہے کہ مجھے اپنی ذات۔۔۔۔ اللہ----! میں اس قابل کہاں ہو سکتی
ہوں بس تیری ذات سے دعا ہے جو عطا کیا ہے اسی کی معرفت عطا فرما،اس پہ شکر
ادا کرنے کی توفیق عطا فرما (آمین)
مالک تیری اس نعمت کو بیاں کرنے کی کوشش میں مجھ سے جو غلطیاں سر زد ہو ئی
مجھے اسکی بازپرس نہ کرنا ،اس کی پکڑ نہ کرنا معاف فرما دینا ۔۔۔۔(آمین
یارَب العَالَمین |