پنجاب کی شاندار صورتحال

میں بنک میں بیٹھا تھا۔ اپنی بیٹی کو انگلینڈ معمولی سی رقم بھجوانی تھی۔ بنک والا ایک لمبی لسٹ نکال رہا تھا کہ پیسے بھیجنے کے لئے کون کون سے فارم مجھے بھرنے ہونگے۔ یہاں تک تو ٹھیک مگرکچھ فارم بیٹی کو بھیجنا تھے کہ وہ بھر کر بھیجے ان کے ہمراہ گھر کے یوٹیلٹی بل بھی بھیجے۔ بھاری بھرکم ٹیکس بھی ادا کرنا تھا۔مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ رقم ملک سے باہر بھیجنے کے لئے نواز شریف ہونا ضروری ہے۔ عام آدمی کے لئے یہ ساری مشقت ممکن ہی نہیں۔ اسحاق ڈار صاحب کے بنائے ضابطے بس یوں ہیں کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔میں مایوسی کے عالم میں بنک کے آپریشن مینجر سے معلومات کا تبادلہ کر رہا تھاکہ یکایک بنک کی ایک نوجوان خاتون افسر روتی اور چیخیں مارتی اوپر والی منزل سے اتر کر نیچے آئی۔ اک ہجوم اس کے گرد اکٹھا ہو گیا کہ معلوم کرے کیا ہوا ہے۔ خاتون انتہائی گبھرائی ہوئی تھی۔پتہ چلا کہ وہ اپنی جس بہن کے ساتھ رہتی ہے وہ بہن اپنے بچوں کو سکول لینے گئی ہے تو اس کے بچے غائب ہیں۔ فوری طور پر بنک کا ایک آفیسر اپنی گاڑی پر اسے لے کر اس کے گھر صحیح صورت حال پتہ کرنے چلا گیا ۔ اب بنک میں عملہ اور کوئی پندرہ آدمی موجود تھے۔ ہر شخص کے پاس بچے اغوا کی ایک نئی داستان تھی صرف اغوا ہی نہیں ، بچوں کو قتل کرنے اور ان کے اعضا بیچنے کی باتیں جاری تھیں۔ چند عورتوں کے اغوا کی باتیں بھی کر رہے تھے۔ہر شخص دعوی کر رہا تھا کہ کہ جو داستان وہ سنا رہا ہے اس کا چشم دید گواہ ہے۔ایسی باتیں سن کر ماحول میں پوری طرح خوف و ہراس چھایا تھا۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد میں ابھی وہیں تھا کہ خاتون کے ساتھ جانے والا افسر واپس آ گیا پتہ چلا کہ و ہ لوگ کسی ویگن والے سے بچوں کو لے جانے اور واپس لانے کی بات کر رہے تھے۔ویگن والا بات چیت مکمل کئے بغیر ہی بچوں کو سکول سے لے کر گھر چھوڑ گیا ۔اسی دوران ماں سکول پہنچی اور بچوں کو سکول نہ پا گھر بتایا اور یوں گھر والے پریشان ہو گئے ۔ اطلاع ملنے پرخاتون نے جس وقت شور مچایااس وقت جو لوگ موجود تھے وہ سارے جا چکے تھے۔ انہیں آخری صورتحال کا پتہ نہیں تھا۔ وہ جہاں جائیں گے بچے اغوا ہونے کی ہی بات کریں گے۔یوں ہراس کی کیفیت پھیلے گی، لوگوں کی مایوسی میں اضافہ ہو گا۔

بچوں کے گم ہونے کی پہلی اطلاع اور مل جانے کی دوسری اطلاع کے درمیان بنک میں اک سوگ کا سماں تھا۔ لوگ اس قدر پریشان تھے کہ اس پریشانی کا لفظوں میں احاطہ ممکن نہیں۔کوئی اغوا کاروں کو گالیاں دے رہا تھا تو کوئی حکومت کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ داستانیں بھی بہت تھیں۔داستانیں تو خیر اپنی جگہ پولیس نے خود اقرار کیا ہے کہ سال 2016 کے پہلے سات ماہ میں اغوا کے 767 کیس رجسٹرہوئے جن میں سے زیادہ تر اغوا ہونے والے بازیاب کرا لئے گئے۔ 767 کیس رجسڑ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اغوا ہونے والوں کی تعداد یقیناً بہت زیادہ ہو گی کیونکہ پولیس سے مایوس لوگ عام طور پر کیس درج ہی نہیں کراتے۔پنجاب کے وزیر اعلی چند سڑکوں کی تعمیر میں اس قدر مگن ہیں کہ انہیں ابھی اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ اور پنجاب کی افسر شاہی تو موج میں ہے۔ وہ کوئی کام میرٹ سے ہٹ کر نہیں کرتی اور میرٹ وزیر اعلی کا حکم ہے۔گیارہ بجے صبح تک کوئی بڑا افسر اپنے دفتر میں نظر نہیں آتا۔ گیارہ بجے کے بعد چند نظر آتے ہیں اور بقیہ کے سٹاف کے پاس شاندار بہانہ ہوتا ہے کہ وزیر اعلی ہاؤس گئے ہیں۔وزیر اعلی کبھی آٹھ بجے دفتروں کا چکر لگا لیں انہیں پنجاب کی شاندار صورتحال کا پوری طرح اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کے بہترین اورشاندار نظم و نسق کے حوالے سے پچھلے ہفتے ا پنے دوست اور ساتھی پروفیسر کے ساتھ پیش آنے والا ایک تازہ واقعہ بھی یاد آیا۔

پروفیسر صاحب ہمارے دوست ہیں۔ بہت سادہ مزاج اور دھیمی طبیعت ۔ان کے کچھ عزیز کہیں باہر سے پاکستان واپس آ رہے تھے۔ گھر کے سبھی لوگ انہیں لینے کے بعد چار گاڑیوں میں ائرپورٹ سے واپس آ رہے تھے ۔ ان کی منزل لاہور کی مشہور بستی واپڈا ٹاؤن تھی۔ اس وقت صبح کے پونے آٹھ بجے تھے ۔پروفیسر صاحب بڑے سکون سے گاڑی چلا رہے تھے۔ واپڈا ٹاؤن آ چکا تھا۔ گھر قریب تھا۔ ان کے پیچھے خاندان کی دوسری تین گاڑیاں بھی تھیں۔سپیڈ بریکر پر پہنچے تو گاڑی آہستہ کرنی پڑی۔ وہیں ایک بیکری ہے۔ بیکری والوں نے گارڈ رکھے ہوئے ہیں وہ گارڈ بڑے مستعد کھڑے تھے۔ ٹریفک پوری طرح رواں دواں تھی۔ایک سڑک اندر سے آ رہی تھی جیسے ٹی (T)بن جائے۔اس سڑک(T) کے بالکل ساتھ ایک کونے پر گورنمنٹ گرلز کالج کا گیٹ ہے جہاں بچیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ گاڑیاں رکتی، بچیوں کو اتارتی اور واپس جا رہی تھیں ۔کالج کے اس گیٹ پر بھی سرکار کے ملازم گارڈ موجود تھے اور سڑک کا نظارہ کرنے اور بچیوں کو چھوڑنے آنے والی گاڑیوں کو راستہ دکھانے میں مصروف تھے ۔سپیڈ بریکر سے گزرنے کے بعد پروفیسر صاحب کی گاڑ ی اس ٹی (T) کے عین درمیان میں تھی۔ اس سے پہلے کہ پروفیسر صاحب گاڑی آگے بڑھاتے، دو موٹر سائیکلیں یکدم گاڑی کے آگے آ کر رک گئیں۔ چار نوجوان جو ان دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے، تیزی سے اترے۔ ان کے ہاتھوں میں پستول تھے۔ اس مقام پر کیمرے بھی لگے تھے اور کیمرے کی روایتی اندھی آنکھیں انہیں دیکھ بھی رہی تھیں کہ پستول پروفیسر صاحب اور ان کی گاڑی میں بیٹھے ہر شخص پر تنا ہے اور ہر شخص بے بسی میں جو کچھ اس کے پاس ہے ان ڈکیتوں کی نذر کر رہا ہے ۔پروفیسر صاحب کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے آنے والے دوسرے گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بھی ان کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر درمیان میں پستول حائل تھے اسلئے وہ بے بس تھے۔ لوٹنے والے بڑی دلیری سے لوٹ رہے تھے اور کمزور اور بے بس بڑی سادگی سے لٹ رہے تھے۔ ڈکیتوں کو یہ بھی پتہ تھا کہ تمام قیمتی سامان پروفیسر صاحب ہی کی گاڑی میں ہے۔ چند منٹوں میں انہوں نے ہر چیز لوٹی اوریہ جا وہ جا، غائب ہو گئے۔حکومت کے شاندار نظم و نسق کا شاندار مظاہرہ لوگ یوں دیکھ رہے تھے جیسے یوم آزادی کی پریڈ۔
 
ڈاکوؤں کے جاتے ہی ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ بہت سے ہمدرد تھے۔بہت سے غمگسار تھے۔ مفت مشورہ دینے والوں کی بھی کمی نہ تھی کہ آپ کو یوں کرنا چائیے تھایا آپ یہ کرتے تو کمال ہو جاتا۔ جتنے منہ اتنی باتیں، مگر اب ڈھول پیٹنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد پولیس نے آ کر رسمی کاروائی بھی کی ۔ مگر مجھے یقین ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ ملزم پکڑے بھی گئے تو فائدہ تو صرف پولیس کو ہو گا۔ پروفیسر صاحب کے حصے تو صبر اور شکر ہی ہے جو وہ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔پولیس کے نزدیک یہ ایک معمولی سی بات ہے جو کئی لوگوں کے ساتھ روز ہوتی ہے۔ سال 2015 کے دوران صرف لاہور شہر میں سٹریٹ کرائم کی 12353 وارداتیں ہوئیں۔ یہ روزانہ کی پینتیس35) ( وارداتیں بنتی ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق پولیس بمشکل بیس(20) سے (25) فیصد واقعات کی رپورٹ رجسٹر کرتی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو لاہور میں سال (2015) کے دوران پچاس ہزار سے زائد سٹریٹ کرائم کی وارداتیں ہوئیں۔ سال (2016) میں یہ تعداد کافی بڑھ گئی ہے۔ گو پولیس کا دعوی ہے کہ نئی ڈولفن فورس کے سات سو جوانوں کے حرکت میں آنے کے بعد سٹریٹ کرائم میں کمی آئی ہے ۔ ڈولفن نے یقیناً فرق ڈالا ہے ۔ اگر یہ فورس حرکت میں نہ ہوتی تو سٹریٹ کرائم میں سو (100) فیصد اضافہ ہو چکا ہوتا۔ یہ اضافہ رک گیا ہے مگر سال (2015) کی نسبت کمی نظر نہیں آتی۔کہتے ہیں پنجاب کی صورتحال دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہے اور لاہور کی پنجاب کے تمام شہروں سے۔ سوچتا ہوں کہ اگرلاہور میں نظم و نسق کی یہ شاندار صورتحال ہے تو جہاں شاندار نہیں، وہاں تو عوام کابس اﷲ ہی نگہبان ہو گا۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 441405 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More