جب بھی 14 اگست یعنی ہمارا یوم آزادی آتا
ہے تو میرے ذہن کے پردے پہ ایک ہی سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ہی آزاد
ہیں؟
.اور ہم نے سچ مچ وہ آزادی حاصل کر لی ہےجس کا علامہ اقبال اور ہمارے تمام
قائدین ملت نے خواب دیکھا تھا..
لیکن اس سوال کا ہمیشہ یہی جواب ملتا ہے کہ ہم نے صرف جسمانی آزادی حاصل کی
ہے.. ذہن تو ہمارے آج بھی ہمارے آقاؤں کے قبضے میں ہیں..
کیونکہ! ہم آج بھی صاحب بہادر کی شباہت اختیار کر کے ویسا ہی فخر محسوس
کرتے ہیں جیسا ایک غلام اپنےآقا کی نقل کر کے محسوس کرتا ہے. ہم آج بھی
انگلش زبان بولنے کو کامیابی اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی علامت سمجھتے
ہیں..
دو قومی نظریہ تو ہماری قوم کے لیے ایک بوجھ بن چکا ہے-
پڑوسی ملک کے ڈرامے فلمیں اور گانے دیکھ دیکھ کر ان کے فنکاروں سے محبت کا
یہ عالم ہے میرے اکثر ہم وطنوں کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح دونوں ممالک کے
درمیان سے حد فاصل ہٹا دی جاۓ..
ارے ہمیں تو کشمیریوں پہ ڈھاۓ جانے والے ستم بھی نظر آنے کے باوجود دکھائی
نہیں دے رہے. اور اس پر متضاد اقوام عالم کی سرد مہری بھی ہماری آنکھوں سے
پردے سرکانے میں نا کافی ہے..کشمیری بھائی اور بہنیں شائد اس حقیقت سے نا
واقف ہیں کہ جس پاکستان کا آزاد ہو کر وہ حصہ بننا چاہتے ہیں اس کی تو اپنی
آزادی اب تک پایہ ء تکمیل تک پہچنا باقی ہے..
اپنی گاڑیوں پہ یوم آزادی کے دن پاکستان کا قومی پرچم لہراکر انڈین گانے سے
لطف اندوز ہوتے ہوۓ بھلا میرے بھائی دو قومی نظریے کا کیا معنی سمجھتے
ہونگے.. شائد اسی لئے جب بنگال اور پاکستان دو لخت ہوۓ تو گاندهی نے یہ
دلدوز جملہ کہا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں اور قائد اعظم کا دو قومی نظریہ
دفن کر دیا.
جب بھی علامہ اقبال صاحب کا یہ شعر کہیں پڑھتی یا سنتی ہوں کہ
زمانے کے انداز بدلے گئے.
نئے طور ہیں ساز بدلے گئے
تو سوچتی ہوں کہ اگر آج علامہ اقبال ہم میں ہوتے تو یوں فرماتے
غلامی کے انداز بدلے گئے
وہی طور ہیں ساز بدلے گئے
از قلم
بنت عبدالقیوم چشتی |