احساس آزادی

آزادی کسی کی میراث نہیں ہوتی اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے اس کے حصول کے لیے جان و مال کے نذرانے دینے پڑتے ہیں۔ یہ امید ہی تھی جس نے برصغیر کے مسلمانوں میں ہمت پیدا کی،حوصلہ دیا اور یہ اعتماد دیا کہ وہ اپنے کل کو بدل سکتے ہیں،یہ جو آج ہیں وہ کل نہیں ہونگے،یہ غلامی کی زنجیر ٹوٹ جاے گی یہ ظلمت کے ساے چھٹ جائیں گے،غیروں کے تسلط کا سورج غروب ہو جاے گا،نا انصافیوں کی دیوار یں گر جائیں گی اور پھر ایک نئی سحر نمودار ہو گی جس میں انکا اپنا وطن ہو گا،اپنی سر زمیں ہوگی،یہ اپنے ملک کے آپ مالک ہونگے، پھر وہ سحر آئی 14 اگست 1947 جس نے تاریخ رقم کر دی۔مگر آج ہم اس پاک ملک کی تخلیق کے مقصد کو فراموش کر چکے ہیں اس ملک کی فضاؤں میں ہم نے نا اتفاقی،نفرت، ظلم اور تعصب کی وہ روح پھونک دی ہے جس کو آج اتنے سال بیت جانے کے باوجود بھی ہم ختم نہیں کر پاے ،اس ملک کی قدر و قیمت کو ہم نے بھلا دیا ،اس بات کو ہم نے بھلا دیا کہ آزادی کیا ہوتی ہے؟ آزادی کی قدر و قیمت زرا اہل کشمیر سے پوچھئے جو روزانہ نجانے کتنے برھان وانی جیسے نوجوانوں کا لہو پیش کرتا ہے۔ آج ہم یہ بھول گے ہیں ہمارے بڑو ن نے آزادی کے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ آج ملک پر حکومت کرنے والا ہر حکمران صرف اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے آتا ہے اسے ملک کے مفاد ،استحکام و سا لمیت کی کوئی فکر نہیں ۔ آج جو لوگ بڑے فخر سے آزادی پاکستان کا تاج اپنے سروں پر سجاتے ہیں افسوس کہ وہ اس ملک میں اخوت و مساوات کے قیام کا تصور نہیں رکھتے ۔ آج جو قلم اس ملک کی شان میں قصیدے لکھتا ہے وہ قلم جبر،ظلم اور بربریت کے خلاف چلنے سے قاصر ہے۔ ایسا آخر کیوں ہے؟کیوں ہم اس ملک کے استحکام کے لئے کھڑے نہیں ہوتے؟ کیوں ہم حق کا ساتھ نہیں دیتے؟ آخر ہم نا انصافیوں کے خلاف آواز کیون نہیں بلند نہیں کرتے؟ آخر کیوں ہم پاکستان کے لئے جیتے مرتے نہیں؟ آخر کیوں ہم ان معصوم بچوں کے لہو کو بھول گے ہیں؟ آخر کیوں ہم ان نوجوانوں ،بزرگوں اور خواتین کی دی گئی قربانیوں کو بھول گے ہیں؟؟ آخر کب ہم پاکستان کو اخوت،محبت،امن ،بھائی چارہ اور مساوات کا گہوارہ بنائیں گے؟؟ زرا سوچئے تو سہی آزادی کے وقت لوگوں نے جو اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اس ملک کو حاصل کیا تھا تاکہ ہم لوگ غلامی کی زندگی بسر نہ کر سکیں،ہم لوگوں کو غیروں کے سامنے سر نہ جھکانا پڑے۔ مگر ہم نے کیا کیا اس ملک کے ساتھ۔ اس ملک کے حکمران بنے تو اس ملک کو ہی مقروض کر دیا۔اپنے ہی ملک میں پیدا ہونے ہر بچے کو غیروں کا مقروض کر دیا۔اس ملک کے مکینوں کو صاف پانی سے محروم کر دیا۔امیر کو امیر اور غریب کو غریب تر بنا دیا۔امیروں کے لئے الگ اور غریبوں کے لئے الگ قانون بنا دیا۔اعلی صلاحیتوں کے مالک لوگوں کو دور دھکیل کر کے نا اہل لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کر دیا۔ کیا یہی وہ پاکستان ہے جس کا قیام قائد اعظم چاہتے تھے۔ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ جس کی تفسیر لیاقت علی خان نے کی تھی ،وہ ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا،مساوات کے نام پر حاصل کیا تھا آج ہم نے یہاں تعصب پھیلا دیا، بہت ہو گیا اب ہمیں خود اٹھنا ہو گا نا انصافی کے خلاف،جرائم کے خلاف،ظلم کے خلاف ، اس ملک کو ویسا ملک بنانا ہو گا جس کی امنگ قائد اعظم نے کی تھی،جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، ہم سب نے مل کر اس وطن عزیز کو ایسا پرامن ملک بنانا ہے جس پے تمام عالم رشک کرے،ہر شخص فخر کرے۔
بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لئے۔
Tanveer Hussain
About the Author: Tanveer Hussain Read More Articles by Tanveer Hussain: 7 Articles with 14404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.