موبائیل گیمز کی بہتات اور لوڈوگیم کی نحوست پرداعیان ِدین اوراربابِ علم توجہ دیں
(Ata Ur Rehman Noori, India)
اسلام میں ہر معاملے میں شرط حرام ہے ،لوڈوگیم پر چائے ناشتے کی شرط اور روپے لگاکر جُواکھیلناحرام ہے
|
|
اسلام کامل واکمل شریعت اور اعتدال
پسند مذہب ہے۔ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے۔اسلامی نظام کوئی خشک
نظام نہیں جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو بلکہ اسلام
فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا مذہب
ہے۔اسلام میں عبادت کے ساتھ زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی
ڈالی گئی ہے۔ اقوامِ یورپ کی طرح پوری زندگی کو کھیل کود بنادینا اور
’’زندگی برائے کھیل‘‘ کا نظریہ اسلام کے نقطۂ نظر سے درست نہیں ہے بلکہ
آداب کی رعایت کرتے ہوئے، اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خوش
مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے بلکہ بعض اوقات بعض مفید کھیلوں
کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔فیروزالغات میں کھیل کے لفظی معنی
بازی،بازیچہ،تماشہ،کرتب،دل بہلاوا،مشغلہ اور شغل بیان کیے گئے ہیں۔کھیل کی
تعریف حضورﷺنے یوں بیان فرمائی:’’ہر وہ چیز جو اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے نہ ہووہ
کھیل ہے۔‘‘(جامع الاحادیث،ج۳،ص؍۱۰۶)
آج مسلمانوں کی اکثریت شاپنگ مال،بگ بازار،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اور باالخصوص
موبائیل میں گیمز کھیلناپسند کررہی ہے۔اینڈرائیڈسسٹم میں من چاہے گیمس کی
موجودگی نے اس شوق کو مزیدپروان چڑھادیاہے۔اب کچھ دنوں سے یہ لَت جُواکی
شکل اختیار کرچکی ہے۔پزل گیمس،ریسنگ گیمس،سائمولیشن
گیمس،ایڈوینچرگیمس،اسپورٹس گیمس،آرکیڈ گیمس،ایکشن گیمس،ایڈوکیشنل گیمس،
فائٹنگ گیمس اور کڈس گیمس وغیرہ کی بہتات نے ہر طبقے کو اپنادیوانہ
بنارکھاہے۔ابھی کچھ دنوں سے ’’لوڈوگیم‘‘کی لَت نے ہر خاص وعام کو
اپنامتوالابنالیاہے۔جہاں ذراساوقت ملافوراً کھیلناشروع کردیا۔اب تو لوڈوگیم
وقت گزاری کے ساتھ شرطیہ بھی کھیلاجارہاہے۔جبکہ اسلام میں کسی بھی معاملے
میں شرط حرام ہے اور پیسہ لگاکر جُواکھیلناحرام ہے،اسی طرح پھل فروٹ،چائے
پانی،پارٹی یاکھانا یا کسی دوسری چیز کی شرط بھی حرام اور جُوا ہے اور ایسے
پھل فروٹ سے روزہ کھولنا ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص دن بھر روزہ رکھے اور شام
کو کتے یا خنزیر کے گوشت سے روزہ کھولے کیونکہ جس طرح کتے اور خنزیر کا
گوشت نجس اور حرام ہے اسی طرح جوا اور سور بھی نجس اور حرام ہے۔افسوس!اکیلے
یادوچاردوست مل کر شطرنج کی مانندلوڈوگیم کھیل کراﷲ کی عطاکردہ قیمتی زندگی
کویونہی بربادکررہے ہیں۔شرطیہ کھیلویاٹائم پاس کے لیے، دونوں صورتیں ناجائز
ہیں، پہلی صورت میں وقت کی بربادی اور دوسری صورت میں جُوا اور قمار پایا
جاتا ہے ۔قمار ہر اس معاملے کو کہتے ہیں جس میں کچھ زائد ملنے کی امید کے
ساتھ ساتھ اپنا مال جانے کا خطرہ بھی ہو ۔مذہب اسلام میں جُوا اور قمار
ناجائز اور حرام ہے۔
جو لوگ محض ٹائم پاس کے لیے گیم کھیلتے ہیں،ان سے گزارش ہیں کہ اگر آپ کے
پاس اتناہی وقت ہے تو قضانمازوں کواداکرو،نوافل کااہتمام کرو،کلمۂ طیبہ کی
کثرت کرو، درودپاک کاوِرد کرو،دینی کتب کامطالعہ کرویاخاموش رہو،خاموش رہنے
پر بھی ساٹھ سالہ بے ریاعبادت کاثواب ہے اور حضورﷺنے فرمایاجو خاموش
رہانجات پاگیا۔ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ کیاقوم مسلم کے پاس اتنے وافر
مقدار میں وقت ہے کہ اسے پاس کرنے کے لیے اب وہ مختلف گیمس کاسہارالے رہی
ہے جبکہ اسے خاک وخون میں نہلانے اور اسلام کو نشانۂ ہدف بنانے کا منصوبہ
نہ صرف بنالیاگیابلکہ اس پر سالوں سے عمل بھی ہورہاہے۔یورپین قومیں بڑی
شاطر ہیں،خود اپنے وقت کااستعمال تحقیق وتفتیش اور اﷲ کے سربستہ رازوں کو
جاننے کے لیے کررہی ہیں اور ہمارے ہاتھوں میں موبائیل تھمادیا،نہ اس سے
چھٹکاراپائیں گے ،نہ ہی ترقی کی راہوں کوعبورکریں گے اور نہ ہی اسلام کی
تبلیغ وترویج اور اشاعت کے حوالے سے کام کرپائیں گے ۔ افسوس!ہماری قوم ان
باتوں سے صرفِ نظرکرتے ہوئے بڑی آسانی سے مکاروں کے دام فریب کاشکارہوجاتی
ہے۔
واضح رہے کہ آج کل جس طرح سے یہود ونصاری نے مسلمانوں کے ذہنوں پر باطل کی
محنت کرکے انہیں کھیل کود ، لہو ولعب اور سیرو تفریح جیسے ضیاع وقت کے
اسباب میں مشغول کرکے اپنے مقصدِ اصلی سے ہٹا دیا ہے اور اس مختصر سی زندگی
کے قیمتی لمحات وہ جس طرح سے لایعنی میں ضائع کرتے ہیں کہ انہیں اس کا
احساس تک نہیں ہوتا، اسلام قطعاً ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی نہیں
کرتا۔بلکہ ہمارا اولین فرض یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر ہر موڑ پر شریعت کے حکم
کو معلوم کرکے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات او رمفادات کو پس پشت ڈال کر ،
حکم خداوندی کی تعمیل کریں، یقینا اسی میں ہمار ی ابدی کامیابی اور دنیا
وآخرت کی سرخروئی ہے۔یقینا جس مرد مومن کو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی مطلوب ہو
اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کے ایک حکم کے سامنے اپنی ہزاروں خواہشات کو قربان
کرنا آسان ہوتا ہے نہ کہ حکم خداوندی کو پامال کرنا۔پھر وہ کسی قسم کا حیلہ
اور بہانہ تلاش نہیں کرتاہے۔
ویڈیوگیمز ہویاموبائیل گیمز،دونوں میں دینی ودُنیوی نقصانات ہیں (۱)ان گیمز
میں دِینی اور جسمانی کوئی فائدہ مقصود نہیں ہوتا اور جو کھیل ان دونوں
فائدوں سے خالی ہو، وہ جائز نہیں (۲)ان کھیلوں میں وقت اور روپیہ ضائع ہوتا
ہے اور یہ ذکر الٰہی سے غافل کرنے والے ہے(۳)ان کھیلوں کی عادت پڑنے پر
چھوڑنا دُشوار ہوتا ہے (۴)گیم کھیلتے وقت بچے اساتذہ ، والدین اور سرپرستوں
کی حکم عدولی کرتے ہیں بلکہ شرعی احکام وضوابط کا بھی خیال نہیں کرتے (۵)علاوہ
ازیں اس سے بچوں کا ذہن بھی خراب ہوتا ہے،ذہن میں ماردھاڑ اور اشتعال
انگیزمناظرگردش کرتے ہیں(۶) بامقصد تعلیم میں خلل واقع ہوتا ہے، پھر بچوں
کو پڑھائی اور دوسرے فائدے والے کاموں میں دِلچسپی نہیں رہتی وغیرہ۔افسوس
تو اس بات پر ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ دیندار لوگوں کے موبائیل میں بھی
گیمس موجودہوتے ہیں۔خداراخدارا!اپنی روِش کو بدلیے اور شرعی احکام وقوانین
کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ |
|