عید سروٰٰی

عید الفطرکا تہوار جسے میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے، مسلم امہ کے لیے مسرت و شادمانی کا پیام لے کر آتا ہے، یہ دن رمضان المبارک کے تیس روزوں کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے اپنے روزہ دار بندوں کے لیے ایک عظیم انعام ہوتا ہے، جسے منانے کے لیے لوگ اس کی آمد سے قبل ہی تیاریاں شروع کردیتے ہیں، بلکہ غریب اور مفلوک الحال گھرانوں میں تو عید کی تیاریوں کے لیے سارا سال ماہانہ آمدنی میںسے کچھ رقم پس انداز کی جاتی ہے تاکہ رمضان کے مہینے میں اتنا پیسہ اکٹھا ہوجائے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے، جوتے اور دیگر ضروری اشیاء خرید سکیں۔ بڑے تو پرانے کپڑوں کو دھو اور استری کرکے پہن لیتے ہیں، عید کی اصل خوشیاں تو ان کے معصوم بچوں کی ہوتی ہیں اور وہ اپنے نونہالوں کو اپنی بساط کے مطابق عید کے لیے تمام ضروری چیزیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن خوشیاں مناتے ہوئے کبھی ہم نے ان محنت کشوں کے بارے میں سوچا ہے جو ہماری مسرتوںکو دوبالا کرنے کے لیے ہمیں چاند رات کو مختلف النوع خدمات فراہم کرتے ہیں۔ عید کی خوشیوں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہونے کی آرزو ان کے دلوں میں بھی مچل رہی ہوتی ہے جب کہ ان کے گھر والوں کی عید بھی ان کے بغیر سونی سونی سی ہوتی ہے لیکن وہ اپنے کنبے کو عید کی خوشیاں فراہم کرنے کے لیےخود تمام رات کام کرتے ہیں، جب کہ تھکن کے باعث عید کا دن بھی گھر میں سو کر یا دکانوں پر کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اپنی اس قربانی سے وہ خود کو سال میں ایک مرتبہ آنے والے تہوارکی خوشیوں سے محروم رکھ کرنہ صرف اپنے اہل خانہ کو زندگی کی تمام مسرتیں بلکہدوسرے لوگوں کوبھی مختلف ضرورتوں اورخدمات فراہم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری چاند رات اور عید کے دن مختلف خدمات فراہم کرنے والے افراد سے عید کا تہوار منانے کے بارے میں جوگفتگو ہوئی،وہ نذر قارئین ہے۔

اس تہوار میں استعمال ہونے والی سب سے ضروری شے دودھ ہے جس کے بغیر میٹھی عیدادھوری رہتی ہے۔ دودھ کی دکان پر کام کرنے والے ملازم فہد نے بتایا کہ چاند نظر آتے ہی لوگ ’’شیر فروشوں‘‘ کی دکانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، ہر شخص زیادہ سے زیادہ دودھ خریدنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ ان کی ضرورت کے مطابق ہم باڑوں سے دودھ کی سپلائی کا مناسب انتظام رکھتے ہیں، کیوں کہ جو لوگ عام دنوں میں آدھا یا ایک کلو دودھ خریدتے ہیں ، وہ عید کےلیے تین سے پانچ کلو تک کی خریداری کرتے ہیں ۔ اس رات دہی کی فروخت بھی عروج پر ہوتی ہے۔ گھروں میں دودھ کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ یہ شیر خرمہ، سوئیوں، شربت ، کھیر اور دیگر میٹھے پکوانوں میںاستعمال ہوتا ہے جب کہ دہی سے پکوان کے علاوہ لسی بنائی جاتی ہے، جن سے عید ملنے کے لیے آنے والے رشتہ داروں کی تواضح کی جاتی ہے۔ اس روز مختلف اشیاء کے دام حیرت انگیز طور پر کئی گنا زیادہ ہوجاتے ہیں لیکن دودھ، دہی کے ریٹ عام دنوں کی طرح ہی رہتے ہیں۔ ساری رات ہماری دکان کھلی رہتی ہے، فجر کی نماز تک خریداروں کا ہجوم رہتا ہے۔ نماز عید سے کچھ دیرقبل، ہم دکان بند کرکے گھر جاتے ہیں، نماز کی تیاری کرتے ہیں اور عید کی نماز کے بعد گھر آکر چند گھنٹے آرام کرتے ہیں، اس کے بعد دوبارہ دکان کھول لیتے ہیں۔ہماری عید پہلے روز صرف چند گھنٹے کی ہوتی ہے ، وہ بھی بیوی بچوں کے ساتھ منانے کی بجائے سونے میں گزر جاتی ہے۔ اس کے بعد تینوں دن ہماری دکان کھلتی ہے اور کاروبار زندگی جاری رہتا ہے۔ ہمارے رشتہ دار بھی ہم سے عید ملنے دکان پر ہی آجاتے ہیں۔ یہ ہماری عید کی مختصر سی خوشیاں ہوتی ہیں۔

ہیئر ڈریسر یا باربر کی دکانوں میں تقریباً نصف درجن کاریگر اپنے گاہکوں کو ’’ان کی‘‘ بساط کے مطابق خوب صورتی فراہم کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک باربر شاپ؍مردانہ بیوٹی سیلون میں کام کرنے والے ملازموں سے ان کی چاند رات اورعید کے دن کی مصروفیات کے حوالے سے پوچھا۔ جگو نامی ہیئر ڈریسر نے بتایا کہ عام دنوں میں ہماری دکان رات گیارہ بجے تک کھلی رہتی ہے، جہاں چھ سے سات گاہک دکان بند ہونے کے وقت تک موجود رہتے ہیں، لیکن چاند رات کو یہاں مختلف کاموں کے لیے آنے والوں کا ہجوم جمع رہتا ہے اور دکان میں سحر ہونے تک تقریباً پانچ سو گاہک ہوتے ہیں جن میں سے ہم صرف سو، ڈیڑھ سو کو ہی خدمات فراہم کرپاتے ہیں۔ دکان کے اندر اتنی گنجائش نہیں ہے اس لیے لوگ دکان کے باہر چبوتروں اور سڑک پر کھڑے رہ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تعداد بالوں کی کٹنگ، سیٹنگ، اور بال سیدھا کرانے والے افراد کی ہوتی ہے۔ کئی گاہک جن کے بال سفید ہوجاتے ہیں، وہ عید پر کم عمر نظر آنے کے لیے ہئیر کلر لگوانے آتے ہیں۔ بہت سے گاہک شیو اور فینسی شیونگ کرانے آتے ہیں۔ کئی نوجوان لڑکے اپنے حسن کو نکھارنے کے لیے فیشئل کرواتے ہیں جب کہ بیشتر افراد ہمارے پاس بالوں کی فینسی کٹنگ کرانے آتے ہیں۔ اس روز ہمارے ریٹس میں بھی خصوصی طور سے سو سے ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔ بہت سے گاہک ہمیں منہ مانگی اجرت ہنسی خوشی دے دیتے ہیںجب کہ اکثر حیل و حجت کرتے ہیں۔ ساری رات کام کرنے کے بعد ہم دکان بند کرکے گھر جاتے ہیں، نماز عید کی ادائیگی کے فوراً بعد دوبارہ دکان کھول لیتے ہیں،کیوں کہ باقی رہ جانے والے گاہکوں کی آمدکا سلسلہ عید والے روزبھی جاری رہتا ہے۔ شام تک ہم کام کرتے ہیں، عصر کے بعد دکان بند کرکے گھر جاتے ہیں، کچھ وقت بیوی بچوں کو دیتے ہیں، پھر تھکن کے باعث سوجاتے ہیں۔ عید کے دوسرے روز دکان بند رکھتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، گھر آنے والے مہمانوں سے عید ملتے ہیں، ان کی تواضح کرتے ہیں۔ ایک بات جس کا میں ذکر کرنا بھول گیا، وہ یہ ہے کہ عید کے پہلے روز کیوں کہ ہم نماز پڑھ کر دوبارہ دکان پر چلے جاتے ہیں، اس لیے ہمارے گھر والے سوئیاں ، شیرخرمہ اور دیگر اشیائے خورونوش ہمارے لیے دکان پر ہی بھیج دیتے ہیں، اپنے ساتھی کاریگروں کے ساتھ اس کو کھانے میں ایک عجب سی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔عید کے تیسرے روزبھی دکان بند رکھتے ہیں۔ اس روز اپنے کنبے کے لوگوں کے ساتھ ہم اپنےوالدین، بھائی، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں۔ چاند رات یا عید والے روز ہم جو بھی محنت کرتے ہیں اس کا ہمیں الگ سے کوئی معاوضہ نہیں ملتالیکن بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ہم ان سے دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

خواتین کی عید، بناؤ سنگھار اور حنائی ہاتھوں کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ پہلے یہ فریضہ بہنیں اور ہم جولیاں ، ایک دوسرے کی تزئین و آرائش کرکے ادا کرتی تھیں لیکن اب یہ کام بیوٹی پارلرزنے سنبھال لیا ہے، جہاں ماہر آرائش حسن، خواتین کے رنگ روپ کو نکھارنے اور انہیں جاذب نظر بنانے کے لیے مختلف خدمات انجام دیتی ہیں۔ چاند رات اور عید کے حوالے سے ہمارے سوالات کا جواب دیتے ہوئےایک بیوٹی پارلر کی ٹیکنیشن، صدف جنید نے بتایاکہ، چاند رات کو صبح کاذب تک یہاں خواتین کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے، زیادہ تر خواتین پہلے سے بکنگ کراتی ہیں جب کہ بعض بغیر وقت لیے آتی ہیں، لیکن اپنی باری کے انتظار میں انتہائی صبر کے ساتھ بیٹھی رہتی ہیں۔ پارلر آنے والی خواتین میں سے زیادہ تر آئی بروز، مینی کیور اور پیڈی کیور کے لیے آتی ہیں جب کہ بیشترتعداد فیشئل اور ویکسنگ کرانے میں دل چسپی رکھتی ہے۔ ہم ان کی خواہش کے مطابق وائٹننگ،ہربل، نارمل اور ایکنی فیشئل کرتے ہیں۔زائد العمر خواتین ہیئر کٹنگ اور بال ڈائی کرانے آتی ہیں۔ بہت سی نو عمر لڑکیاں مہندی بھی لگوانے آتی ہیں۔ ہم ساری رات گاہک خواتین کے بناؤ سنگھار، حسن نکھارنےمیں گزاردیتے ہیں، عید والے دن جب ہم پارلر بند کرکے اپنے گھر پہنچتے ہیں تو ہمیں اپنا منہ دھونے کی بھی فرصت نہیں ہوتی کیوں مردوں کو عیدگاہ جانے کی جلدی ہوتی ہے ، اس سے قبل ہم جلدی جلدی شیر خرمہ اور سوئیاں تیار کرتے ہیں، بعض بچے ناشتہ مانگتے ہیں، ان کے لیے ناشتہ بنانا پڑتا ہے۔ سوئیاں کھاکر خاوند اور بچے تو عیدگاہ چلے جاتے ہیں جب کہ ہم نیند اور تھکن کے باعث بستر پر لیٹ جاتے ہیں۔ اس کے بعدمیں شام تک سوتی ہوں۔ شام کو اٹھنے کے بعد تھوڑا بہت وقت شوہر اور بچوں کے ساتھ گزارتی ہوں، اس کے بعد دوبارہ سو جاتی ہوں۔ عید والے دن پارلر بند رہتا ہے۔ عید کے پہلے روز کیوں کہ خاوند اور بچوں کو ہماری کمی شدت سے محسوس ہورہی ہوتی ہے اس لیے ہم میں سے زیادہ تر لڑکیاں سہ پہر کو سو کر اٹھنے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتی ہیں۔ ان کے ساتھ اپنے عزیز و اقارب کے گھر اور تفریح گاہوں میں جاتی ہیں۔ دوسرے دن دوبارہ پارلرکھلنے کے بعد ہماری مصروفیات دوسرے انداز میں شروع ہوجاتی ہیں۔ عید کے فوراً بعد شادی بیاہ کاسیزن شروع ہوجاتا ہے جس کے لیے لوگ پہلے سے بکنگ کرانا شروع کردیتے ہیں، دلہنیں اور ان کی رشتہ دار خواتین ، پارٹی میک اپ،برائیڈل اور سادہ میک اپ کے لیے آتی ہیں۔ اس کے علاوہ چاند رات کو جو خواتین میک اپ کرانے سے رہ جاتی ہیں، عید کے دوسرے روز ان کی آمد بھی شروع ہوجاتی ہے اور وہ آئی بروز،ہئیر کٹنگ، فیشئل، بالوں کو ڈائی کرواتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چاند رات پر خدمات انجام دینے پر ہمیں مالکان کی طرف سے تنخواہ کے علاوہ الگ سے الاؤنس دیا جاتا ہے جس سے ہماری ساری تھکن اور کوفت دور ہوجاتی ہے۔
عید کی تیاریوںمیں لباس کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے، لوگ نت نئے فیشن اور جدید ڈیزائن کے ملبوسات سلواتے ہیں، جو سلوانہیں سکتے، وہ شاپنگ سینٹر اور ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں جاکر ریڈی میڈ گارمنٹس کی خریداری کرتے ہیں۔ پچھلے دور میں صرف مرد حضرات اپنے کپڑے سلوانے کے لیے درزیوں کے پاس جاتے تھے اور وہاں رش کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کئی ماہ قبل سلائی کے کپڑوں کی بکنگ شروع ہوجاتی تھی۔ اس زمانے میں لیڈیز ٹیلرز یا زنانہ درزیوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ خواتین اپنے کپڑوں کی تیاری خود کرتی تھیں۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ مرد حضرات نے درزیوں کے نخروں کی وجہ سے زیادہ تر سلے سلائے کپڑوں پر اکتفا کرلیا ہے جب کہ لیڈیز ٹیلرز کی دکانیں خواتین سے بھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ اور لیڈیز ٹیلرشاپ ہرعلاقے اور گلی کوچوں میں قائم ہوگئی ہیں جن میں خواتین کے جدید فیشن کے مطابق ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں عام دنوں میں تو رش رہتا ہی ہے لیکن عید اور دیگر تہواروں کے موقع پر دکانداروں کو سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی۔ ایسی ہی ایک دکان پر کام کرنے والے کٹنگ ماسٹر عدنان حفیظ نے بتایا کہ، جس علاقے میں ہماری دکان واقع ہے، یہاں پر زیادہ تر فیشن ایبل طبقہ رہتا ہے ۔ خواتین کی زیادہ تعداد ملکی و غیرملکی فیشن کے مطابق لباس سلوانے کے لیے یہاں آتی ہے ۔بعض خواتین سیمپل کی تصاویر اپنے ساتھ لاتی ہیں جب کہ بیشتر ہم غیر ملکی رسائل و جرائد میں سے نکال کر انہیں دکھاتے ہیں، لیکن خواتین کی زیادہ دل چسپی یورپی کی بجائے مشرقی ڈیزائنوں میں ہوتی ہے ۔ ہماری دکان میں شعبان کے آخری دن تک کپڑوں کی بکنگ ہوتی ہے، جب کہ پہلے روزے سے ہم سلائی کےکپڑے لینا بند کردیتے ہیں۔ رمضان بھر ہم رات بارہ ایک بجے تک سلائی میںلگے رہتے ہیں جب کہ چاند رات کو یہ عالم ہوتا ہے کہ افطار کے بعد ہمیں کھانا کھانے اور پانی پینے تک کی فرصت نہیں ملتی۔ اس پر جھگڑالو قسم کی خواتین اپنے کپڑے واپس لینے آتی ہیں، تیار نہ ہونے پر وہ شور و غل کرتی ہیں۔ ان کے ملبوسات کی سلائی میں نفاست سمیت ہر بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔کام کے رش کی وجہ سے اس مہینے ہم دکان میں کام کرنے والے کاریگروں کے علاوہ’’ آؤٹ ڈور‘‘ یعنی گھروں پر سلائی کرنے والی خواتین کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ مختلف فیشن کے مطابق شرٹس تو ہم دکان میں ہی سلواتے ہیں لیکن شلوار، ٹراؤزر، کٹنگ کرکے مذکورہ خواتین کے گھروں پر بھجوادیتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عید کی صبح تک تمام آرڈرز تیار کرکے دے دیئے جائیں جب کہ کپڑے سلوانے والی خواتین بھی رات کے وقت وقفے وقفے سے چکر لگاتی ہیں۔ گھروں پر سلائی کے لیے دیئے ہوئے کپڑے بھی منگوا لیے جاتے ہیں۔ عید کی صبح نماز سے پہلے تمام کام نمٹانے اور گاہکوں کو ان کے کپڑے واپس کرنے کے بعد ہم دکان بند کرکے اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور وہاں پہنچتے ہی نماز کی تیاریاں کرتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہے کہ ہم نماز کے بعد گھر پہنچے اورنماز عید کی ادائیگی سے محروم رہ گئے۔گھر پہنچنے کے بعد تھکن سے اتنا برا حال ہوتا ہے کہ سوئیاں کھا کر ہم بستر پر لیٹ جاتے ہیں، بیوی بچوں سے بھی بات کرنے کا ہوش نہیں رہتا۔ ہمارا عید کا پورا دن سوتے ہوئے گزرتا ہے، عید کے دوسرے اور تیسرے روز دکان بند رہتی ہے۔ دوسرے روز سے ہماری عید کی خوشیاں شروع ہوتی ہیں جو ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ مناتے ہیں۔ میرے والدین جو میرے ساتھ رہتے ہیں انہیں ساتھ لے کر اپنے دادا ، دادی اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے حیدرآباد جاتا ہوں اور عید کے تیسرے دن واپس آتا ہوں۔ چوتھے دن سے دکان کھلتی ہے، جہاں شادی بیاہ کے کپڑوں کی بکنگ شروع ہوجاتی ہے۔

مٹھائی فروشوں کا’’ میٹھی عید ‘‘کی خوشیاںدوبالا کرنے میں بہت اہم کردار ہوتا ہے، اگر عید والے دن یہ دکانیں بھی بند رہتیں تو گھروں پر میٹھے پکوان بننے کے باوجود، لوگوں کی خوشیاں پھیکی رہتیں۔ نماز عید کے اجتماعات ختم ہوتے ہی لوگ مٹھائی کی دکانوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں وہ اپنے اہل خانہ اور گھر پر آنے والے رشتہ داروں کو پیش کرنے کے لیے پچ میل یا مختلف ورائٹیز کی مٹھائی،ربڑی، کچوری خریدتے ہیں۔ یہ دکانیں عید کے روز تمام دن کھلی رہتی ہیں اور دوسروں کو شرینی فروخت کرنے والے، اپنے گھر کی سوئیوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہماری خوشی ہمارے گھر والوں کے چہروں پر بکھری مسکراہٹ میں پنہاں ہے جسے دیکھنے کےلیے ہم چاند رات اور عید کے روز دکان پر کام کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی تگ و دو میں رہتے ہیں، مالکان کی طرف سے مناسب رقم دی جاتی ہے۔ رات گیارہ بجے کے بعد جب ہم دکان بند کرکے گھر جاتے ہیں تو عید کا دن گزر چکا ہوتا ہے، بیوی بچے بھی سونے کی تیاری کررہے ہوتے ہیں، ہم ان کے ساتھ ایک دو گھنٹے گزار کر خود بھی سونے جاتے ہیں۔ عید کے دوسرے اور تیسرے روز بھی خریداروں کا رش رہتا ہے۔ بس یہ سمجھ لیں کہ ہماری عید لوگوں کی زندگی میں مٹھاس بانٹتے ہوئے گزر جاتی ہے۔

عید پر لوگ اپنے عزیز و اقارب اور سسرالی رشتہ داروں کے گھروں پر ملنے جاتے ہیں، جن میں سےبیشتر لوگ شہر کے دور افتادہ علاقوں میں رہتے ہیں، یہ سفر بغیر سواری کے ممکن نہیں اورگاڑی کی روانی کے لیے سی این جی، پٹرول اور ڈیزل کی صورت میں ایندھن ضروری ہوتا ہے۔ اگر پٹرول پمپ بھی عید کی خوشیاں منانے کے لیےبند کردیئے جائیں تو لوگوں کی خوشیاںادھوری رہ جائیں لیکن پٹرول پمپ مالکان اور ان کا عملہ اپنی خوشیوں کی قربانی دے کرچاند رات سے عید کے روز سارا دن گاڑیوں میں ایندھن بھرتا ہے۔ ایک پٹرول پمپ کے ملازم خالد نے بتایا کہ عام دنوں میں بھی ہمارا پٹرول پمپ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے لیکن چاند رات اور عید والے دن یہاں کام کرنے والے ملازمین کی ہنگامی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو پٹرول اور سی این جی کے حصول میں کوئی پریشانی نہ ہو اور ان کی گاڑیوں کا پہیہ رواں دواں رہے۔ اس نے بتایا کہ ان مخصوص دنوں کا ہمیں کوئی الگ سے معاوضہ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کا شمار روزمرہ کی ڈیوٹی میں ہوتا ہے۔ بعض مالکان اپنے عملے کو اپنی خوشی سے کپڑے اور عیدی دے دیتے ہیں۔

لوگوں کو عید کی خوشیاں بانٹنے میں پرچون فروشوں کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے ، جن کی دکانیں چاند رات کو کھلی رہتی ہیں۔ یہاں سوئیوں، خشک میوہ، چھوہارے ، گرم مسالے اور دیگر اشیائے خورونوش کی خریداری کے لیےآنے والوں کا صبح تک ہجوم رہتا ہے۔اس دن دکانوں کے عملے کے علاوہ ’’رضاکار کارکنوں‘‘ کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جنہیں رات بھر کام کرنے کا مناسب معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہ دکانیں فجر کے بعد بند ہوجاتی ہیں ، ان کے مالکان اور عملہ عید کی نماز کے بعد سہہ پہر تک سوتے ہیں۔ ایک پرچون فروش فیضان کے مطابق ہم عید کی شام کوسوکر اٹھنے کے بعد نئے کپڑے پہن کر اہل خانہ کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے اور رشتہ داروں سے ملنے جاتے ہیں۔ یہ ہیں، عید کی خوشیاں بانٹنے والے، جو خود خوشیوں سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی عید تو عید گزرنے کے بعد ہوتی ہے لیکن اپنی اپنی بساط کے مطابق سب خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
 
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 213 Articles with 223611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.