گرمائی اولمپکس کے 31ویں ایڈیشن کا باقاعدہ
آغاز جنوبی امریکی ملک برازیل میں ہوا۔ان عالمی مقابلوں میں207ٹیمیں شریک
ہیں اور 11ہزارسے زائد کھلاڑیوں نے مقابلوں میں حصہ لیا۔ان میں خواتین کی
تعداد 5ہزارسے زائد ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ اس براعظم کو اولمپک مقابلوں کی
میزبانی ملی ہے۔پاکستان کا دستہ صرف 7کھلاڑیوں پر مشتمل ہے
،10آفیشلزہیں۔پاکستانی کھلاڑی ایتھلیٹکس ،تیراکی،جوڈو اور نشانہ بازی (شوٹنگ
)نے حصہ لیا۔ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ 8اولمپک تمغے جیتنے والی اور
اولمپک چیمپیئن رہنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم اس باراولمپک مقابلوں میں شرکت
کی اہلیت ہی حاصل نہیں کر سکی۔افسوس پہلی بار پاکستان کی ہاکی ٹیم اس ایونٹ
سے باہر ہوئی ہے۔2012ء تک پاکستان کی ہاکی ٹیم باقاعدہ کوالیفائی کرتے ہوئے
اولمپکس کھیلتی رہی اورباقی کھیلوں میں زیادہ تر اعزازی شرکت پاکستانی
کھلاڑیوں کے حصے میں آتی تھی۔اس بار 3پاکستانی کھلاڑی براعظمی کوٹے پر
منتخب ہوئے،ان میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔4کھلاڑی وائلڈ کارڈ پر گئے ۔ہاکی
ٹیم ہمیشہ اولمپکس میں پاکستان کی پرچم بردار سمجھی جاتی تھی مگرافسوس ہاکی
ٹیم کی عدم شمولیت کاابھی تک پاکستان میں کسی بھی سطح پرکوئی خاص نوٹس نہیں
لیا گیا۔پاکستان میں کھیلوں کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب گرین شرٹس کا
سب سے مختصر دستہ اولمپکس میں شریک ہوامگرکسی کو اس منظر سے کوئی تکلیف
نہیں پہنچی ۔ریو اولمپکس میں سات رکنی دستہ نے چار مقابلوں میں حصہ لیا،
ایتھلیٹکس میں محبوب علی ،نجمہ پروین، شوٹنگ میں غلام مصطفی اور مناہل سہیل،
سوئمنگ میں لیانا سوان اور حارث بانڈے جبکہ جوڈو میں شاہ حسین میدان میں
اترے تھے۔ لیانا سوان ، حارث بانڈے اور شاہ حسین کی ٹریننگ لاہور یا کراچی
میں نہیں بلکہ یہ پہلے ہی سے بیرون ملک مقیم ہیں۔
بحر اوقیانوس کے سات سو چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ملک بہامس ریو اولمپکس
میں 32 ایتھلیٹس بھیجنے میں کامیاب ہو ا،جس کی آبادی تقریبا ساڑھے تین لاکھ
ہے، اور زمینی رقبہ یہی کوئی پانچ ہزار مربع میل، 24کھلاڑیوں نے تو باقاعدہ
اولمپکس مقابلوں کے لئے کوالیفائی کیا، یہی نہیں بلکہ بہامس کا میڈیا بھی
نہایت پرا مید ہے کہ ان کے ایتھلیٹس کم از کم چار میڈلز تو ضرور جیت کر
آئیں گے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہزاروں میل دور بحر اوقیانوس میں واقع
فجی سے بھی 51کھلاڑی ریو اولمپکس کا حصہ بنے جس کی آبادی لگ بھگ نو لاکھ
ہے۔صرف یہی نہیں پاکستان کے سب سے بڑے اور روایتی حریف بھارت کے121
ایتھلیٹس میڈلز کے لیے پسینہ بہائیں گے مگرپاکستان کی حالت نہایت ابتر
ہے۔ایک طرف تو اولمپکس میں باقاعدہ حصہ نہیں لیا تو دوسری طرف نا قابل یقین
شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 7کھلاڑی ایک بھی میڈل اپنے نام کروانے میں
ناکام رہے۔ ابھی بھی وقت ہے پاکستان سپورٹس بورڈ کو سنجیدگی سے اپنی
کارکاردگی کو بہتر بنانا ہو گا اور پاکستان کی ریو اولمپک میں ہونے والی
تاریخ ساز شکست کو اگلے اولمپک میں کامیابی میں بدلنا ہو گا۔
کیا خوبصورت وقت تھا جب1960میں روم اولمپکس میں پاکستان نے پہلی اور آخری
بار دو میڈل ایک ساتھ جیتے تھے۔ نصیر بندہ کے بھارت کے خلاف فائنل میں
تاریخی گول پر اوّلین ہاکی طلائی تمغے کے علاوہ ریسلر محمد بشیر نے بھی
کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ اسی زمانے میں فلائنگ برڈ کے نام سے شہرت پانے
والے پاکستانی ایتھلیٹ عبدالخالق ناصرف ایشیا کے تیز ترین انسان بنے بلکہ
وہ اولمپک سو میٹر میڈل کے بھی قریب پہنچ گئے تھے۔ عبدالخالق کو فلائنگ برڈ
آف ایشیا کا خطاب بھارتی آنجہانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے دیا تھا۔
لیکن اب یہ سب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ رواں سال کوئی باکسر اور ریسلر
اولمپکس میں جگہ نہیں بنا سکا۔1994 ملکی تاریخ کا وہ واحد سال تھا جب
پاکستان بیک وقت چار کھیلوں کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر میں ورلڈ چیمپئن
تھا، لیکن اب یہ سب خواب بن چکا ہے۔ریو اولمپک میں دلچسپ بات یہ ہے کہ
کھلاڑی تو صرف سات ہیں لیکن پاکستانی دستہ سترہ رکنی ہے، اضافی دس افراد
میں دو عہدیدار تو اولمپک ایسوسی ایشن سے ہیں جو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی
دعوت پر برازیل گے لیکن باقی آٹھ افراد کس بنیاد پر برازیل گئے اس کا جواب
کسی کے پاس نہیں ہو گا۔
المیہ یہ ہے کہ قومی کھیل ہاکی سمیت دیگر تمام کھیل زوال پذیرہو چکے ہیں،
ملک میں کھیل کے میدانوں میں ویرانی سپورٹس بورڈ کی نا اہلیت کا جیتا جاگتا
ثبوت ہے ، کھیلوں کی فیڈریشن سے پوچھا جائے تو وہ کہتی ہیں کھیلوں کا بجٹ
بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کم ہے لہذا ایسے میں اولمپکس میڈل کی توقع
نہ رکھی جائے۔ متوازی فیڈریشنز اور سیاسی طور پر من پسند افراد کے ہاتھوں
یرغمال سپورٹس بورڈ سے ایسے ہی جواب سننے کو مل سکتے ہیں۔ کیونکہ ان نام
نہاد ڈائریکٹرز کی اولین ترجیح بیرون ملک ہونے والے ایونٹس میں اہل خانہ
سمیت سیروتفریح کرنا ہے اور ان سب کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ دسویں روز
ہی ریو ڈی جنیرو میں جاری اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کا سفر تمام ہوچکا
ہے پاکستان تیراک حارث بانڈے اور شوٹر مناہل سہیل بھی پہلے ہی روز اولمپکس
مقابلوں سے باہر ہوگئے تھے۔400 میٹر کے دوڑ میں پاکستانی ایتھلیٹ محبوب علی
نے شرکت کی تاہم وہ بھی پہلے راؤنڈ سے آگے نہ بڑھ سکے۔اور پاکستانی جوڈو کے
کھلاڑی حسین شاہ دوسرے راؤنڈ میں باہر ہوگئے تھے انھیں100 کلوگرام کے جوڈو
مقابلوں میں یوکرینی کھلاڑی آرتم بلوشنکو نے شکست دی تھی اورپاکستانی شوٹر
غلام مصطفی بشیر نے 25 میٹر ریپڈ فائر پسٹل مقابلوں میں شرکت کی تھی اور وہ
دوسرے مرحلے میں فائنل کے لیے کوالیفائی نہ کرسکے جبکہ تیراک لیانا سوان 50
میٹر فری سٹائل تیراکی کے مقابلوں میں قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکیں۔
پاکستانی ایتھلیٹ نجمہ پروین خواتین کی 200 میٹر دوڑ کے دوسرے راؤنڈ کے لیے
کوالیفائی کرنے میں ناکام رہیں۔انہوں نے مقررہ فاصلہ 26.11 سیکنڈز میں مکمل
کیا اور وہ کل 72 کھلاڑیوں کی دوڑ میں 70ویں نمبر پر رہیں۔پاکستان نے سب سے
پہلے لندن میں1948ء گرمائی اولمپکس میں شرکت کی تھی جو جنگ عظیم دوم کی وجہ
سے12سال کے وقفے کے بعد منعقد ہوئے تھے۔پاکستان نے 1948سے اب تک سوائے1980
کے دیگر تمام اولمپک گیمز میں شرکت کی اور مقابلوں میں کھلاڑی بھیجے۔ 1980ء
گرمائی اولمپکس میں امریکی قیادت بائیکاٹ کی وجہ سے کئی ممالک سمیت پاکستان
نے بھی اولمپکس میں شرکت نہیں کی تھی۔1948 سے اب تک17اولمپکس میں پاکستان
نے حصہ لیا ہے لیکن صرف تین کھیلوں ہاکی، باکسنگ اور پہلوانی میں 10 تمغے
حاصل کرسکا ہے جن میں تین طلائی چاندی کے تین اور کانسی کے چار تمغے شامل
ہیں ان میں سے قومی ہاکی ٹیم نے 8گولڈ میڈلز جیتے تھے۔اس کے علاوہ ہاکی میں
پاکستان نے چاندی کے تین اور کانسی کے دو تمغے بھی حاصل کیے ہیں۔ کانسی کے
دیگر دو تمغے پہلوانی اور باکسنگ میں جیتے۔لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد
بشیر اور سید حسین شاہ نے پاکستان کی جانب سے فری اسٹائل ریسلنگ اور باکسنگ
میں کانسی کے تمغے حاصل کئے جو بالترتیب 1960کے روم اولمپکس اور1988کے سؤل
اولمپکس میں حاصل کئے۔اس کے علاوہ پاکستان نے روم اولمپکس 1960میں 2میڈل
حاصل کئے تھے پہلا گولڈ میڈل ہاکی نے جیتا تھا اور دوسرا کانسی کا تمغہ
ریسلنگ میں حاصل کیا تھاپاکستان نے24سال قبل 1992میں بارسلون اولمپکس میں
میڈل جیتا تھا جب ہاکی ٹیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ 1996میں پاکستان
کے سید حیدر نقوی نے آزمائشی کھیل نائی کو وانڈوکے مقابلوں میں کانسی کا
تمغہ جیتا تھا لیکن اس کھیل کو باقاعدہ مقابلوں کا حصہ نہیں بنایا گیا اس
لیے میڈل کو بھی اولمپک کا تمغہ نہیں مانا جاتا۔
یہ عالمی سطح پر کھیلوں کے مقبول ترین مقابلے ہیں جو موسم گرما اور موسم
سرما کے کھیلوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اْن میں دنیا بھر سے ہزاروں کھلاڑی
حصہ لیتے ہیں۔ اولمپک کھیلوں کو دنیا کا اہم ترین مقابلہ تصور کیا جاتا ہے
جس میں 200 سے زائد اقوام شرکت کرتی ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں موسم سرما اور
موسم گرما کے مقابلے ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں، یعنی دو اولمپک
مقابلوں کے درمیان دو سال کا وقفہ ہوتا ہے۔یہ مقابلے قدیم اولمپک کھیلوں سے
متاثر ہیں جو اولمپیا، یونان میں آٹھویں صدی قبل مسیح سے چوتھی صدی عیسوی
تک منعقد ہوتے رہے۔
بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (IOC) کی بنیاد پیری دی کوبرٹن نے 1894ء میں
رکھی۔ یہ کمیٹی اولمپک تحریک کی مجلس انتظامیہ ہے، جبکہ اولمپک منشور میں
اس کا ڈھانچہ اور اختیارات بیان کیے گئے ہیں۔20ویں اور 21ویں صدی کے دوران
اولمپک تحریک کے احیا کے نتیجے میں اولمپک کھیلوں میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔
ان تبدیلیوں میں سے ایک برف اور سرد موسم سے مخصوص کھیلوں کے لیے سرمائی
اولمپک مقابلوں کی شمولیت تھی۔ اس کے علاوہ معذور کھلاڑیوں کے لیے
پیراولمپک کھیل، اور نوجوان کھلاڑیوں کے لیے یوتھ اولمپک کھیل شامل کیے گئے۔
اولمپک کمیٹی مختلف معاشی، سیاسی، اور تکنیکی پہلوؤں کے مطابق تبدیلیاں
لاتی رہتی ہے۔ جیسے کہ، کوبرٹن نے اولمپک مقابلوں میں خالص غیر پیشہ ورانہ
انداز کا تصور دیا تھا، لیکن اب پیشہ ور کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت ہے۔
اولمپک تحریک، انٹرنیشنل اسپورٹس فیڈریشن (IFs)، قومی اولمپک کمیٹیوں
(NOCs)، اور ہر اولمپک مقابلے کی انتظامی کمیٹی پر مشتمل ہوتی ہے۔ فیصلہ
ساز مجلس ہونے کے ناطے، اولمپک منشور کے مطابق اولمپک کمیٹی ہر مقابلے کے
لیے میزبان شہر کا انتخاب اور اخراجات کا انتظام کرتی ہے۔ اولمپک کمیٹی ہی
اس بات کا فیصلہ بھی کرتی ہے کہ مقابلوں میں کون کون سے کھیل شامل کیے
جائیں گے۔ اولمپک سے منسوب کئی رسوم و رواج اور علامتیں بھی ہیں، جن میں
اولمپک پرچم، اولمپک مشعل، اور اولمپک کی افتتاحی اور اختتامی تقاریب شامل
ہیں۔ گرمائی اور سرمائی اولمپکس میں 33 مختلف کھیلوں کے لیے 13 ہزار سے
زائد کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ ہر کھیل کے حتمی مقابلے میں، پہلے، دوسرے، اور
تیسرے درجے پر آنے والوں کو بالترتیب طلائی، نقرئی، اور کانسی کے اولمپک
تمغے دئیے جاتے ہیں۔اولمپک مقابلوں نے اس قدر وسعت اختیار کرلی ہے کہ اب ان
مقابلوں میں تقریباً ہر قوم کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اس ترقی نے متعدد چیلنجوں
اور تنازعات کو بھی جنم دیا ہے، جن میں بائیکاٹ، ڈوپنگ، رشوت ستانی، اور
1972ء میں دہشت گردانہ حملہ شامل ہے۔ جنگ عظیم کے باعث 1916ء ، 1940ء ، اور
1944ء کے مقابلے منسوخ کردئیے گئے تھے جبکہ سرد جنگ کے باعث بڑے پیمانے پر
بائیکاٹ کے نتیجے میں 1980ء اور 1984ء کے مقابلوں میں شرکت محدود رہی۔ تاہم
اولمپکس ہر دو سال میں گمنام کھلاڑیوں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر
مشہور ہونے اور خود کو منوانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ
مقابلے میزبان شہر، ملک اور قوم کے لیے خود کو دنیا بھر کے سامنے پیش کرنے
کا موقع بھی ہوتے ہیں۔
قدیم اولمپکس کے اصل کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔سب سے مقبول روایت کے
مطابق ہیراکل اولمپک کھیلوں کا خالق تھا، اور اْس نے اولمپک بازی گاہ اور
گردو پیش کے عمارات اپنے والد زیوس کے احترام میں بنائے۔ آغاز کے فوراً بعد
اولمپک کھیلوں نے بہت جلد تمام قدیم یونان میں اہمیت اختیار کرلی۔ اس زمانے
میں سب سے مشہور کھلاڑی کا نام مائلو تھا جو کہ تاریخ میں واحد کھلاڑی ہے
جس نے چھ اولمپکس میں ایک فتح حاصل کی۔
اولمپک گیمز کا منشور
1948میں جب بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو پیری دی
کوبرٹن نے باقاعدہ ایک منشور متعارف کرایا جو اس کی پہچان اور اہمیت کو
اجاگر کرنے کا باعث بنا۔وہ منشور یہ ہے کہ ’’تیزی،اعلیٰ اور مضبوطی،یہ
تینوں الفاظ ایک تقریب کی اخلاقی خوبصورتی کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے
تھے۔اس
کے علاوہ 1924کو ایک اور منشورپیرس اولمپک گیمز میں متعارف کرایا گیا جو
بہت مشہور و معروف ہوا وہ یہ تھا’’اولمپک میں حصہ لینے کے لیے سب سے اہم
بات یہ ہے اولمپک جیتنے کے لیے نہیں بلکہ حصہ لینے کے لیے ہے۔
اولمپک کی پہچان
اولمپک گیمز کی علامت پانچ چھلے ہیں جوایک سفید رنگ کے جھنڈے پر آپ کو
5مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں۔یہ پانچ چھلے ایک دوسرے میں جڑے ہوئے ہوتے
ہیں نیلا،پیلا،کالا ،ہرا اور سرخ رنگ کے پانچ چھلے پانچ براعظموں کی
نمائندگی کرتے ہیں اور اولمپک پرچم پر علامت کے طور پر استعمال کیے جاتے
ہیں۔یہ پانچوں رنگ دنیا کے 5براعظموں سمیت تمام اقوام اور ملکوں کی
نمائندگی کرتے ہیں جیسے ایشیاء،افریقہ،امریکہ ،یورپ اور آسٹریلیا ۔اولمپکس
کی پہچان پانچ اولمپک چھلّے سب سے پہلے 1913ء میں نقش کئے گئے اور 1914ء
میں اپنائے گئے اور 1920ء میں انٹورپ کے مقابلوں میں ان کی رونمائی ہوئی۔ |