قارئین ۔ بظاہر آجکل کے بچوں کے بھاری
بھرکم بستے اچھی تعلیم کے غماز دکھائی دیتے۔ تعلیم کے معیار دو باتوں میں
تولا جاتا ۔انگریزی بھاری بھرکم سلیبس اور بھاری فیسیں ۔اگر آپ کے اسکول
میں یہ دونوں چیزیں ھیں تو آپ کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں
اور اس پہ آکسفورڈ یا بیکن کا ٹیگ لگ جائے تو واللہ آپ کو کروڑپتی ہونے سے
کوئی نہیں روک سکتا۔
ہم بظاہر ترقی کی طرف رواں دواں ہیں گذشتہ سالوں میں ہم نے ملکی تعلیمی شرح
میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔ سکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔اور جس طرح
آبادی بڑھنے کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوتا اسی طرح تعلیمی اداروں کے
بڑھنے کے ساتھ فیسوں میں اضافہ ہوا اور ماڈرن تعلیم غریب اور متوسط طبقے کی
پہنچ سے دور ہو گئی اور ان کے حصے میں وہی گورنمنٹ اسکول آئے جہاں ٹاٹ تختی
کا راج ہے۔ فی الوقت میں جس موضوع کو زیر بحث لانا چاہتی وہ تربیت سے متعلق
ہے .میں سوچتی ہوں ایک زمانہ تھا ۔دو کاپیاں دو کتابیں اردو۔اور گنتی ایک
تختی گاچی اور سلیٹ اور سلیٹی ہوا کرتی تھی .تعلیم تو تب بھی تھی مگر تب
استاد استاد تھا اس کا احترام واجب۔والدین استاد کی عزت اور قدر کرتے تھے۔
استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتے تھے بلکہ اگر میں کہوں کہ کم
سلیبس کے ساتھ بہترین تربیت تو بے جا نہ ہو گا۔اب ہم تعلیمی اعتبار سے ترقی
یافتہ ہو گئے مگر تربیت میں آنچ کی کسر رہ گئی ۔ہر۔تعلیمی ادارہ بہترین
تربیت کا دعوی کرتا ہے مگر اب تک کے معاشرے کے ادب و آداب اور اخلاقی حالت
کے پیش نظر مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہم ناکام ہیں ہم دو رخی رویہ کا
شکار ہیں اور ہمارے بچے بھی ۔حالانکہ انہیں مضبوط اور مستند شخصیت میں
ڈھلنا چاہیے ۔قوانین ہر جگہ ایک جیسے ہوتے بس ہمیں ان کی عملداری کو خود پہ
لاگو کرنا آنا چاہیے اور اسے بوجھ نہیں بلکہ فرض سمجھ کے ان کی روشنی میں
اپنی اور اپنی نسل کی شخصیت کو سنوارنا چاہیے۔ مجھے اپنے بہت پرانے کالم
میں لکھی ایک بات یاد آئی ۔کہ اے ڈی صاحب دو سال بعد وطن لوٹے ۔تو ائیر
پورٹ پہ اتر کے خوب لمبی انگڑائی لی اور ماجے میراثی سے بولے۔یار ماجے
امریکہ میں تو بڑیاں پبندیاں نے قنون دے نال ٹرنا پیندا نئیں تے سدھا جیلے۔
یہ کہہ کے انہوں نے پان کی پچکاری گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے باہر اچھالی جو
سامنے گذرتے موٹر سائیکل سوار کے سفید لباس کو رنگین کر گئی ۔بائک والے کی
زبان سے مغلظات کا فوارہ پھوٹا۔اے ڈی نے قہقہہ لگایا اورمحظوظ ہوتے ہوئے
آگے جاتی ایمبولنس کو اوورٹیک کیا۔ سگنل توڑتے ہوئے گاڑی دوسری گاڑی میں
ٹھوک دی اور پھر ٹریفک پولیس کی جیب گرم کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد کا
نعرہ لگا یا۔
یہ اخلاقیات کا جنازہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم کتابوں کے بوجھ کو گدھوں کی
طرح لاد کے بچوں کو علامہ بنانے چلے ہیں ۔مغربی سبجیکٹس کی بھرمار نے معصوم
بچوں کو اس حد تک دبا رکھا ہے کہ ان کے پاس اخلاقیات اور اپنے بزرگوں کے
پاس بیٹھنا کجا اپنے کھیلنے کے لیے بھی وقت نہیں۔رہی سہی کسر موبائلز اور
انٹرنیٹ نے پوری کر دی ۔نیند کی کمی نے ان کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی
اخلاقی حالت بھی تباہ کر دی ۔اور ہم اس گمان میں مست کہ ہمارا بچہ انگریزی
اسکول میں پڑھ رہا فر فر انگریزی بولتا کمپیوٹر اور نیٹ کا ماسٹر ہے ۔کبھی
دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ کیا دیکھ رہا۔اور جو وہ دیکھ رہا وہ اس پہ
کیا اثرات مرتب کر رہا اسے مثبت سمت لے جا رہا یا منفی اثرات مرتب کر کے بے
راہروی کی جانب قدم رنجہ ہیں۔ انسانی شخصیت کی مستحکم بنیاد ہی اس کا خاصہ
ہوتی۔سو لازم ہے کہ ہم اپنے چمن کے ان گلوں کی حفاظت کریں تعلیم کے ساتھ
ساتھ اخلاقیات کی تربیت کریں تاکے ہماری نسلیں سنور سکیں۔۔
|