ماضی کا مدراس اور آج کا چنائی --- ایک نظر

تامل ناڈو کے اس خوبصورت شہر چنائی میں چلتے پھرتے آپ کو فالتو کتے ، جانور اور بلیاں زیادہ نظر آئینگے بعض اوقات انہیں دیکھ کر لوگ ان کیلئے کھانے پینے کی اشیاء بھی خرید کر دے دیتے ہیں اور یہ عمل سب کرتے ہیں اس میں مر د و خواتین کی کوئی تخصیص نہیں - کالج کے ایک اسائمنٹ کے سلسلے میں شہر کے مخصوص علاقے میں جانے کا موقع ملا ساتھ میں تین کلاس فیلو خواتین تھی جوصحافت کے شعبے سے تعلق رکھتی تھی -سڑک کنارے ایک کتا ملا جنہیں ہمارے ایک ساتھی خاتون نے پیار سے آواز دی اور پھر وہ ہماری جان کو آگیا آ گے پیچھے ہونے کی کوشش کرتا رہا راقم کی تو ویسے بھی جان کتوں سے نکلتی ہیں ایک جگہ دیکھ کر راقم نے زمین سے ایویں پتھر اٹھا کر کتے کو ڈرانے کی کوشش کی جس پر کتا تو ڈر کر بھاگ گیا لیکن ساتھ میں جانیوالی خواتین صحافی اس بات پر ناراض ہوگئی کہ میری اس حرکت کی وجہ سے کتے کا دل ٹوٹ گیا - اور میں انہیں بتا رہا تھا کہ اس کتے کے ساتھ آنے کی وجہ سے میرا ڈر کے مارے برا حال تھا- اب اس چھوٹے سے واقعے سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ فالتو جانورو ں کیساتھ ان لوگو ں کا رویہ کیسا ہوتا ہے-
بھارتی شہر چنائی جسے کسی زمانے میں مدراس کہا جاتا تھا دور حاضر میں تعلیمی اداروں اور پروفیشنل کالجز کیلئے بھارت بھر میں مشہور ہیں- ساحل سمندر پر آباد ہونے کی وجہ سے اس کا موسم مرطوب ہے اور چالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی گرمی نہیں لگتی جس کی بڑی وجہ سے ساحل سمندر سے آنیوالی ٹھنڈی ہوائی ہیں- جو نہ صرف چنائی شہر کو ٹھنڈا رکھتی ہیں بلکہ بیشتر اوقات بارشوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جو کئی دنوں تک جاری رہتا ہے تاہم اس شہر کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ پانی کہیں پر کھڑا نظرنہیں آتا - سڑکیں کارپٹڈ ہیں یعنی اچھے طریقے سے بنی ہوئی ہیں-راقم کو صحافت کے شعبے میں تربیت کیلئے یہاں پر آنے کا موقع ملا اسی دوران یہاں پر لوگوں ، شہر کو جاننے کا موقع ملا اور خواہش ہے کہ اس شہر کے بارے میں لوگوں کو معلومات دے سکوں-

کسی زمانے کے مدراس اور آج کل کے چنائی کے بارے میں بچپن میں رومانوی کہانیوں میں بہت پڑھا تھا - راقم کو جب ایک ماہ قبل یہاں پر آنیکا موقع ملا توپتہ چلا کہ کسی زمانے میں موتیے کے پھولوں کیلئے مشہور مدراس شہر میں آج بھی خواتین موتیے کے پھول گجروں کی صورت میں بالوں میں پروتی ہیں شام ہوتے ہی سڑک کنارے خواتین جن میں بزرگ خواتین بھی شامل ہوتی ہیں موتیے کے پھول تاروں میں پروتی دکھائی دیتی ہیں شہر میں ایسی کوئی خاتون نہیں ہوگی جس نے اپنے بالوں میں موتیے کے بال نہیں پروئے ہوں- موتیا جسے جاسمین کہا جاتا ہے کی بھینی خوشبو آپ کو ہر وقت اس شہر کے گلیوں میں محسوس ہوتی ہوگی-یہ پھول نہ صرف خواتین گجروں کی صورت میں بالوں میں پروتی ہیں بلکہ شہر کے بیشتر مندروں میں یہی پھول اور اس کی خوشبو محسوس ہوتی ہوگی-

بھارت کے شمال میں واقع اس شہر کے بیشتر لوگوں کا تعلق تامل قبیلے سے ہیں کسی زمانے میں ان لوگوں کا ذریعہ معاش سمندر سے مچھلیاں پکڑنا تھا لیکن اب یہ بھی وقت کیساتھ کم ہوتا جارہا ہے اس شہر کے باسیوں کی رنگت کالی ہیں جس میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں مرد کپڑوں میں قمیض کیساتھ دھوتی پہنتے ہیں جبکہ یہاں کی مقامی خواتین ساڑھی پہنتی نظر آتی ہیں لیکن یہ بھی انہی خواتین کا کمال ہے کہ ساڑھی پہنے آرام سے نہ صرف روزمرہ کے کام کرتی نظرآتی ہیں بلکہ ساؤتھ سے تعلق رکھنے والی خواتین بھارت کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں زیادہ تیزو طرار ہوتی ہیں-سڑکوں پر سکوٹی کے استعمال سے لیکر دکانوں پر بطور سیلز گرل اور مالک کے کام کرنے والی خواتین ہی نظر آتی ہیں-

ہمارے ہاں تو خواتین ساڑھے پہننے کے بعد روزمرہ کے کام نہیں کرسکتی لیکن چنائی شہر کی خواتین اس معاملے میں تیز ہیں لیکن ساتھ میں خوش قسمت بھی ہیں جنہیں مرد بھی ایسے ملے ہیں جنہیں خواتین کے کام کرنے ، دکان کھولنے اور ساتھ میں سکوٹی چلانے سمیت ٹرانسپورٹ میں بیٹھنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں -چنائی بھارت کا تعلیم کے حوالے سے واحد شہر ہیں جہاں پر پروفیشنل کالجز میں لڑکوں کیساتھ لڑکیوں کی تعداد برابر بلکہ بعض اوقات زیادہ ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات راقم سمیت متعدد دوستوں کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہیں کیونکہ لڑکیاں ہمارے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن سلام ہے ان لوگوں کیلئے جنہوں نے یہاں کے لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کئے ساتھ میں انہیں روزگارکیساتھ تحفظ بھی دیا جس کی وجہ سے آج چنائی شہر میں خواتین ہر شعبہ زندگی میں کام کرتی نظر آتی ہیں-

تامل ناڈو کے اس خوبصورت شہر چنائی میں چلتے پھرتے آپ کو فالتو کتے ، جانور اور بلیاں زیادہ نظر آئینگے بعض اوقات انہیں دیکھ کر لوگ ان کیلئے کھانے پینے کی اشیاء بھی خرید کر دے دیتے ہیں اور یہ عمل سب کرتے ہیں اس میں مر د و خواتین کی کوئی تخصیص نہیں - کالج کے ایک اسائمنٹ کے سلسلے میں شہر کے مخصوص علاقے میں جانے کا موقع ملا ساتھ میں تین کلاس فیلو خواتین تھی جوصحافت کے شعبے سے تعلق رکھتی تھی -سڑک کنارے ایک کتا ملا جنہیں ہمارے ایک ساتھی خاتون نے پیار سے آواز دی اور پھر وہ ہماری جان کو آگیا آ گے پیچھے ہونے کی کوشش کرتا رہا راقم کی تو ویسے بھی جان کتوں سے نکلتی ہیں ایک جگہ دیکھ کر راقم نے زمین سے ایویں پتھر اٹھا کر کتے کو ڈرانے کی کوشش کی جس پر کتا تو ڈر کر بھاگ گیا لیکن ساتھ میں جانیوالی خواتین صحافی اس بات پر ناراض ہوگئی کہ میری اس حرکت کی وجہ سے کتے کا دل ٹوٹ گیا - اور میں انہیں بتا رہا تھا کہ اس کتے کے ساتھ آنے کی وجہ سے میرا ڈر کے مارے برا حال تھا- اب اس چھوٹے سے واقعے سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ فالتو جانورو ں کیساتھ ان لوگو ں کا رویہ کیسا ہوتا ہے-

کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے جوراقم وقتا فوقتا آپ کیساتھ شیئر کرتا رہیگا لیکن ایک بات جو اس تحریر کے ذریعے اپنے تمام دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ خدارا اپنی زبان سے پیار کیجئے - اگر آپ اپنی زبان نہیں بولیں گے لکھیں گے نہیں اور اپنی آنیوالی نسلوں کو نہیں سکھائیں گے تو زبان بھی وقت کیساتھ مر جائیگی- اس بات کا احساس راقم کو بھارتی شہر چنائی میں آکر ہوا ہے یہاں کے مکین یا تو انگریزی زبان بولتے ہیں یا پھر تامل زبان بولتے ہیں شہر کے بیشتر لوگوں کو ہندی زبان نہیں آتی اور اگر سمجھ آتی ہیں تو لکھ نہیں سکتے-اور اس عمل میں سب برابر ہیں نئی نسل سے لیکر پرانے بابے بھی اس عمل میں برابر کے شریک ہیں-اس لئے اس شہر میں ہندی زبان ختم ہورہی ہیں- شائد اس میں کچھ کردار یہاں کے سیاستدانوں کا بھی ہے لیکن اس کا نقصان یہاں کے نسل کو اس وقت ہوگا جب سب کچھ ختم ہوگا- اس لئے اپنی قومی زبان اردو سے پیار کیجئے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413833 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More