کیا مسلمان دوسری تہذیبوں سے استفادہ کر سکتے ہیں؟
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
عصر حاضر میں مسلمان معاشروں کی سیاسی، معاشی اور تعلیمی زوال کی وجہ یہ ہے کہ انہوں بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں سے رو گردانی کی، رجعت پسندی اور تنگ نظری کے رویوں کی بنیاد پہ دیگر اقوام اورمعاشروں کے تجربات سے استفادہ کرنے میں کوتاہی اور غفلت نے انہیں کنویں کا مینڈک بنا دیا ہے، پیغمبر اسلام ﷺ کے دئیے گئے (خذ ما صفا ودع ما کدر(ہر اچھی چیز لے لو اور بری ترک کر دو) کے اصول کو اختیار کر کے آج بھی دیگر تہذیبوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور عصری تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر کے معاشی، و سیاسی زوال سے نکلا جا سکتا ہے۔ |
|
تاریخ کے دریچوں میں جھانکتے ہیں تو
تہذیبوں اور تمدنوں کے عروج وزوال کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے،انسانی
دنیا نے موجودہ عقلی اور تہذیبی مقام پہ پہنچنے تک کئی صدیاں جدو جہد کی،
ایک زمانہ وہ تھا جب یونانی اور رومی تہذیبوں کا شرق و غرب پہ طوطی بولتا
تھا، کرہ ارض پہ بسنے والی قومیں انہیں تہذیبی اور تمدنی اور فوجی قوت کے
اعتبار سے اپنے سے برتر مانتی تھیں۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تہذیبیں رجعت
پسندی اور تعصبات کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو گئیں، انسانی تاریخ کا ایک
باب اسلامی تاریخ بھی ہے، جب جزیرہ عرب سے ایک نئی اور جاندار فکر نے کروٹ
لی اور رفتہ رفتہ پورے دنیائے عالم کو اس سے متاثر کیا۔سیاسی غلبہ قائم کیا
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی ، معاشی تغلب ختم ہو گیا اور اس کی جگہ
دیگر اقوام نے لے لی۔
دراصل عرب سے نمودار ہونے والی اسلامی فکر انسانی دنیا کی عقلی اور علمی
ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اہم تقاضہ تھی، کیونکہ اس وقت پوری دنیا
فکری اور تہذیبی زوال سے گذر رہی تھی، رومی اور یونانی آپس میں گتھم گتھا
تھے، دنیا کا ہر خطہ اپنی خاص فکر کو اوڑھنا بچھونا بنا کر باقی دنیا سے
اپنے آپ کو کاٹ چکا تھا، رجعت پسندی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے تھے،انسانیت
کی اعلیٰ فکر کی بجائے قومیت، قبائلیت اور گروہیت کی بنیاد پہ تقسیم در
تقسیم کا عمل معاشروں کو تباہی سے ہمکنار کر رہا تھا، طبقاتی روش نے
اکثریتی انسانوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا۔مذہب، فلسفہ ، قانون سب ایک
مخصوص گروہ، مخصوص طبقے کے مفادات کے علمبردار تھے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
اجتماعی طور پہ انسانیت کا یہ قافلہ ارتقاء کے سفر کی طرف بڑھنے کی بجائے
زوال کی طرف گامزن ہو گیا۔ایسی صورتحال میں حجاز سے پیغمبر اسلام ﷺ نے
انسانیت کو مخاطب کیا اور انہیں انسانیت کے عظیم رشتے کی بنیاد پہ آپس میں
تعلق رکھنے اور تعاون باہمی کی بنیاد پہ باہمی تجربات سے استفادہ کی تعلیم
دی۔قوموں کے درمیان دوریوں اور نفرتوں کو ختم کر کے سماجی اشتراک اور وحدت
انسانیت کی بنیاد پہ معاشروں کو استوار کرنے کا نظریہ دیا۔
پیغمبر اسلامﷺنے جب نئی اور جاندار تہذیب کے لئے جدوجہد شروع کی تو انہوں
نے دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو پوری روشن خیالی ،اور تفکر وتدبر
سے سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے لئے ایک اصول مرحمت فرمایا یعنی ’’خذ
ما صفا ودع ما کدر‘‘(ہر اچھی چیز لے لو اور بری ترک کر دو)
لہذا مسلمان عربوں نے اس اصول کے تحت دنیا کی اقوام کے علوم ان کے فلسفوں
کو بھر پور مطالعہ کیا، جو نظریہ انسانیت کی مادی و روحانی ترقی کے لئے اہم
تھا اسے اپنا یا اور جو انسانیت کے لئے نقصا ن دہ تھا اسے ترک کیا۔مسلمانوں
نے رومی اور یونانی علوم کا مطالعہ کیا، انہوں نے ہندی تہذیب، مصری تہذیب،
چینی تہذیب کی کتابوں کو کنگالا، ان کی کتابوں اور مسودات کے عربی میں
تراجم کئے۔ان پہ شرحیں لکھیں اور مقالہ جات تحریر کئے،یہی وجہ تھی کہ انہوں
نے سائنس کو بنیادیں فراہم کیں، اور تاریخ ہمیں بڑے بڑے مسلمان سائنسدانوں
کی ایجادات اور مختلف شعبوں میں ان کی تحقیقات کے بارے میں بتاتی ہے کہ
انہوں نے سائنسی و عقلی بنیادوں پہ اپنے تعلیمی نظاموں کو استوار کیا اور
دیگر اقوام کی تحقیقات سے بھی فائدہ اٹھایا،مسلمان دنیا میں جہاں بھی گئے
اسی اصول پر انہوں نے تہذیبی اور تمدنی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ان کے اثرات
قبول کئے اور اپنے اثرات سے ان کو متاثر کیا۔ معروف اہل علم سبط حسن لکھتے
ہیں’’ تہذیبی اکتساب کا دھارا ہمیشہ ایک ہی سمت میں نہیں رہتا بلکہ دو
قوموں کے مابین جب کوئی مستقل رشتہ قائم ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے کچھ نہ
کچھ ضرور سیکھتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عربوں نے سندھ وہند کی تہذیب
سے جو فیض حاصل کیا کہ وہ کہیں زیادہ دقیع تھا۔عربوں نے اس وقت تک اپنے ذہن
کے دروازے بند نہیں کئے تھے بلکہ خذ ما صفا ودع ما کدر کے اصول پر عمل کرتے
تھے۔وہ نئے نئے علوم وفنون کی تلاش میں رہتے تھے اور جہاں کہیں کوئی کار
آمد چیز مل جاتی تھی اس سے استفادے کی پوری کوشش کرتے تھے۔چنانچہ انہیں
یہاں علم ہیت ،علم حساب وہندسہ ،طب ،کیمیا ،فلسفہ ،سیاست ،حربیات
،یوگا،تصوف اور ادب کی جو جو مستند کتابیں دستیاب ہوئیں انہوں نے ان کا
ترجمہ عربی زبان میں کر لیا۔‘‘
ایک یورپی مصنف جوزف ہیلی اپنی مشہور کتاب ’’عربوں کی تہذیب‘‘میں تحریر
کرتا ہے
’’اسلام حصول علم کے ذی قدر جذبے ،علم کی آرزو، رواداری کے جذبے کی حوصلہ
افزائی کرتا ہے۔علم کی سرحدوں کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لئے بے قراری کا
ایسا جذبہ تھا جو مسلمانوں کی ذہنیت کی امتیازی خصوصیت ظاہر کرتا ہے اور
بلند مقصد کے لئے محرک ہوتا ہے۔‘‘یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے سائنس کو
بنیادیں فراہم کیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام
دئیے۔’’یہ اسلام کی عظمت ہے کہ اس نے سائنسی علوم کو مسجد میں وہی جگہ دی
جو قرآن ،حدیث اور فقہ کے مطالعے کو دی ۔یاد رہے کہ اپنے عہد عروج میں مسجد
اسلام کی یونیورسٹی تھی۔مسجد میں کیمیا ،طبیعات ،نباتات ،علم الادویہ
،فلکیات اور فلسفے وغیرہ پر لیکچر دئیے جاتے ۔‘‘
بقول ایک مستشرق کے
’’اسلام کی اسپرٹ اتنی کشادہ ہے کہ عملاًیہ غیر محدود ہے اس نے گردوپیش کی
تمام قوموں کے قابل حصول خیالات اپنا لئے ہیں اور انہیں اپنی مخصوص طرز کی
ہدایت بخشی ہے۔‘‘
مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمان معاشرے اور ممالک اس سوچ سے نابلد، اس
فکر سے غافل، بے علمی، اور بے عملی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں۔ دنیا
سے کٹ کر رہ گئے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آج مسلمان سائنس اور
ٹیکنالوجی کے مالک ہوتے، دنیا ترقی پسند فکر کے لئے ان سے رجوع کرتی،ان کی
زبان و کلچر کو سیکھنے کی متمنی ہوتی، لیکن پیغمبر اسلام ﷺ کے سکھائے ہوئے
اس اصول کو ترک کر دیا، اور رجعت پسندی اور عقل دشمنی اختیار کر کے کنویں
کے مینڈک بن کر رہ گئے، دیگر اقوام نے اپنے تعلیمی، سیاسی اور معاشی نظاموں
کی ترقی کی بدولت مسلمان اقوام کو معاشی و سیاسی غلام بنا دیا۔
(خذ ما صفا ودع ما کدر) کے اصول کو اختیار کر کے آج بھی دیگر تہذیبوں سے
استفادہ کیا جا سکتا ہے۔مثلا مغربی تہذیب کے حوالے سے آج مسلم معاشروں میں
ایک خوف کی فضا ہے۔اور اس کا رد عمل یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کنارہ کشی اور
علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مغربی علوم
وفوائد کا یکسر انکار کر دینا،طببیعات ،ریاضیات اور ٹیکنالوجی جیسے علوم سے
استفادہ علمی کو حرام قراردینا۔اور جدید آلات ،مشینیں اور سازو سامان اور
ضروریات زندگی کو قبول کرنے سے انکار کرنا ہے ، یا اسے دنیا داری کہہ کر رد
کر دینا ہے۔اس طرح کی سوچ کیا نقصان پہنچا سکتی ہے ؟ بقول ابو الحسن
ندوی’’’’اس موقف کا قدرتی نتیجہ عالم اسلام کی پسماندگی اور زندگی کے رواں
دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا،اس سے عالم اسلام کا رشتہ
باقی دنیا سے منقطع ہو جائے گا اور ایک محدود وحقیر جزیرہ بن کر رہ جائے گا
جس کا گردو بیش کی دنیا سے کوئی پیوند نہیں ہو گا ۔‘‘
لہذا ضروری ہے کہ مغربی تہذیب وتمدن کا مطالعہ کیا جائے اس تہذیب کے صالح
عناصر اور انسانی ترقی کے پہلوؤں سے استفادہ کیا جائے اور اس تہذیب کے وہ
عناصر جن سے انسانی مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا ہوتی
ہے سے صرف نظر کیا جائے۔علم وہنر کسی خاص قوم کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اسی
کا ہے جس نے اسے حاصل کرنے کی تگ ودو کی۔آج کے دور میں دنیا علم ہی کی
برکتوں سے ایک گاؤں میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی
کرامات نے معاشروں کا نقشہ بدل ڈالا ہے، نئے علوم اور فلسفوں نے ایک انقلاب
برپا کر دیا ہے، دنیا ارتقاء کے اگلے مراحل میں تیزی سے داخل ہو رہی ہے،
زرعی دور سے، صنعتی دور، پھر کمپؤٹر کا انقلاب اور اب ٹشو کلچر اور جنیٹک
انجئیرنگ نے عقل و شعور کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اب وہی قوم معاشی و
سیاسی طاقت کی حامل ہو رہی جس کے پاس علم وہنر کی لیبارٹریاں اور
یونیورسٹیاں ہیں، وہ مارکیٹ کی جنگ ہو یا اسلحہ کی جنگ ہر میدان میں وہی
قوم سرخرو ہے جس کے ہاتھوں میں علم و ہنر کی طاقت ہے۔
کمیونکیشن کی ٹیکنالوجی نے اس دور میں دیگر اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ
تعلقات اور قربتوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ماضی کی نسبت بین التہذیبی اور بین
الثقافتی استفادہ انتہائی آسان اور تیز رفتارہے۔لہذا مغربی تہذیب کے اثرات
سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا۔
آج اگر سامراجی اقوام کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے آپ کو معاشی اور سیاسی
سطح پہ آزادی اور خود کفالت پہ لانا ہے تو پھر سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم
سے خوب استفادہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے اپنی سوچ کو بدلنا ضروری ہے۔ اپنے
بچوں کو سائنس کی تعلیم دینا، بین الاقوامی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا،
ٹیکنالوجی کی تخلیق کے علوم سے مستفید ہونا، اس وقت ترقی کی منازل طے کرنے
کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ یورپ کے جدید علوم اور تمدن کا ’’خذ ما صفا ودع
ما کدر‘‘ کے اصول پہ مطالعہ کرنا، ان پہ تحقیق کرنا بہت ضروری ہے اور اسے
اختیار کرنا ضروری ہے۔اسی اصول پہ ہمارا تعلیمی نظام استوار ہونا چاہئے،
اور دنیا بھر کی اقوام کے تہذیبی و تمدنی علوم و معارف کو نئی نسل کو
پڑھایا جائے۔اس حوالے سے تغافل ہمیں اقوام کی صفوں سے پیچھے دھکیل رہا ہے۔ |
|