لوڈشیڈنگ سے دور اور درختوں سے بھرپور شہر - چنائی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
بجلی کے حوالے سے اس شہر کے یہ بات قابل ذکر ہے کہ بجلی کے تار کہیں پر نظر نہیںآئے- سارے بجلی کے کیبل زیر زمین ہیںیعنی کوئی خطرہ نہیں کہ بجلی کے تار گر جائیں اور لو گ اسکے نیچے آکر مر جائیں یا پھر بارش میں بجلی کے کھمبے کو ہاتھ لگاتے ہوئے بچے یا خواتین اس کا نشانہ بن جائیں- جوکہ ہمار ے ہاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس طرح کے واقعات مون سون کی بارشوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں رپورٹ ہوتے نظر آتے ہیں جس کا نشانہ بعض اوقات جانور بھی بن جاتے ہیں لیکن یہ چنائی کی انتظامیہ کا کمال ہے کہ اس شہر میں کہیں پر بھی بجلی کے تار نظر نہیں آئے ہاں بعض بعض مقامات پر بجلی کے ٹرانسفارمر لگے نظر آتے ہیں - جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں حکومت عوام کو کسی حد تک بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں- |
|
بھارتی شہر چنائی کے لوگ بجلی کے حوالے سے
خوش قسمت ہیں- کیونکہ یہاں پر بجلی کی کمی اتنی نہیں جتنی ہمارے ہاں
پاکستان میں ہیں جولائی کے مہینے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کیسی ہوتی ہے اس کا
اندازہ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے کسی بھی علاقے میں رہائش پذیر
لوگوں سے بات کرکے دیکھ لیں توہر کوئی پیسکو کے اہلکاروں کو گالیاں دیتا
نظر آئیگا- آٹھ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہمار ے ہاں ہوتی ہیں جبکہ اس
کے مقابلے میں چنائی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اتنی نہیں- گذشتہ ایک ماہ کے
کلاسز کے دوران صرف دو مرتبہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث ہاسٹل میں زیر تعلیم
طلباء و طالبات باہر نکل آئے - کیونکہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کمروں میں حبس
پیدا ہوگئی تھی- خوش قسمتی کی بات یہ رہی کہ بجلی جب چلی گئی تھی تواس وقت
کلاسز نہیں تھی اور یہ پورے ا گست کے مہینے میں صرف دو مرتبہ دیکھنے کو ملی-
اگست کے مہینے میں پشاور سے چنائی میں آکر ایک طرح سے احساس کمتری پیدا
ہوگئی تھی کہ ہم سے بھارتی شہر چنائی کے لوگ اچھے ہیں جہاں پر بجلی کی
لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی جو یقیناًاچھی بات ہے لیکن جب دو مرتبہ اوروہ بھی ہفتے
والے دن بجلی غائب ہوگئی تو دل خوش ہوگیا کہ چلو ہم پڑوسیوں میں کچھ تو
یکساں ہیں اس بارے میں جب مقامی طلباء و طالبات سے بات کی تو انہوں نے
بتایا کہ تامل ناڈو سمیت بھارت کے جنوبی علاقوں میں بعض علاقے ایسے ہیں
جہاں پر آٹھ گھنٹے تک بجلی نہیں ہوتی اور چونکہ چنائی بڑا شہر ہے اس لئے
یہاں پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہے-اسی وجہ سے دل کو کچھ اورٹھنڈک مل گئی کہ
چلو ہم اٹھارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ میں جلتے ہیں تو آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ کے عذاب
سے گزرنا بھی کم نہیں-
بجلی کے حوالے سے اس شہر کے یہ بات قابل ذکر ہے کہ بجلی کے تار کہیں پر نظر
نہیںآئے- سارے بجلی کے کیبل زیر زمین ہیںیعنی کوئی خطرہ نہیں کہ بجلی کے
تار گر جائیں اور لو گ اسکے نیچے آکر مر جائیں یا پھر بارش میں بجلی کے
کھمبے کو ہاتھ لگاتے ہوئے بچے یا خواتین اس کا نشانہ بن جائیں- جوکہ ہمار ے
ہاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس طرح کے واقعات مون سون کی بارشوں میں پاکستان کے
مختلف علاقوں میں رپورٹ ہوتے نظر آتے ہیں جس کا نشانہ بعض اوقات جانور بھی
بن جاتے ہیں لیکن یہ چنائی کی انتظامیہ کا کمال ہے کہ اس شہر میں کہیں پر
بھی بجلی کے تار نظر نہیں آئے ہاں بعض بعض مقامات پر بجلی کے ٹرانسفارمر
لگے نظر آتے ہیں - جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں حکومت عوام کو کسی
حد تک بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں-
ایک دن قبل رپورٹنگ کی تربیتی سیشن کے سلسلے میں گاڑی میں بیٹھنے کا موقع
ملا -کسی زمانے میں خیبر پختونخواہ میں سرکاری طور پر چلنے والی جی ٹی ایس
طرز کی گاڑیاں یہا ں پر چلتی ہیں جو کہ جی ٹی ایس کے مقابلے میں بڑی ہوتی
ہیں اور دونوں اطراف میں چار چار اطراف بیٹھنے کے بعد تین افراد آرام سے
گاڑی میں لگے ڈنڈے کو پکڑ کر کھڑے ہوسکتے ہیں- یہ گاڑیاں اس وقت پورے چنائی
شہر میں چلتی ہیں اور یہ سب سرکاری طور پر چلتی ہیں شہر کے لگ بھگ پچاس سے
زائد روٹس ہیں جس پرمختلف نمبروں والی گاڑیاں چلتی ہیں اور کرایہ نو روپے
سے لیکر آخری سٹاپ کیلئے پچیس روپے تک ہیں اورآخری سٹاپ بھی ایک گھنٹے کی
طویل مسافت کے بعد آتا ہے گاڑی میں جانے کے بعد عورت مرد کی کوئی تخصیص
نہیں کہ خاتون کہاں پر ہیں یا مرد کہاں پر ہیں ہر کوئی گاڑی میں کھڑے
کنڈیکٹر سے ٹکٹ لیتا ہے اور پھر جہاں پر جگہ ملے بیٹھ جاتا ہے نہیں تو پھر
کھڑا ہی رہتا ہے - ہمارے ہاں یہ کلچر ہے کہ کوئی خاتون آئے یا بزرگ آئے تو
جگہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہ چیز یہاں پر کوئی دیکھنے کو نہیں مل رہی- بوڑھی
خاتون کھڑی ہے تو ساتھ میں نوجوان بیٹھا ہے دوسری طرف ایک اچھی بات یہ ہے
کہ بزرگ شہریوں کیلئے اس گاڑی میں جانا فری ہے ہمارے سامنے ایک سفید ریش
آدمی گاڑی میں آئے اور دور سے کنڈیکٹر کو کارڈ دکھا دیا- کنڈیکٹر نے اس سے
کوئی ٹکٹ نہیں لیا اور وہ آرام سے کھڑا رہا-سب سے عجیب بات کہ کنڈیکٹر
کیلئے الگ ہی سیٹ بنائی گئی ہے جہاں پر وہ بیٹھا ہوتا ہے چاہے کتنی ہی رش
کیوں نہ ہوں کوئی کنڈیکٹر کی سیٹ پربیٹھ نہیں جاتا- ہمارے ہاں تو سب سے
زیادہ مت کنڈیکٹر کی ماری جاتی ہیں - ہزاروں کی تعداد میں چلنے والی ان
سرکاری گاڑیوں میں بعض کی حالت ایسی ہیں کہ جب ڈرائیور گئیر تبدیل کرتا ہے
تو آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن پھر بھی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کی
سرکار عوام کو کم قیمت پر ٹرانسپورٹ کی سہولت دے رہی ہیں- ان سرکاری گاڑیوں
کے علاوہ دوسرے گاڑیاں سڑک پر دکھائی نہیں دیتی لوگوں کی اپنی ٹرانسپورٹ
ہیں زرد رنگ کے رکشے جسے آٹو ہیں وہی چلتے ہیں-لیکن اس کے باوجود شہر میں
کہیں پر رش دیکھنے کو نہیں مل رہا- شائد اس کی وجہ سرکار کی گاڑیوں میں
لوگوں کا سفر کرنا ہے یا پھر مقامی لوگوں کا موٹر سائیکلوں کا استعمال ہے
اس شہر میں آپ کو ہر قسم کے موٹر سائیکل دیکھنے کو ملیں گے جن میں بیشتر
بھارت میں ہی بنتی ہیں اور مرد و خواتین سائیکل، موٹر سائیکل اور سکوٹی
چلاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن قانون کی پاسداری اتنی ہے کہ ہر کوئی ہیلمٹ
لگائے نظر آتا ہے-
سڑکوں پر پولیس دیکھنے کو کم ملتی ہیں شائد اس کی وجہ لوگوں میں قانون کا
خوف ہے یا پھر بالی ووڈ کی فلموں کی طرح پولیس کا لیٹ آنا ہے لیکن اس شہر
میں چلتے ہوئے بہت کم پولیس اہلکار آپ کو نظر آئیں گے یا پھر مخصوص قسم کی
جیپ کیساتھ شہر کے خاص چوکو ں میں کھڑے نظر آتے ہیں جن میں خواتین اہلکار
بھی شامل ہوتی ہیں- خاکی رنگ کے کپڑے پہنے ان پولیس اہلکاروں کا رویہ عام
لوگوں جیسا ہی نظر آتا ہے- ہمارے ایک صحافی دوست جس کا تعلق افغانستان سے
ہے اور اس نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے تعلیم حاصل کی ہیں کبھی
کبھار ہنستے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستانی پولیس کی طرح تجربہ کار نہیں
اس لئے انہیں نظرنہیں آتا کہ ہم غیر ملکی طالب علم ہیں اس کے بقول پشاور کی
پولیس نے لوگوں کے پاؤں دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ باہر کا ہے اور
پھر..... اللہ دے اور انسان لے والا حساب ہوتا ہے---
بھارتی شہر چنائی کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ یہاں پر درخت ہر جگہ پر
نظر آتے ہیں پیپل کے درخت سے لیکر ہرقسم کے درخت جو شہر کے اندر اور باہر
روڈوں پر نظر آتے ہیں شہر میں ایسا کوئی علاقہ نہیں جہاں پر درخت نہیں اور
ان درختوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان درختوں کی کم سے کم عمر چالیس سے
پچاس سال ہیں- یہ خوبصورت درخت نہ صرف یہاں کے موسم کو خوشگوار رکھتے ہیں
بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی دیکھنے کو نہیں ملتی- پشاور میں ڈیوٹی کے بعد جب
راقم گھر جانے کیلئے باہر نکلتا تو سڑکوں پر آلودگی کے باعث سانس لینا
دشوار ہو جاتا ، کپڑے الگ گاڑیوں امور موٹرسائیکلوں کی دھویں سے خراب ہوتے
بلکہ گھر جانے کے بعد یہ کوشش ہوتی کہ پانی سے منہ دھو لیں کیونکہ دھویں کے
باعث آنکھیں ، کان اور ناک گندگی سے بھر ے ہوتے جبکہ اسکے مقابلے میں ایک
ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا نہ تو کپڑے اتنے گندے ہوئے نہ ہی گندگی کے
باعث منہ ،کان اور ناک کو صاف کرنے کیلئے پانی کا استعمال کرنا پڑا- چنائی
شہر کے ہر علاقے میں درختوں کی بھر مار نہ صرف یہاں کے مکینوں کی صحت ،
ماحول کیلئے بہتر ہے بلکہ آنیوالے نسلوں کیلئے بھی ایک تحفہ ہے جس کا
اندازہ ابھی تک ہم پاکستانی نہیں کرسکے ہیں. ہم لوگ درخت تو کاٹ سکتے ہیں
لیکن نئے درخت نہیں لگا سکتے اور جب لگا لیتے ہیں تو ان درختوں کا خیال
نہیں رکھتے- |
|