واہ رے مسلمان کیسے ہے تیری قربانی!

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

وہ کافی دنوں سے وقت نکال رہے تھے۔کیونکہ عیدقرباں سرپرآن پہنچی تھی مگر ابھی تک انہوں نے کوئی جانور نہیں خریدا تھا۔کیونکہ مصروفیت ہی اس قدرتھی کہ سرکھجانے کا وقت بھی نہیں مل پارہا تھا۔کاروباری معاملات میں سارادن ورات مصروفیت اورفراغت کے بعد ہی کچھ آرام کرپاتے۔زندگی کچھ زیادہ ہی مصروف تھی ،اسی وجہ سے انہیں وقت نکالنے میں دقت کا سامنا تھا۔وہ دنوں بھائی مع اہل وعیال ایک ساتھ ہی رہ رہے تھے۔ایک دن بڑے بھائی نے کہا:’’کہ چنددن بعد قربانی کی عید آنے کوہے اس لیے کام سے چھٹی کرکے منڈی جاکر جانورخریدا جائے۔‘‘چھوٹے بھائی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی اورکہا:’’بالکل کہیں یہ نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔‘‘ان کے بچے بھی انہیں باربارستا رہے تھے کہ ابھی تک قربانی کا جانور نہیں لیا ہم اسے چارہ کھلائیں گے،گلیوں میں گھمائیں گے،لوگوں کو دکھائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ آخرایک دن دونوں نے وقت نکالا اوربچوں کولے کر منڈی پہنچ گئے۔منڈی میں ہزاروں جانورآئے ہوئے تھے۔ان میں سے انہوں نے بھی اپنے لیے جانور چننے تھے کہ جسے وہ اپنے ساتھ لے جاتے۔وہ عصر کے بعد منڈی پہنچے تھے۔گھومتے گھومتے رات ہوچکی تھی ،مگرابھی تک انہیں کوئی جانورپسند نہیں آرہاتھا۔مگرجب وقت زیاہ ہونے لگا تو انہوں نے کچھ بکرے اوربیل پسند کیے،جن کی قیمت 50لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ان کے دام ادا کرکے انہیں گاڑی میں لوڈ کروایا،اورگھر کی جانب رواں دواں ہوگئے۔گھرکے اندراورباہرانہوں نے جانوروں کے لیے جگہ بنائی ہوئی تھی۔جہاں پر وہ انہیں باندھتے اوروقفے وقفے سے جگہ تبدیل کرتے رہتے تاکہ گند نہ مچ جائے۔بچے خوشی کے مارے پھولے نہ سمارہے تھے۔اسکول سے چھٹی اور فراغت کے بعدوہ چھوٹے بکروں کو گلی میں رسی باندھے خوشی سے بھاگ رہے تھے اورمحلے کے بچوں کے ساتھ اپنے اپنے جانوروں کو لیے گھوم رہے تھے۔قربانی سے پہلے ان کا یہی معمول تھا ۔ہرسال ایسا ہی ہوتا چلا آرہا تھا،اس سال بھی بچوں کوعیدسے پہلے عید کی خوشیاں سمیٹنے کا موقع ملا ہواتھا۔جانوروں کوگھمانا ،ان کے لیے گھاس لانا،ان سے پیار کرنا اورمحبت سے ان کی پیٹھ پرہاتھ سہلا کر بچے بھی محذوذہوتے تھے۔آخر کاروہ دن آن ہی پہنچا جس کے لیے یہ سب تیاریاں کی گئی تھیں۔عیدالاضحی کا دن ،خوشی کادن آج تو صبح سویرے آذان فجر کے ساتھ ہی والدین بھی جاگ گئے اوربچوں کو بھی جگا دیا۔حالانکہ ان کا روزانہ جاگنے کو معمول کوئی اورتھا۔ان کی آنکھ دن نکلنے پر کھلتی جب نماز فجر کا وقت گزرچکاہوتا تھا۔مگرآج چونکہ عید تھی تواس لیے جلدی جاگنا مجبوری تھا۔اس لیے سب نے تیاری کی ،نئے کپڑے،جوتے پہنے،خوشبولگائی اورمکمل اہتمام کے ساتھ عید گاہ کی جانب چل دیئے۔نماز عید کی ادائیگی کے بعدسب آپس میں گلے مل رہے تھے اوراپنے اپنے گھروں کی جانب رواں دواں تھے تاکہ جلدسے جلدجانورکوذبح کیا جائے۔ مگرراستے میں انہیں کچھ ایسے لوگ بھی نظرآئے جن کا لباس پرانا،جوتے پرانے،کوئی عیدکااہتمام نہیں،غرض ان کے چہروں سے غربت کے اثرات ٹپک رہے تھے۔مگرانہیں ان سے کوئی سروکارنہیں تھا۔غرض انہیں نظراندازکرکے وہ جلدی جلدی گھر پہنچے۔قصائی کہ جس سے پہلے ہی انہوں نے وقت لے لیاتھا،ہاتھ میں ذبیحہ کا سامان لیے اپنی ٹیم کے ساتھ پہنچ چکا تھا۔اب جانوروں کولٹایا گیا،سب گھروالے بچے،بڑے،خواتین بھی اس منظر کودیکھ رہی تھیں۔قصائی نے جانوروں کو گلے پرچھری پھیرناشروع کردی۔اب تمام جانورذبح کردیئے گئے۔ اس کے بعدان کا گوشت بنایا گیا۔قصائی اپنا کام نمٹا کر اپنا کھاتہ صاف کرکے دوسرے جانوروں کی جانب روانہ ہوگئے۔گھروالوں نے گوشت کو سمیٹا،اس کومختلف حصوں میں تقسیم کیا،جو صاحب حیثیت رشتے دارتھے،ان میں تقسیم کرنے کے لیے مختلف ڈبوں میں پیک کیا گیا۔اسے گاڑی میں رکھ کر تمام رشتے داروں کے گھرجاکرگوشت کو تقسیم کردیا گیا۔گھر میں بھی گوشت پکایا گیا اورکھایا گیا۔عید کے دنوں میں مختلف رشتہ داروں سے ملاقاتوں سلسلہ شروع ہوگیا۔غرض عید کے دن گزر گئے،جانور ذبح ہوگئے،گوشت کھانے کے ساتھ ساتھ تقسیم کردیا گیا۔عید کے دن گزرتے ہی زندگی دوبارہ سے سابقہ معمول پرآگئی۔پھر وہی مصروفیات،کاروبار،لین دین، معمولات وغیرہ اوربس..........

قربانی کا مقصد ہم نے یہی سمجھ رکھا ہے۔ہرسال عید قربان آتی ہے،جانورخریدے جاتے ہیں،لاکھوں کے جانور خرید کران کی نمائش کی جاتی ہے۔پھراس پر فخر کیا جاتا ہے اورانہیں ذبح کردیا جاتا ہے۔ دوبارہ سابقہ روش پر زندگی لوٹ آتی ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچا بھی سہی کہ عید قربان کا مقصد کیا ہے؟جانور ذبح کرکے ان کا گوشت تقسیم کرنا،کھانا،رشتہ داروں اعزاء واقرباء سے ملنا اوربس،کیا یہی ہماری عید ہے۔کبھی ہم نے سوچا کہ ہم عید قربان کس وجہ سے مناتے ہیں؟سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے لیے یہ عید منائی جاتی ہے۔کبھی غور کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کیا تھی؟انہوں نے آخرکون ساکام کیا کہ اﷲ نے ان کے اس طریقے کو رہتی دنیا تک کے لیے جاری وساری کردیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کواﷲ تعالیٰ نے بہت سی آزمائشوں کے ساتھ آزمایا۔حتیٰ کہ وہ ان آزمائشوں پر پورے اترے۔انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔اپنی ہستی،اپناگھربار،ماں باپ،اہل وعیال،اوقات،غرض کہ اپنا سب کچھ اﷲ کے لیے قربان کردیا۔جس کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے ان کی سنت کورہتی دنیا کرجاری وساری کردیا۔آج ہم قربانی کرتے ہیں،مگراس کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات پرعمل پیرا رہتے ہیں،ہم قربانی کرتے ہیں مگرنماز نہیں پڑھتے،ہم قربانی کرتے ہیں مگر حقوق اﷲ کی ادائیگی نہیں کرتے،ہم قربانی کرتے ہیں مگرحقو ق العباد کی ادائیگی نہیں کرتے،ہم قربانی کرتے ہیں مگراپنے گھر کا ماحول شرعی نہیں بناتے،ہم قربانی کرتے ہیں مگرمال کی محبت میں اپنے دین کوپس پشت ڈال دیتے ہیں،ہم قربانی کرتے ہیں مگراہل عیال کی محبت کو دین پر مقدم رکھتے ہیں،ہم قربانی کرتے ہیں مگرہماری خواہشات سیۂ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔یہ کیسی قربانی ہے کہ جو ہماری زندگی میں انقلاب برپا نہیں کرتی،یہ کیسی قربانی ہے کہ جوہماری اصلا ح کا سبب نہیں بنتی،یہ کیسی قربانی ہے کہ جو ہمیں شیطان کی پیروی سے نہیں روکتی،یہ کیسی قربانی ہے کہ جو ہمیں برے افعال ،اقوال ،اعمال سے منع نہیں کرتی،جو ہماری زندگی میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کوزندہ کرنے کا مقصد ان کی زندگی کے ان گوشوں کو اپنانا ہے کہ جن کی وجہ سے ابراہیم علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے محبوب بنے۔اﷲ تعالیٰ کے ہاں نہ تو قربانی کاگوشت پہنچتا ہے نا ہی خون البتہ دلوں کی کیفیت وحالت اﷲ تعالیٰ دیکھ کرقربانی پر اجروثواب دیتا ہے۔آج ہم قربانی کریں اورہمارے بھائی بھوکے سوئیں تواس قربانی کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں۔ہماری زندگی میں مسلمانوں کے حالات تنگ رہیں اوران کی طرف ہماری توجہ نہ جائے ۔ان پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہوں۔ان کے سینوں کوچھلنی چھلنی کیا جارہا ہو مگرہم سنت ابراہیمی کے اس گوشے کو بھول جائیں اوروقت کے نمرود کا مقابلہ نہ کریں تو یہ کیسی سنت ابراہیمی ہے۔اگرآپ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے جسمانی مددفراہم نہیں کرسکتے تو دعا تو کرسکتے ہیں۔ اپنے مال سے تو ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ان کے لیے آپ قربانیاں تووقف کرسکتے ہیں تاکہ ظلم کی اس اندھیری رات میں وہ بھی آپ کی خوشی میں شامل رہیں۔ان کے لیے آپ اپنی قربانی کی کھالیں توان تنظیموں کودے سکتے ہیں کہ جواپنے کشمیری بھائیوں کی مدد میں سرفہرست ہیں۔ جیسا کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ،الخدمت ٹرسٹ وغیرہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کام نہ صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر مسلم ممالک میں بھی جن میں شام،غزہ،برما،صومالیہ وغیرہ شامل ہیں میں اپنی استطاعت کے مطابق پھیل چکا ہے۔لہٰذاآپ ان کے ساتھ تعاون کریں اوراپنے مظلوم بھائیوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کریں۔یادرکھیں رسمی عبادت کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے جواہتماماً کی جانے والی عبادت سے حاصل ہوتے ہیں۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 25 Articles with 23223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.