اٹھارویں صدی کے اواخر اور اکیسویں
صدی کے اوائل میں جہاں نت نئے انکشافات و ایجادات نے جگہ لی ہیں وہی زمانہ
ترقی پذیر ہوا اورتیز رفتار زندگی سر پٹ دوڑی ہے ،یہی نہیں بلکہ احوال و
کوائف میں بھی گوناگوں تبدیلیاں واقع ہوئیں جن کو آج ہر طریقے سے محسوس کیا
جارہا ہے،اسی ضمن میں یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگاکہ ان تمام اختراعات و
ایجادات،تجربات و رجحانات اور سرعت و تیزی کے ساتھ ساتھ زمانے کے عروج و
ارتقا میں ٹیکنالوجی (Technology)کابھی ایک اہم رول رہا ہے جس کوکسی صورت
نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں ٹیکنالوجی
انسانی زندگی کے لئے جزء لاینفک بن چکاہے،جہاں اس کے اثرات و مضمرات انسانی
زندگی پر گہرے طور پر آتے دیکھائی دے رہے ہیں،اس بات سے بھی انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ ٹیکنالوجی اور اس کا جائزاستعمال وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں
شامل ہے ۔اگرٹیکنالوجی سے جڑے آلات کی بات کی جائے تو ان میں سب سے زیادہ
موبائل فون زمانے پر اثر انداز ہوا ہے۔جس کی پہلی نسل وائرلیس(موبائل)
ٹیکنالوجی کے طور پر ۱۹۸۰میں متعارف کرائی گئی۔جس کا استعمال سب سے پہلے
ہوا کے دوش پر صوتی و مواصلاتی پیغامات پہنچانے کے لئے کیا گیا۔ بعد میں اس
ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید ذرائع ابلاغ (communication) کا حیرت انگیز
کارنامہ انجام دیا گیا، جس نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے میلوں دور رہنے
کے باوجود ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کردیا۔ ایک وقت تھا کہ خطوط و
پیغامات کے ارسال و ترسیل کا کام کبوتروں کے دوش پر کیا جاتا تھا، جس وقت
برقی وٹیکنالوجی مواصلات وپیغامات کا کچھ بھی عمل دخل نہیں تھا،لیکن زمانے
نے جونہی کروٹ بدلا تو نت نئے انوینشنز (Inventions)اوربرقی اختراعات ظہور
پذیر ہوئے اور موبائل کو مواصلاتی و ترسیلاتی دنیامیں حیرت انگیز نگاہوں سے
دیکھا گیا اور اسی طرح مقتضیات زمانہ کے لحاظ سے ارسال و ترسیل کے ذرائع
بہت وسیع ہوتے چلے گئے اور اس جدید نوعیت کی ایجاد نے پوری دنیا میں رفتہ
رفتہ اپنے فیچرس سے سب کو مجسمہ حیرت بناکر رکھ دیا۔ٹیکنالوجی کی مدد سے
چلنے والے چند اینچ کے اسمارٹ موبائل فون میں کئی ایک فیچرس موجود ہیں
مثلاً کیمرا،وڈیو،وائس کالز،ایس ایم ایس اور اس کے علاوہ بھی دیگر خصوصیات
کی سہولیات فراہم ہیں ۔لیکن موجودہ حالات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ اسمارٹ موبائل فون کے جس فیچرس نے اپنی پر کشش،رنگ برنگ
اور دل فریب اداؤں سے معاشرے کو موت و ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ہے وہ
ٹیکنالوجی موبائل کا کثرت سے استعمال کئے جانے والا آلہ تصویر ’’کیمرا ‘‘
ہے جس کی مختلف النوع خصوصیات میں سے ایک فرنٹ کیمرا ہے جو تصویر کا دوسرا
رخ ہے جس سے خود کا عکس اتارنا نہایت ہی آسان ہے جوسیلفی کہلاتا ہے ،جو اب
تک ہلاکت خیز،جان لیوا اور انسانی اموات کا باعث ثابت ہوا ہے ، ہر روزجلی
سرخیوں میں سیلفی لینے کی کوشش میں ہونے والی ہلاکتوں اور سنسنی خیز
وارداتوں کی تفصیلات ملتی ہیں ۔اگر تحقیق کے دائرے میں اس لفظ کو دیکھا
جائے تو ’’سیلفی ایسے خود پیکر ((self-portraitتصویر کوکہا جاتا ہے،جو ایک
دستی رقمی عکاسے (dijital camera)یا عکاسہ دار فون کے ذریعہ کھینچی
جائے۔زیادہ تر سیلفیوں کو بازو کی لمبائی کے برابر فاصلے پر عکاسے کو پکڑ
کر یا کسی آئینے کی طرف اس کا رخ کرکے لیاجاتا ہے‘‘۔ (ماخوذ از ویکی
پیڈیا)سیلفی کی اصطلاح سب سے پہلے اسٹریلیاکے ایک معروف اخبار میں استعمال
کی گئی ،اس کے بعد اسے اتنی شہرت ملی کہ رفتہ رفتہ یہ لفظ ہر خاص و عام کی
زبان پر عام ہوگیا۔یوں تو سیلفی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے موجدین
اور کمپنیوں نے اس ٹیکنالوجی کو بہتر سے بہتر اور دلچسپ بنانے کے لئے جدید
نوعیت کے کئی ایک ڈیوائسزتیار کرلئے ہیں ۔
دنیا میں سیلفی پورٹریٹ کے سلسلے کا آغاز کیمرے کی ایجاد کے ساتھ ہی
ہوگیاتھا،باوثوق ذرائع کے مطابق دنیا کی پہلی سیلفی ۱۸۳۹ء میں ۳۰ سالہ
رابرٹ کارنیلیئس (Robert cornelius)نے بنائی ،جس کے کئی عرصے بعد اسمارٹ
فونز کے متعارف ہونے کے بعد یہ ایک عام سی بات بن گئی ۔ اس لفظ کی شہرت
ومقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے
معتبر و مستند آکسفورڈ ڈکشنری نے اسے سال ۲۰۱۳ء کاسال کا سب سے بہترین لفظ
((word of the yearقرار دیا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی کے مطابق ’’کیمرے، اسمارٹ
فون یا ویب کیم سے اتاری گئی وہ تصاویر جنہیں کسی بھی سماجی ویب سائٹ پر
پوسٹ کیا گیا ہو سیلفی کہلاتی ہیں۔‘‘
اگر سیلفی کی بات کی جائے تو بجائے اس کے نقصانات کے کوئی فائدہ نظر نہیں
آتا،بلکہ اس کے متعلق محققین اورسائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس کے مضر اثرات
انسانی صحت پر بہت زیادہ اثر اندازہورہے ہیں جوآئندہ ان لوگوں کے لئے
انتہائی تشویش کا باعث ہے جو اس لت کے بری طرح شکار ہیں۔سائنسدانوں کی کچھ
تحقیقات میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سیلفی لینے والوں میں اپنی ظاہری
شخصیت کے بارے میں خوش فہمی کا احساس پایا جاتا ہے ،جو انہیں انتہائی مغرور
بنا رہاہے۔کچھ کی تحقیق یہ ہے کہ سیلفی کے جنون میں مبتلا افراد اکثر اپنی
سیلفی میں خود کو دوسروں کے خیال سے کہیں زیادہ پر کشش اور پسندیدہ دیکھتے
ہیں ۔
ان دنوں سیلفی لینے کے رجحان میں کافی حد تک تیزی آئی ہے جس کے اثرات و
نتائج `سماج و معاشرے کے لئے خوش آئند نہیں ہیں۔ سیلفی لینے کی کوشش میں نہ
جانے اب تک کتنے افراد اپنی عزیزاور قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ،ہر
آئے دن سوشل میڈیا اور اخباروجرائد میں اس طرح کی خبریں بہت زیادہ گردش
کررہی ہیں ۔مسلمانوں میں سیلفی کا جنون اب توسیاحت گاہوں سے ہوتا ہوا عبادت
خانوں اور زیارت گاہوں تک جا پہونچا ہے جو انتہائی تشویش کا باعث ہے ۔خاص
طور پرحج و عمرہ کے دوران اس طرح کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ حجاج
کرام بڑے ہی شوق و انہماک سے حجر اسود ،،صفاو مروہ ،منیٰ و مزدلفہ،عرفات ،
زمزم اور مسجد نبوی اوردیگر مقامات مقدسہ کے اردوگرد کیمرے والے موبائل سے
سیلفی لینے میں بہت حدتک جنونی نظر آرہے ہیں ،گویاں اس طرح عبادت گاہوں
،زیارت گاہوں اورشاہراہوں میں سیلفی لینایہ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ ایک
زمانہ تھا کہ لوگ حرمین شریفین میں ہوتے تھے تو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ
آنسورواں ہوجاتے تھے لیکن اب یہ حال ہے کہ ان مذموم عادتوں اور شنیع حرکتوں
سے نہ صرف خانہ کعبہ محفوظ رہا ہے بلکہ روضہ رسول ﷺ کے درودیوار کی طرف
پیٹھ کرکے تصویر کشی یا سیلفی لینے کا شوق کافی حد تک بڑھتا جارہا ہے جو
یقیناً شریعت کے اصول و قوانین اور متبرک و مقدس مقامات کی عظمت و تقدیس کے
صریح خلاف ہے۔کئی ایک احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں تصویر کشی کی حرمت اور
اس کی شدید ممانعت وارد ہیں جس کے متعلق علمائے کرام و مفتیان عظام نے سختی
کے ساتھ افراد امت کو اس فعل شنیع و عمل قبیح سے بچنے کی تلقین و
تاکیدفرمائی ہے ۔صرف حاجت و ضرورت کے وقت اس کے جواز و حلت کی صور ت نکالی
ہے۔
اگر معاشرے میں پروان چڑھ رہے سیلفی جذبات اور اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کو
ختم کرنا ہے اور مزید اس بری لت اورخود پسندانہ عادات سے معاشرے کو چھٹکارا
دلانا ہے تو متذکرہ بالا سطور کی روشنی میں اسلامی تعلیمات و احکام پر عمل
پیرا ہوکے اس وبائے عام سے نجات دلایا جاسکتاہے اور اس کے ذریعے ہونے والی
ہلاکتوں پر بھی قابوپایا جاسکتا ہے، اسی میں معاشرے کی فلاح و کامرانی
ہے۔٭٭٭ |