ایک بار کسی مچھلی فروش کو شکایت موصول
ہوئی کہ وہ جو مچھلیاں دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ کرتے ہیں ان کا ذائقہ
تھوڑا عجیب سا ہوتا ہے مطلب وہ کھانے میں تازہ نہیں لگتیں اب مالک پریشان
کہ وہ تو تازہ پانی میں ڈلوا کرانہیں دوسرے ملک سے منگواتا ہے اور انہیں
اپنے ملک میں لا کے ذبح کرتا ہے پھر بھی ان کی تازگی برقرار نہیں رکھ سکتا
تو پھر اور کیا کرے۔اتفاق سے وہاں ایک جینیئس بیٹھا ہوا تھا اس نے مشورہ
دیا کہ جس کنٹینر میں مچھلیاں ہوتی ہیں وہاں ایک شارک چھوڑ دیں اس کے خوف
سے وہ متحرک بھی رہیں گی اور ان میں خون کی روانی بھی صحیح رہے گی تو اﷲ
تعالیٰ نے ہماری زندگیوں میں شارک کی صورت چھوٹی چھوٹی مصیبتیں ڈالی ہیں جو
ہمیں ہر وقت متحرک رکھتی ہیں دوسرا اﷲ چاہتے ہیں ان کے بندے انہیں ہر وقت
یاد رکھیں۔ہم لوگوں کی زندگی میں کوئی دکھ پریشانی نہ آئے تو ہماری زندگیاں
جمود کا شکار ہو جائیں اور نہ ہی ہم اﷲ کے وجود کو تسلیم کریں۔ایک دہریہ اﷲ
کے وجود کا منکر تھا ۔اس کا یہ نظریہ تھا کہ یہ کائنات بگ بینگ کی صورت
معرض وجود میں آئی۔یہ بات تو طے ہے کہ جب انسان کچھ ثابت نہ کر پائے تو وہ
یونہی لولی لنگڑی وضاحتیں دے کر اپنے نطرئیے کو کوئی نہ کوئی نام دے لیتا
ہے لیکن ایسا کرنے سے کیا حقیقت بدل جاتی ہے؟؟خیر تو میں کہہ رہی تھی کہ وہ
دہریہ انکاری تھا کہ اﷲ ہے ایک بار اس کا پاکستان آنے کا اتفاق ہوا اور جب
وہ پاکستان سے ہو کے آیا تو اسلام قبول کر لیا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اﷲ
ہے کیونکہ یہ ملک اسی کے آسرے پہ چل رہا ہے۔اگر طنزو مزاح سے ہٹ کر بات کی
جائے تو آخر ایسی کیا بات ہے کہ جو ہمیں ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں
جبکہ یہاں اﷲ اور رسول کے بنائے ہوئے قوانین سے ایک انچ انحراف نہیں۔اﷲ نے
ہمیں قدرتی نباتات اور معدنیات کی دولت سے مالا مال کیا ہے تو پھر آخر کمی
کہاں ہے؟اس کا جواب بہت واضح ہے کہ جن لوگوں کے سپرد اسے کیا گیا ہے وہ تو
دھڑا دھڑ دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹ رہے ہیں اور اس دوڑ میں حلال و حرام کی
تمیز بھی جاتی رہی ہے۔جب بھی حلال و حرام کی تمیز کی بات ہوتی ہے میرا
دھیان فوراً الطاف بھائی کی طرف چلا جاتا ہے جنہوں نے بقول ٹی وی اینکر
شراب کے نشے میں دھت ہو کر پاکستان کی شان میں بہت گستاخانہ کلمات کہے جو
یقیناً قابل شرمندگی ہے۔
چھوٹا منہ اور بڑی بات یہاں کینسر تک کے مریض اخراجات نا ہونے پہ ایڑیاں
رگڑ رہے ہیں اور کہاں ہمارے وزیراعظم کو ایک چھینک بھی آئے تو امریکہ دوڑیں
لگ جاتی ہیں۔کیا اس پہ خرچ ہونے والا سارا پیسا ان کو وراثت میں ملا
ہے؟؟افسوس کی بات کہ ایسا کچھ نہیں ہے یہ سب عوام کے خرچے سے ہوتا ہے اسی
عوام کے خرچے سے جس کے مزدور سارا دن گدھوں کی طرح کام کر کے آدھی دیہاڑی
کی روٹی کھانے پہ مجبور ہیں معذرت چاہتی ہوں کہ میری تحریر میں اتنی تلخی
در آئی لیکن جس ملک میں روٹی سستی کرنے کے بجائے موٹرویز اور اورنج ٹرین کو
زیادہ ترجیح دی جائے وہاں کے لوگ ایسے ہی تلخ ہو جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جب
اﷲ کسی کو بے مہار پاتا ہے تو اس کی رسی دراز کر دیتا ہے تو میں بہت الجھن
شکار ہوں کہ آخر ان ظالموں کی رسی کو اور کتنا دراز ہونا ہے؟خیر اﷲ سب دیکھ
رہا ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ ظالموں کی ایک دن پکڑ ہو گی اور اس دن جان
بچانے کو کوئی امریکہ نہیں بھاگ سکے گا کہتے ہیں جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو
وہ شہر کا رخ کرتا ہے یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے پر تب ایسا کچھ نہیں ہو
گا حساب تو دینا ہی پڑے گا۔آجکل جو بچے اغواء ہو رہے ہیں ان کے والدین
پولیس کو خبر کرنے پہ بھی جب انہیں بازیاب نہیں کروا سکتے تو خود ہی رو پیٹ
کے صبر کر لیتے ہیں کیونکہ ہماری پولیس اتنی کارآمد ہے کہ آج تک ایک بھی
بچہ نہیں ڈھونڈ پائی اور جن ماؤں کے لخت جگر جن سے چھن گئے ہیں وہ نہ جیتوں
میں ہیں نا مردوں میں۔اگر یہی کسی خاص شخصیت کا بچہ گمے تو تمام ایجنسیاں
یوں حرکت میں آ جاتی ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے،
امیر دا مر گیا کتا تے سارا پنڈ نئیں ستا
ماڑے دی مر گئی ماں تے کوئی نہ لیندا ناں
ان حالات میں کوئی تعمیری خیال جلوہ افروز ہو تو ایسا ممکن نہیں۔اسی طرح کی
دوسری تخریبی سرگرمیوں نے عام شہری کو نفسیاتی مریض بنا ڈالا ہے وہ باہر
نکلنے سے بھی کتراتا ہے حتیٰ کہ سکولوں میں سیکورٹی کا انتظام سخت ہونے کے
باوجود لوگ بچوں کو سکول بھیجنے سے ہچکچا رہے ہیں ان حالات میں ایسا سوچنا
بھی خام خیالی ہے کہ نئی نسل کوئی بدلاؤ لائے گی۔یہ ہم لوگوں کے لئے ایک
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نئی نسل کو کیا مستقبل دے رہے ہیں ۔میری یہ دلی دعا ہے
کہ اﷲ پاکستان کے سارے مسائل حل کر دے اور ایک وقت ایسا آئے کہ پاکستان میں
بھی قدم جمانے کے لئے گرین کارڈ ضروری ہو اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی مصیبتیں
شارکس کی صورت ہماری زندگیوں کو متحرک کر نے میں مدد دیں نا کہ کسی بڑی
مصیبت کا پیش خیمہ ہوں۔ |