دہشت گرد
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
میرے موبائل نمبر پر مسلسل کالز آ رہی تھی
مگر میں جان بوجھ کر نظر اندازکر رہا تھا۔مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ
کال کرنے ولا کون تھا۔ مگر میں اُس کو نظر انداز کر کے ہی اچھا ہی کر رہا
تھا۔اگر میں ایسا نہ کرتا تو پھر جو میں کرنے جا رہا تھا وہ نہ ہو پاتا۔میں
نے اتنا اچھا موقعہ زندگی میں آگے بڑھنے کا حاصل کر لیا تھا ۔میں نے ایم۔اے
انگریزی کر لیا تھا مگر مجھے فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کرنے کابھی کوئی
صلہ نہ ملا تھا۔کتنی بار میں سرکاری نوکری کے لئے کوشش کر رہا تھا مگر مجھے
کوئی بھی بنا سفارش کے رکھنے کو تیار نہ تھا۔میری بوڑھی ماں نے کتنی محنت
سے ابا جان کی وفات کے بعد اپنی اکلوتی اولاد کے لئے قربانیاں دے کر مجھے
اس قابل بنایا تھا کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکوں۔
مگراس معاشرے نے مجھے اُس جگہ لا کھڑا کیا تھا کہ میں آج اپنی ہی زندگی کو
داؤ پر لگا چکا تھا۔ اسی وجہ سے عمرحیات جو میراجگری دوست تھا۔مجھے اپنے
ارادے سے باز رکھنے کیلئے فون کر رہا تھا کہ میں جو کرنے جا رہا ہوں ،وہ نہ
کروں اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دوں۔مگر مجھے شہر کے وسطی علاقے میں
دہشت گردی کے عوض پورے پانچ لاکھ دینے کا وعدہ کیا تھا اور میں ایسا کرنے
کے لئے تیار ہو چکا تھا کہ پچھلے تین سالوں سے انٹرویوز میں بُری طرح سے
ذلیل تو کیا گیا تھا مگر مجھے میری قابلیت کے مطابق نوکری پر رکھنے سے
انکار کردیا گیا تھا ۔انہی تین سالوں میں اپنی والدہ جو ٹی بی کے مرض میں
مبتلا ہو گئی تھیں۔ اُنکے اخراجات نہ کرنے کے سبب کھو چکا تھا اور میرے دل
میں انتقام کی آگ جل رہی تھی اور میں اب زندگی کی بقا کی خاطر معصوم جانوں
سے کھیلنے کو تیار ہو چکا تھا۔
ایک سرکاری ادارے نے مجھے اور عمرحیات کو اتفاقاََ دو الگ الگ پوسٹ کے لئے
بلوایا گیا تھا، دونوں ہی انٹرویو دینے گئے تھے ،وہاں اُس کی قسمت یاروی کی
وجہ سے نوکری ہو گئی تھی ۔مگر میں پھر بد نصیب رہا ۔میں اُس کو دل سے نوکری
ملنے کی بھی مبارکباد نہ دے سکا تھا اور جلد ہی اُس سے رخصت ہو کر ایک ہوٹل
میں اُسی سے اُدھار لئے پیسوں سے چا ئے پی رہا تھا ۔ جب وہاں ایک تخریبی
نتظیم سے تعلق رکھنے والے شخص نے میری شکل و صورت پر بارہ بجے دیکھ کر گپ
شپ شروع کی۔میرے حالات جان کر اُس نے اپنے ساتھ کام کی دعوت دی۔ شروع شروع
میں تو اُس نے مجھے پراپرٹی کے کاروبار ی دفتر میں کام کے لئے بلوایا۔مگر
پندرہ دن گذر جانے کے بعد اُس نے ایک جگہ بم رکھنے کے عوض پانچ لاکھ روپے
دینے کا وعدہ کیا تھا۔یہی وہ وقت تھا جب عمرحیات نے مجھے اپنے ارادے سے باز
رکھنے کی کوشش کی تھی۔کیونکہ چند روز قبل ہی میں نے عمرحیات کو اس بارے میں
آگاہ کیا تھا۔ مگر میں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنا پہلا مشن بخوبی پوراکر
لیا تھا۔اس دھماکے میں کئی جانیں گئی تھی لیکن مجھے اپنے گروہ میں اچھی
نظروں سے دیکھا جانے لگا ۔مگر دوسری طرف عمر حیات پھر بھی مجھے اس راہ پر
چلنے سے ایک اچھے دوست کی طرح روک رہا تھا۔
میں اشتہاری دہشتگردی سا بن گیا تھا۔پولیس کی جانب سے میرا خاکہ بھی جاری
کیا جا چکا تھا۔ مگر میں پھر بھی بنا خوف و خطر اپنی مذہوم کاروائیاں جاری
رکھے ہوئے تھا۔میرا رابطہ اپنے پُرانے دوستوں سے کم سا تھا۔مگر ایک عمرحیات
ایسا تھا ،جو مجھے ہر دوسرے تیسرے مہینے فون کر کے اپنے آپ کو پولیس کے
حوالے کرنے پر مجبور کرتا تھا مگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔مگر انہی
دنوں ایک جگہ دھماکہ اپنی نگرانی میں کرایا تھا اور ایک بوڑھے عورت ومرد
جان بحق ہو گئے تھے۔اُنکی ایک جوانسال بیٹی کو ٹیلی ویژن پرخبرنامے کی
رپورٹ ویڈیو میں روتے دیکھ کر میرا دل پہلی بار کچھ ملامت کر رہا تھا۔اگرچہ
مجھے دہشتگردی کی کاروائیاں کرتے ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے اور میں ابھی تک
سخت دل تھا مگر پہلی باراپنے کئے پر افسوس ہو رہا تھا۔
اُس دن کے بعد کھویا کھویا سا رہنے لگا تھا اور انہی دنوں میں عمرحیات نے
مجھے سے رابطہ کیا تھا اور ایک بار پھر سے اس راہ سے دور ہٹ جانے کا مشورہ
دیا تھا اور اس بار میں نے اسکی بات کو نظر انداز نہیں کیا اور اس بارے میں
سوچنے لگا تھا کہ میری زندگی کا مسقتبل اب کیا رہا گیا ہے اور ایسی قتل
وغارت سے مجھے کیا حاصل ہونا ہے۔تبھی میں نے اس حوالے سے ر عمرحیات کو کہا
تھا کہ وہ میرے لئے کوئی ایسی راہ تلاش کرے کہ میں دہشتگرد کی بجائے شریف
آدمی کہلوانے لگوں۔مجھے یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر میں اپنے آپ کو پولیس کے
حوالے کر دوں تو کہیں مجھے جعلی مقابلے میں مروا ہی نہ دیا جائے۔
دوسری طرف میں اپنی تنظیم والوں سے بھی دور رہنے لگا تھا اور تنظیم کے
سربراہ کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد جو شخص کرتا دھرتا بنا
تھا۔اُس کے ساتھ میرے پہلے ہی روابط کم تھے تو میں یوں بھی ’’کھڈے لائن‘‘
سا لگ گیا تھا اورمیرے باغی ہو جانے کے بعد میرے لئے مسائل کم ہی کھڑے ہونے
تھے۔شاید میری ماں کی دعا تھیں کہ میں یوں مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور
آسانیاں پیدا ہوئے جا رہی تھیں۔
عمرحیات نے اُ س لڑکی ماریہ کا پتا چلا لیا تھا جس کے والدین میرے ہی وجہ
سے کھو چکے تھے ۔اب میں اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کو تیار ہو چکا تھا ۔
عمرحیات نے بڑی مشکل سے ماریہ کو میرے ساتھ شادی کے لئے رضامند کیا تھا۔پھر
ایک دن ہماری شادی ہو گئی ۔ عمرحیات نے اپنے تعلقات کواستعمال کرتے ہوئے
میرے لئے بہت سے مسائل حل کر وا دیئے تھے۔میرے لئے اچھا وکیل کا بندوبست ہو
چکا تھا،میں نے اپنی گرفتاری پولیس کو دے دی تھی۔اُسکے بعد بہت کچھ ہوا تھا
اُس کی تفصیل میں جائے بغیر اتنا کہوں کہ عمرحیات نے اپنے مخلص دوست ہونے
کا حق ادا کر دیا تھا۔اُس نے میری سوچ کو بدل کر مجھے سے وہ کام کروالیا
تھا جس پر ہمت والے عمل کرتے ہیں۔اﷲ نے میرے لئے ہدایت کا اُس کو ذریعہ
بنالیا تھا اور ایک دہشگرد اپنے گناہ کی سزا بھگتنے کے بعد شریف اور نیک
زندگی کے لئے آمادہ ہو چکا تھا۔ماریہ بھی مجھے غلطی تسلیم کرنے پر معاف کر
چکی تھی۔
میرے خلاف کوئی بھی ٹھوس ثبوت نہ مل سکے تھے اور پولیس نے جو مقدمہ میرے
خلاف تیار کیا تھا وہ بہت ہی کمزور تھا۔عدالت نے عدم ثبوت کی بناء پر زیادہ
سزا دینے سے گریز کیا تھا۔پولیس نے اپنی کوشش کی تھی مگر میرے اپنے گناہوں
کو تسلیم کرنے اوروکیل کی محنت نے زیادہ سزا سے بچ لیا تھا۔مجھے معز ز
عدالت نے بالآخرتین سال کی سال سنادی ہے اور اب اس سز اکے گذرجانے کے بعد
میں اپنے گناہوں کا مزید کفارہ ادا کروں گا۔مگر مجھے بس یہ بتانا ہے کہ
برائی کی دنیا بہت گندی ہے لیکن تھوڑے مزے کے بعد اس کا انجام عبرتناک سا
ہے ۔آپ اس سے دور رہنے کی کوشش کریں تاکہ کل کومیری طرح زندگی کے چند سال
جیل میں گذارنی نہ پڑے جائے۔مگر یہاں یہ بھی کہوں گا کہ اچھے دوست بھی
بنائیں تاکہ کل کلاں کو آپ کے لئے فخر کا باعث بھی بن سکیں ۔ |
|