اوائل مئی کے دن تھے گلفام سکول سے واپس
گھر جا رہا تھا - چلچلاتی دھوپ نے اسے جھلسا کے رکھ دیا تھا سونے پہ سہاگہ
چپل ٹوٹ گئی - سڑک کے کنارے پہ چلتے ہوئے پاؤں کے نیچے اگر بجری آ جاتی تو
اسے ایسے لگتاجیسے دہکتے انگاروں پہ قدم رکھ دیا ہو- پیاس کی شدّت سے گلفام
کے ہونٹ خُشک ہو رہے تھے وہ کبھی سُوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیرتا اور کبھی
سامنے دیکھتا کہ گھر کب آئے گا - اللہ اللہ کر کے گھر پہنچا بیگ رکھااور
ٹوٹی ہوئی چپل سائیڈ پہ رکھ کر صحن میں لگی ٹونٹی سے منہ دھونے لگا- اندر
سے حنا مامی کی آواز آئی گُلّو تُو آ گیا ہے؟ دل تو اسکا کیا کہہ دوں نہیں
آیا مگر اسکے بعد جو درگت انھوں نے اسکی بنانی تھی وہ خوب جانتا تھا اس لیے
جی آ گیا ہوں کہتے ہوئے انکے کمرے میں چلا آیا- لائٹ گئی ہوئی تھی مگر اے -
سی پہلے شائد چلتا رہا تھا اس لیے کمرہ ابھی تک ٹھنڈا تھا- اسے ایسے لگا
جیسے یکدم وہ جہنم سے جنّت میں آگیا ہو- حنا مامی نے ہزار کا نوٹ گلفام کے
ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا جا گُلّو ذرا بازار سے دو کلو رسّ گُلّے اور دو
درجن چکن سموسے لےآ.. اور ہاں پہلے تندور پہ جا کر تیس نان کا آڈر دے دینا
پھر دوسری چیزیں لے کر نان لیتے ہوئے گھر آ جانا حلیم میں نے گھر میں بنا
لی ہے شام چار بجے گھر پہ قرآن خوانی ہے - گُلفام نے ڈرتے ڈرتے کہا مامی
میری چپل ٹوٹ گئی ہے تو اور میرے پاس چپل نہیں ...ابھی اسکی بات پوری بھی
نہیں ہوئی تو حنا مامی ہتھے سے اُکھڑ گئیں ۔ ارے ہزار کا نوٹ دیکھتے ہی
تمہاری رال ٹپکنے لگی؟ جو ساتھ ہی جوتی کا بہانہ گھڑ لیا..؟ پیسے کوئی
درختوں پہ نہیں لگتے جو تیری عیاشیوں پہ اُڑا دوں..باپ تیرا مر گیا تھا تو
تُو بھی ساتھ ہی مر جاتا.. ماں تیری نے نیا بیاہ رچا لیا اور تُجھے ہمارے
سر پہ منڈھ دیا- جا اب دفعہ ہو جلدی چیزیں لے آ- انھوں نے اسے دوہتڑ لگاتے
ہوئے غصے سے کہا تو ننگے پاؤں بازار چل دیا- وہ تین سال کا تھا تو اسکے باپ
کا انتقال ہو گیا تھا بلڈ پریشر ہائی ہوجانے کی وجہ سے دماغ کی شریان پھٹ
گئی تھی دس دن کومہ میں رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے- ماں ابھی جوان
تھی سال بھر تو ساتھ رہی اسکے بعد گلفام کی نانی نے انکی آگے شادی کر دی کہ
گلفام کو میں سنبھال لوں گی تم اپنا گھر بساؤ ساری زندگی اکیلے کیسے گزارو
گی- جب تک نانی زندہ رہیں گلفام کا بہت خیال رکھا سکول بھی ڈال دیا - ایک
دن سکول سے واپس آیا تو نانی چار پائی پہ پڑی تھیں عورتوں سے گھر بھرا ہوا
تھا اسکی ماں بھی رو رہی تھی کچھ دیر بعد چار پائی کو اسکے ماموں اور باقی
کچھ اور لوگ اٹھا کر لے گئے اسکے بعد اسے نانی کبھی نظر نہیں آئیں - ماں
بھی کچھ دن تو ادھر رہی پھر چلی گئی -
حنا مامی نے اسے گلفام سے گُلّو بنا دیا - گھر کی صفائی سے لے کر برتن حتٰی
کہ کپڑے تک دھلوا لیتی وہ ٹھیک سے نہ کر پاتا تو تو حنا مامی کا ہتھ اٹھتا
اور اسے پورے جسم اور مہنہ پہ نشان چھوڑ جاتا وہ مار سے ڈرتا تھا اس لیے ہر
کام کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا..نتیجتاً اب دس سال کی عمر میں وہ ہر ہانڈی
روٹی کے علاوہ ہر کام بہت اچھی طرح کرتا تھا - وہ حنا مامی کا ہر حکم مانتا
تھا بس سکول چھوڑنے کی بات وہ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا اسے
پڑھنے کا بہت شوق تھا اور ماسٹر صاحب بھی اسکا شوق دیکھتے ہوئے اس سے فیس
نہیں لیتے تھے- شام کو وہ بیٹھا اپنی ٹوٹی ہوئی چپل سلائی کر رہا تھا کہ کل
سکول یہی پہن کے جاؤں گا تو حنا مامی سب عورتں کو بڑے فخر سے بتا رہی تھیں
کہ ابھی اس مہینے کے آخر میں بہت بڑا میلاد بھی کرواؤں گی اللہ کی راہ میں
دینے کا بہت شوق ہے مجھے- ٹپ ٹپ آنسو گلفام کے گالوں سے ہوتے ہوئے اسکا
دامن بھگو رہے تھے - قارئین ! وہ بہت ہی خوش قسمت انسان ہوتا ہے جو اللہ کی
راہ میں خرچ کرتا ہے - میلاد کروانا بھی ثواب کا کام ہے مگر ہمیں اپنے آس
پاس دیکھنا چاہے جو بہت غریب یتیم اور نادار لوگ رہتے ہیں ان کی مدد کرنا
بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کہلاتا ہے- بڑے بڑے میلاد کروانا دکھاوے کی
سخاوت اور عبادت کسی کام کی نہیں - حضور نبی کریم صلی الله علیہ والہ وسلم
نے فرمایامسلمانوں میں سب سے بہترین ہے وہ گھر جس میں کوئی یتیم رہتا ہو
اور اس سے اچھا سلوک کیا جاتا ہو- اور سب سے بد ترین وہ گھر ہے جس میں کوئی
یتیم رہتا یو اور اس سے بُرا سلوک کیا جاتا ہو- |